پیار نے درد کو چن لیا عابدہ زی شیریں دعا نے ماں کو اتفاق نگر جانے کی تیاری دیکھ کر روکنے کی کوشش کی. دعا نے کہا ماما مجھے بھی ساتھ رکھ لیں...
پیار نے درد کو چن لیا
عابدہ زی شیریں
دعا نے ماں کو اتفاق نگر جانے کی تیاری دیکھ کر
روکنے کی کوشش کی. دعا نے کہا ماما مجھے بھی ساتھ رکھ لیں میں آپ کو بہت مس کرتی ہوں.
میرا دل آپ کے بغیر نہیں لگتا ہے.
تانیہ نے اسے قدرے پیار بھرے غصے سے سمجھایا کہ
تم کب بڑی ہو گی. جب میں جانے لگتی ہوں بچوں کی طرح ضد کرنے لگتی ہو. اب تم چھوٹی تو
نہیں ہو ناں. جوان ہو سیکنڈ ایر کی طالبہ ہو. میرا خواب تمہیں پڑھا کر کسی مقام پر
لانے کا ہے تاکہ تم ماں کی طرح کسی اتفاق نگر کی حویلی میں ملازمہ نہ بن کر رہو. تم
ماں کی مشکلات کب سمجھو گی. کیا میرا دل نہیں کرتا میں اپنی بیٹی اپنے والدین کے ساتھ
رہوں. ہم غریب لوگ ہیں. معاشی مسائل کا شکار ہیں. اسی مسئلے سے نمٹنے کے لئے تمھارے
نانی نانا نے مجھے ایک شادی شدہ امیر آدمی سے بیاہ دیا. جس کی پہلے ہی ایک بیوی اور
ایک بیٹا تھا. اس نے مجھے دیکھا اور میرے والدین کو دولت سے رام کر لیا اور نکاح کے
عوض میرے والدین کو یہ پانچ مرلے کا گھر لے دیا کچھ مالی امداد بھی کی. نکاح کے بعد
اس نے مجھے ادھر ہی رکھا. اس نے نکاح کو خفیہ رکھا. جب تم پانچ برس کی ہوئی تو وہ اپنے
گاؤں میں دل کے اٹیک سے اچانک فوت ہو گیا. میں نے سنا تو روتی دھوتی اس کے گاؤں پہنچی.
باہر ہی میرے شوہر کا سسر کھڑا تھا ان سب کا غائبانہ تعارف میرے شوہر نے تصاویر وغیرہ
دکھا کر کروایا تھا. میں نے اسے پہچان کر اس کے پاس جا کر کہا کہ مجھے آپ سے کچھ بات
کرنی ہے. وہ تھوڑا حیران ہوا اور مجھے ایک ساہیڈ پر لے گیا. جب میں نے اسے سچائی بتائی
تو وہ مجھے گھورنے لگا میں نے اسے بتایا کہ میرے پاس نکاح نامہ بھی موجود ہے اس کی
فوٹو کاپی میں ساتھ لائی ہوں اسے دیکھائ تو اس نے جیب میں ڈال لیا اور مجھ سے پوچھا
کوئی بچہ وغیرہ ہے میں نے دانستہ طور پر اس سے چھپایا کہ یہ بڑے لوگ میری بیٹی سے دشمنی
نہ کرتے رہیں. میں نے جھوٹ بولا کہ میری کوئی اولاد نہیں ہے.
اس نے مجھ سے پوچھا کہ تم کیا چاہتی ہو. میں نے
کہا کہ مجھے کچھ نہیں چاہیے بس ویسے ہی اپنے شوہر کے آخری دیدار کو آئی تھی. ہمارا
کوئی زریعہ آمدنی نہیں ہے. مجھے کوئی ایسا کام مل جائے کہ میں اپنے بوڑھے والدین کو
پال سکوں
اس نے مجھے کہا کہ تم زبان بند رکھنا ورنہ تم پچھتاو
گی میری بیٹی کو پتا چلا کہ تم اس کی سوکن ہو تو وہ تمھارا برا حشر کرے گی. عافیت اسی
میں ہے کہ تم ہمیشہ زبان بند رکھو اور میری بیٹی کو زہنی ازیت میں مبتلا نہ کرو. میں
تمھاری مالی سپورٹ کروں گا یا تو ہر مہینے خرچہ دوں گا یا ایک ہی بار موٹی رقم لے لو.
