ریلوے اسٹیشن ام غنی شام ہونے کو آئی تھی مگر راعنہ ابھی تک گھر واپس نہیں لوٹی تھی ـ دن کو اکیڈمی کےلیے گھر سے نکلی تھی مگر اب تک اس کا کچھ ...
ریلوے اسٹیشن
ام غنی
شام ہونے کو آئی تھی مگر راعنہ ابھی تک گھر واپس
نہیں لوٹی تھی ـ دن
کو اکیڈمی کےلیے گھر سے نکلی تھی مگر اب تک
اس کا کچھ پتہ نہیں تھا۔
رائنہ کی امی اس کی اکیڈمی بھی معلوم کروا چکی تھی
مگر وہاں سے یہی معلوم ہوا کہ وہ تو آج آئی ہی نہیں تھی۔۔۔
اس کی امی یہ سوچتے ہوئے کہ وہ اپنے قریب کی سہیلی
کے ساتھ اس کے گھر میں نہ ہو وہاں معلوم کرنے چل پڑیں۔مگر وہ تو وہاں بھی نہیں تھی۔
بہت مشکل سے اپنی بوڑھی ٹانگوں کو سنبھالتے ہوئے
گھر واپس لوٹی تھیں۔گھر آ کر اس کی بڑی بہن