اس کے علاوہ اگر تم جاہو تو اس اتفاق نگر میں میری بیٹی کی ملازمہ بن کر رہ سکتی ہو
اس کی تمھیں عام ملازمین کی طرح تنخواہ ملے گی. بولو کیا منظور ہے دوسری صورت میں زلت
کے علاوہ کچھ نہ ملے گا.
تانیہ نے کہا کہ مجھے آپ یکمشت امداد کر دیں ہر
ماہ آپ کو بھی ٹینشن رہے گی. اس کے علاوہ مجھے روزگار کی بھی تلاش ہے اگر اس گھر میں
آپ کی بیٹی کی خدمت کا موقع ملے تو مجھے منظور ہے.
پھر وہ اسے اپنی روتی دھوتی بیٹی کے پاس لے گیا
اور بولا بیٹی یہ ایک غریب عورت ہے کسی نے مجھے اس کو ملازمت کے لئے بھیجا ہے اس کے
بوڑھے والدین ہیں بیوہ ہے اولاد بھی نہیں ہے شہر میں اس کے والدین اپنے ایک چھوٹے سے
گھر میں رہتے ہیں. تم اسے اپنی خدمت کے لیے رکھ لو اور جو مناسب لگے اسے تنخواہ دے
دینا.
اس کی بیٹی نے اسے دیکھا اور کہا ٹھیک ہے ابھی سے
کام پر لگ جاو. میرے آس پاس ہی رہنا اور میرا حکم بجا لانا اس نے اس کی تنخواہ مقرر
کر دی جو تانیہ کے لیے بہتر تھی.
تانیہ نے روتے ہوئے سوکن کو بتایا کہ اسے بھی آج
اپنے شوہر کی یاد آ رہی ہے جب وہ بھی آپ کی طرح بیوہ ہوئی تھی اس کا شوہر بہت اچھا
تھا. وہ اس کو یاد آ رہا ہے.
اس کی سوکن اکڑخان اور غصے والی تھی بس ہوں کر کے
اسے دیکھ کر رہ گئی.
تانیہ جو اپنے عمررسیدہ شوہر کو بھی قبول کر چکی
تھی جس نے اس کے والدین کو گھر کی چھت فراہم کی تھی اپنا گھر ان کا خواب تھا والدین
نے اس سے بہت معزرت بھی کی تھی اور اپنی مجبوری بتائی تھی.
تانیہ والدین کی مجبوری سمجھتی تھی اس لیے وہ اندر
سے ناخوش ہوتے ہوئے بھی والدین کے سامنے خوشی کا اظہارِ کرتی تھی.
اس کے شوہر نے اسے پانچ سالوں میں کوئی تکلیف نہ
پہنچائی تھی وہ اکثر آتا رہتا اور اس کے لئے تحفے بھی لاتا. وہ بتاتا کہ اس کی بیوی
اس سے تقریباً آٹھ سال بڑی ہے. اپنے خاندان کی ہے. بہت اکڑو اور غصے والی ہے. جہیز
میں مربے بھی لائ تھی اور اس کے والدین اس کی قدر کرتے تھے جبکہ وہ خوش نہ تھا. اس
نے اپنی مجبوری بتاتے ہوئے کہا تھا کہ وہ اس شادی کو کھبی اوپن نہیں کر سکے گا اس میں
خاندان سے لڑنے کی طاقت نہیں ہے. وہ تانیہ کے پاس آ کر سکون محسوس کرتا. اپنی بیٹی
سے پیار کرتا وہ کہتا اسے اعلیٰ تعلیم دلوانا.
بیٹی بھی باپ کی راہ تکتی رہتی. وہ اس کی من موہنی
باتوں سے خوش ہوتا. اس کو یہاں آ کر سکون ملتا. وہ اس کے والدین کی بھی عزت کرتا. تانیہ
مطمئن رہنے لگی عمر کے اس فرق کے باوجود وہ اب خوش تھی مگر اس کے پرانے وفادار ملازم
جو اس راز میں شریک تھا اطلاع دینے پر چلی آئی تھی. اسے ادھر رہنے کا ٹھکانہ بھی مل
گیا اور شوہر کا آخری دیدار بھی نصیب ہو گیا.
اس کی سوکن کے باپ نے اس کے والدین کو رقم دے دی.
تانیہ نے فون پر والدین کو تمام صورتحال بتا کر دعا کا نہ بتایا. اس کے والدین نے اس
کی بات پر عمل کیا کیونکہ اب وہ ان کا سہارا تھی.
تانیہ کی زندگی اب ایک نئی ڈگر پر چل پڑی تھی اپنی
بیٹی کو اعلیٰ تعلیم دلانے کے خواب کو پورا کر رہی تھی. مہینے کے آخر میں اسے چند دن
کی چھٹی مل جاتی. والدین اس کی بیٹی کو پیار سے پال رہے تھے. نانا اسے اسکول باہک پر
لانے لے جانے کی ڈیوٹی دیتا نانی گھر کو سنبھالتی.
تانیہ سوکن کے بیٹے کو پیار کرتی اسے اچھی بری باتوں
کی تمیز سکھاتی وہ اس سے کافی مانوس تھا ویسے بھی وہ ٹین ایج میں تھا وہ اسے اعلیٰ
تعلیم حاصل کرنے کی ترغیب دیتی.
سوکن اس سلجھی ہوئی سمجھدار لڑکی سے بہت خوش تھی
جو اسے کھبی ڈانٹ کا موقع نہ دیتی سارے گھر کا نظام اچھی طرح سے اس نے سنبھال لیا تھا
اس کے ساس سسر بھی اس سے خوش تھے. وہ اپنے ہی سسرال میں ایک نوکر کی حیثیت سے رہ رہی
تھی.تانیہ جب اپنے گھر وقت گزار کر اتفاق نگر جاتی تو اداس رہتی. َاس کی سوکن اس سے
اچھا رویہ رکھتی.
تانیہ سوچتی اگر اس کی سوکن کو زرا سی بھی بھنک
پڑ جائے کہ وہ اس کی سوکن ہے اور اس میں سے ایک بیٹی بھی ہے تو وہ اس کا حشرنشر کر
دیتی. اس نے سنا کہ ایک بار خاندان میں کسی نے اسے اور اولاد نہ ہونے کے سبب دوسری
شادی کا مشورہ دیا تو اس نے وہ قیامت ڈھائی کے ان لوگوں سے ہمیشہ کا ناطہ توڑ دیا.
ساس سسر اس کے آگے بےبس تھے کہ وہ ان کے اکلوتے
بیٹے _کی بیوی تھی.پھر ان کی بیٹی کی شادی بھی اس کے بھائی سے ہو چکی تھی. اس لئے وہ
بےبس تھے.ویسے بھی وہ شریف اور رحم دل تھے جبکہ ان کی بہو کے گھر والے ان سے مختلف
تھے. دونوں بھائی تھے مگر عادات میں فرق تھا. بہو کا بھائی اس کا ایک ہی بیٹا تھا اس
کی بیوی بیمار رہتی تھی. وہ اس سے چار سال بڑی تھی. اس کا بھی ایک بیٹا اور ایک بیٹی
تھے جو جو تانیہ کی سوکن کی ہونے والی بہو تھی.
تانیہ کی بیٹی دعا کو غربت کی وجہ سے احساس کمتری
کا شکار رہتی. اس کا ماں کا اپنے سسرال میں نوکرانی بن کر رہنا کھٹکتا تھا. وہ اپنے
باپ پر اس کی دولت پر فخر اور رشک کرتی تھی. اس نے ماں سے کئی بار اتفاق نگر جانے اسے
دیکھنے کی ضد کی. اپنے دادا دادی سے اپنے بھائی سے ملنے کو جانا انہیں دیکھنا چاہتی
تھی مگر ماں اجازت نہ دیتی تھی.
تانیہ بیٹی کو سمجھاتی اگر انہیں پتا چل گیا کہ
ہم کون ہیں تو میری سوکن جو ہمارے سر پر چھت کا آسرا ہے. تو جو تعلیم حاصل کر رہی ہے
گھر کا جو خرچہ چل رہا ہے ان سب سے محروم کر دیں گے اور دشمنی الگ.
ہم ان سب باتوں کے متعمل نہیں ہو سکتے. اپنی تقدیر
پر شاکر رہو. اسی کو اپنی قسمت سمجھو. ورنہ کیا اتنے بڑے گھر کا آدمی مجھ سے شادی کرتا.
میری جوانی اور خوبصورتی میری اس کی طرف راغب ہونے کا باعث بنی. اگر ہم غریب نہ ہوتے
تو کیا کوئی امیر اپنی بیٹی کو عمر رسیدہ شخص سے بیاہتا. میں نہیں چاہتی کہ تو وہاں
جاے اور کسی عمر رسیدہ کی نظر تجھ پر پڑے اور پھر ماں کی طرح کی قسمت پاے. تجھے میں
کسی جوان سے بیاہوں گی تو بہت خوبصورت ہے.
تانیہ کو اتفاق نگر میں کافی سال گزر چکے تھے اب
تو سب سے اس کا دل لگ چکا تھا. سوکن کے سسر آتے اسے غصے سے دیکھتے. وہ ان سے خوفزدہ
رہتی. موقع ملتے ہی وہ اسے وارننگ دیتے رہتے.
سوکن کا بھائی اس نے جب اسے پہلی بار دیکھا تھا
تب سے وہ اسے گہری نظروں سے دیکھتا تھا. وہ اس کی نظروں سے الجھن محسوس کرتی تھی پھر
چند سال بعد موقع ملتے ہی وہ اسے شادی کی آفر کرتا اسے الگ رکھنے کا وعدہ کرتا مگر
ساتھ ابھی شادی کو خفیہ رکھنے کا بولتا. وہ نہ مانتی اب تو اس کی بیوی کو ڈاکٹر نے
جواب دے دیا تھا.
اس کا اصرار بڑھتا جا رہا تھا ایک دن موقع پا کر
جب سب گھر والے خاندان کی کسی تقریب میں شرکت کے لئے گئے تھے اور وہ گھر جانے کی تیاری
کر رہی تھی. جوں ہی وہ گھر سے نکلی اسے اغواء کر لیا گیا اور پھر وہ تانیہ وقار بن
گئ. وقار صاحب نے اسے کہا کہ تم اب میری منکوحہ ہو. جب تک میری بیوی زندہ ہے. میں اس
شادی کو خفیہ رکھوں گا پھر کسی مناسب موقع پر اسے اوپن کر دوں گا. اس نے اسے خرچے کے
لئے موٹی رقم دی جو تانیہ نے روتے ہوئے غصے سے پھینک دی.
وقار صاحب نے اسے پیار سے مسکرا کر دیکھتے ہوئے
کہا کہ یہ تمھارا حق ہے.
تانیہ نے غصے سے کہا کہ اگر حق ہے تو پھر پورا حق
دیں لے چلیں مجھے اپنے گھر اور سب کے سامنے اعلان کریں گے میں آپ کی بیوی ہوں. وہ بےتحاشا
روتے ہوئے بولی اس عمر میں آپ نے مجھے زلیل کر کے رکھ دیا. اتفاق صاحب کا نام ہٹا کر
مجھے تانیہ وقار بنا دیا. اس نے روتے ہوئے گلہ کیا کہ اتفاق صاحب نے کم از کم میرے
والدین سے عزت سے رشتہ مانگ کر مجھے ان کی دعاؤں میں اپنایا تھا. مگر آپ نے تو چوروں
والا کام کیا ہے. میں سب کو کیا منہ دیکھاوں گی جب میرے اپنوں کو پتا چلے گا میرے والدین
کتنے دکھی ہوں گے. اس عمر میں میں نے شادی کر لی.
وقار صاحب نے کہا کہ میری بھی کچھ مجبوریاں ہیں.
میری بیوی کو ڈاکٹر نے جواب دے دیا ہے. میں اسے اس اسٹیج پر دکھ نہیں دینا چاہتا. پھر
تم مجھے بہت پہلے پہلی نظر میں پسند آ گئی تھی. میں تب سے تمہیں شادی کے لیے رام کر
رہا ہوں اور تم مجھ سے گریزاں رہی. اگر تم پہلے ہی مان جاتی تو میری بہن کو تمھاری
عادت نہ رہتی اور تمھیں اس گھر میں اس طرح نہ رہنا پڑتا. میں تمہیں شہر میں گھر لے
دیتا اور وہاں آتا جاتا رہتا. اب تم اس گھر کی ضرورت بن چکی ہو میری بہن کو تمھاری
عادت ہو چکی ہے. تم اب کچھ وقت اسی طرح ادھر ہی رہو گی اور میں تمھارے والدین کو خرچہ
دیتا رہوں گا پھر جلد ہی تمہیں اس گھر سے نجات دلا دوں گا.
تانیہ نے موقع ملتے ہی فون پر والدین کو سب کچھ
بتا دیا اور دعا کو ابھی نہ بتانے کا کہا کہ جب تک اس کی شادی نہیں ہو جاتی اسے ڈسٹرب
نہیں کر سکتی اس کے زہن پر برا اثر پڑے گا اور وہ ادھر حق جتانے بھی آ سکتی ہے.
اس نے وقار کو بھی بیٹی کا نہ بتایا کیونکہ اسے
ڈر تھا کہ مجھ بوڑھی عورت کو بھی ان امیرزادوں نے زبردستی اپنی بیوی بنا لیا جبکہ میری
بیٹی تو حسین اور جوان ہے اگر اس پر کسی عمررسیدہ کی نظر پڑ گئی تو اس کی زندگی بھی
امیر آدمی کی بیوی ہونے کے باوجود ایک رکھیل جیسی زندگی گزارے گی جو غریب ہونے کے سبب
اپنے حق کے لئے آواز نہیں اٹھا سکتی. جبکہ اس کی بیٹی نادان ہے جانتی نہیں کہ یہ امیر
لوگ ہم غریبوں کو ان کا جاہز حق نہیں دے سکتے. پھر میرے والدین بوڑھے لاچار بیٹی کی
کمائی کے محتاج ہیں. اور ہم بےبس عورتیں ان کا مقابلہ نہیں کر سکتی ہیں.
اس نے وقار صاحب کو مجبوراً قبول کر لیا اس کے علاوہ
اس کے پاس کوئی چارہ نہ تھا.وہ اب سوکن کے باپ سے ڈرنے لگی کہ اگر اسے علم ہو گیا تو
وہ کیا کرے گا وہ پہلے ہی اسے ہر وقت دھمکیاں دیتا رہتا تھا کہ اس گھر کو اپنا سسرال
سمجھنے کی غلطی نہ کرنا. ادھر تمھاری حیثیت صرف ایک ملازمہ کی سی ہے.
اسے اپنی جوان خوبصورت بیٹی کی فکر لگی رہتی اس
کے مستقبل کے لئے پریشان رہتی. اسے بیٹی کا مستقبل تاریک نظر آتا. بیٹی غربت کی زندگی
گزارنے پر آمادہ نہ تھی وہ کسی غریب سے شادی کا سوچ بھی نہ سکتی تھی. وہ ایسے خیالات
کا بار بار اظہار کر کے وارننگ دے چکی تھی. مگر اس کے چھوٹے سے گھر اور اس محلے میں
کون جوان امیر زادہ اسے بیاہنے آئے گا. اگر کوئی امیر آیا بھی تو وہ جوان نہ ہو گا.
یہ بات وہ اچھی طرح جانتی تھی مگر بیٹی امیر باپ کی بیٹی ہونے کے زعم میں تھی. وہ نہیں
جانتی تھی کہ وہ ان کے عتاب سے تب تک بچی ہے جب تک ان کو سچائی کا علم نہیں. جوں ہی
سچائی کھلی وہ ان پر زندگی کا گھیرا تنگ کر دیں گے اور جو ابھی سکون سے گزر رہی ہے
اس سے بھی ہاتھ دھونے پڑیں گے.
تانیہ سوکن کو چاے دینے گئی تو دھلے کپڑوں کے ڈھیر
کو تہہ کرنے کا اس نے اشارہ کیا. پھر اس نے اپنی ساس سے باتیں کرتے ہوئے کہا کہ وہ
وقار کی شادی کرواے گی اور اس کے لیے اس نے چند بڑے گھروں میں رشتہ دیکھنا شروع کر
دیا ہے. بھابی نے بھی اجازت دے دی ہے بلکہ وہ تو کہتی ہے کہ جلدی کریں تاکہ میں اس
کو دیکھ سکوں اور اس گھر کے اہم امور پر اسے سمجھا بجھا سکوں. بڑے دل کی مالک ہے میری
بھابی.
ساس نے روتے ہوئے کہا کہ مجھے بھی کوئی اعتراض نہیں
تم لڑکیاں دیکھو.
تانیہ کی ساس بولی ویسے تو نام لیا ہی ہے تو اس
کے خاندان بھر سے رشتے آنا شروع ہوگئے ہیں. ابھی کل ہی واجد صاحب نے اپنی بیٹی کے لیے
فون کیا مگر میں نے معزرت کر لی بےشک ان کی بیٹی جوان ہے خوبصورت ہے مگر بیوہ ہے اور
اولاد بھی نہیں. کیا پتا شادی کے بعد بھی اولاد نہ ہو سکے پچھلے شوہر سے اس کی اولاد
نہ تھی. میرا بھائی پڑھا لکھا ہے اور وہ چند کلاسیں پڑھی ہوئی توبہ کریں. میں تو شہر
سے کوئی کنواری جوان لڑکی کا رشتہ تلاش کروں گی بےشک غریب ہو اچھا ہے دب کر رہے گی.
تانیہ یہ باتیں سن کر اندر سے لرز گئ.
وقارنے تانیہ کے لے اپنی بہن کو فون کیا کہ تمھاری
بھابی بیمار ہے تو اپنی ملازمہ ادھر بھیج دو ہمیں ایک اس وقت خدمتگار اور بھروسے والی
عورت کی سخت ضرورت ہے. بہن نے ساس کو بتایا وہ بیٹی کے لیے پریشان تھی اس نے کہا کہ
ہمیں پہلے خیال نہ آیا چلو اچھا ہے اس گھر میں اس کی زیادہ ضرورت ہے. اس نے وقار کو
فون کر دیا کہ ڈرائیور کو بھیجو آ کر لے جائے.
وقار نے بہن سے کہا کہ اس نے کسی کام سے آنا ہے
وہ خود ہی آ کر لے جائے گا.
تانیہ کو اس کی بہن نے کہا کہ وہ سارا سامان لے
جائے اسے اب ادھر لمبے عرصے تک رہنا ہے.
وقار نے اس کا سامان ڈگی میں رکھا اور ساتھ حکم
دیا کہ گاڑی میں بیٹھ جاو.
تانیہ پچھلی سیٹ پر بیٹھ گئی.
کچھ آگے جاکر اس نے تانیہ کو آگے بیٹھنے کا حکم
دیا اور گاڑی روکی.
تانیہ نے طنزیہ انداز میں کہا کہ ملازمہ کو آگے
بیٹھنا زیب نہیں دیتا.
وقار تیز آواز میں بولا تم میری بیوی ہو.
تانیہ نے دکھ سے بھرے لحجے میں کہا کہ تو پھر اپنے
گھر بیوی کی حیثیت سے لے کر جاو ناں ملازمہ پلس رکھیل والی حیثیت سے کیوں لے کر جا
رہے ہو.
وقار نے کہا کہ تمھارا گلہ جاہز ہے. پہلے تم آگے
آو پھر میں سب باتوں کا جواب دوں گا.
وہ بولی کیا گھر مجھے آگے بٹھا کر لے کر جائیں گے.
وہ بولا نہیں اس وقت تم پیچھے بیٹھو گی تم آگے آتی
ہو یا پھر میں سختی کروں.
تانیہ مجبور ہو کر آگے بیٹھ گئی.
وقار اسے بازار لے کر گیا اور اسے کپڑے، جوتے اور
ضرورت کا سامان زبردستی لے کر دیا اور ضرورت کا سامان.
ووہ بولا پرانا سب پھینک دو کتنے سالوں سے وہی گسے
پٹے کپڑے پہن رہی ہو. مجھے بہت افسوس ہوتا تھا جب میں تمہیں اتنی محنت کرتے دیکھتا
تھا. تم مجھے پہلی نظر میں ہی پسند آ گئ تھی جب میں کنوارہ تھا اور باہر ملک سٹڈی کے
لیے گیا ہوا تھا. میں آپا سے لاہیو بات کر رہا تھا. بڑی سکرین پر آپا مجھ سے بات کر
رہی تھی تم خاموشی سے کمرے میں کپڑے پریس کر رہی تھی. پھر مجھے پتا چلا کہ تم بیوہ
ہو. میں نے بہانے سے پوچھا کہ ایک بیوہ ہے میرے ساتھ پڑھتی ہے کافی سلجھی ہوئی ہے مجھے
اس کی عادات بہت پسند ہیں کیا خیال ہے آپ کا اس سے میں شادی....
آپا نے غصے سے دھاڑ کر کہا کہ دوبارہ ایسی بات سوچی
تو میں قیامت لے آوں گی اچھا ہے تم دور تھے ورنہ نہ جانے میں کیا کر بیٹھتی.
اس کے بعد میں مایوس ہو گیا اور اپنی بچپن کی منگیتر
اپنے سے پانچ سال بڑی آپا کی نند سے شادی کر لی. وہ بہت اچھی بیوی ثابت ہوئی. اس نے
مجھے ہمیشہ مجبور کیا کہ میں اپنی عمر سے چھوٹی لڑکی سے شادی کر لوں. آپ اتنے پڑھے
لکھے اور میں انپڑھ.
وقار نے کہا کہ کہ اگر گھر والوں کا خوف نہ ہوتا
تو میں ایک منٹ بھی دیر نہ لگاتا. ابھی بھی وہ زور دے رہی ہے. جب سے اسے اپنی بیماری
کا پتا چلا ہے. اور آپا تو میرے لئے کنواری، جوان لڑکی ڈھونڈ رہی ہیں. مگر میں تمہیں
اب کسی صورت کھونا نہیں چاہتا تھا کیونکہ کسی نے آپا کو مشورہ دیا تھا کہ اس کی بھی
اپنے کسی ملازم سے شادی کروا دو جوان ہے ابھی. وہ تمھارے لیے رشتے کی تلاش میں تھی.
تانیہ یہ سن کر حیران رہ گئی.
وقار نے اسے وعدہ کیا کہ وہ زرا صبر کرے وقت آنے
پر وہ جب نکاح کی جرات کر سکتا ہے تو اسے سب کے سامنے اوپن بھی کر سکتا ہے.
تانیہ خاموش ہو گئ اور قسمت کے اس کھیل پر حیران
تھی کہ جب اسے اپنا ہم عمر ملا ہے تو وہ خوش بھی کھل کر نہیں ہو سکتی. جو باقاعدگی
سے اس کے والدین کو اچھی خاصی رقم ہر ماہ خود دے کر جاتا ہے. اس کے والدین بہت خوش
ہیں. بس دعا سے مشکل سے چھپا پاتے ہیں. وہ ہر بار اتفاق سے گھر نہیں تھی.
وقار کو اس کے باپ نے فون کیا کہ بیٹا ملازمہ کو
کچھ اچھے کپڑے وغیرہ لے دو اس نے کافی سال تمھاری بہن کے گھر والوں کی بے لوث خدمت
کی ہے. تمھاری بہن تو ویسے بھی کنجوس مشہور ہے.
وقار نے زرا بےزاری کی ایکٹنگ کی اور بولا سانس
بھر کر بولا ٹھیک ہے ابا جان.
وہ بولا شاپنگ تو ہم نے جلدی جلدی کر لی اب سکون
سے دن کا کھانا کھاتے ہیں اور پھر چلتے ہیں.
وہ فیملی ریسٹورنٹ میں بیٹھی اس کے سامنے کھانا
کھاتے ہوئے سوچ رہی تھی کہ کیا واقعی وقار اسے دنیا کے سامنے اپناے گا. اسے یہ سب خواب
لگ رہا تھا اس کی پیار بھری دلفریب باتوں میں وہ کھو سی گئی تھی.
جب وہ اس کے سنگ اس کے گھر پہنچی تو ایک عجیب احساس
تھا وہ جا تو ایک ملازمہ کی حیثیت سے رہی تھی مگر اس کے ساتھ وقار کا پیار بھی شامل
تھا.
گھر میں اس کا سامنا وقار کے باپ سے ہوا مگر وہ
نارمل رہا. وہ اس کے رویے پر حیران تھی جو پہلے ہر وقت اسے دھونس جما کر وارننگ دیتا
رہتا تھا اب وہ اس سے بہت اچھے طریقے سے پیش آ رہا تھا کھبی بیٹی بھی پکار لیتا.
وقار کی بیوی بہت اچھی تھی اس سے محبت سے پیش آتی.
اس کا بیٹا اور بیٹی بھی اس کی عزت کرتے. وقار کی ماں تانیہ سے خوش تھی اس نے آتے ساتھ
گھر کے نظام کو اچھی طرح سے سنبھال لیا تھا. وقار نے اپنے گھر والوں کو صاف کہہ دیا
تھا کہ یہ صرف میری بیمار بیوی کی دیکھ بھال کے لئے آئی ہے اس سے باقی گھر کے کاموں
سے دور رکھا جائے تاکہ میری بیمار بیوی کا حرج نہ ہو. باقی ملازمین کے کاموں کی نگرانی
کر سکتی ہے.
وقار کی بیوی پر اسے بہت ترس آتا. جس کو علم نہ
تھا کہ وہ اس کی سوکن بن چکی ہے. وہ کسی کے حق پر ڈاکہ نہیں ڈالنا چاہتی تھی مگر قسمت
میں ایسا ہی لکھا تھا. دوسری بار بھی شادی شدہ مرد.
وقار موقع پاتے ہی اس پر والہانہ پیار لٹانے لگتا
تھا.
اچانک وقار کی ماں چکرا کر گری اور بےہوش ہو گئی.
سب گھبرا گئے. اسے جلدی سے ہاسپٹل لے جایا گیا. تانیہ اس کی سلامتی کی دعائیں مانگنے
لگی.
The end 🔚
COMMENTS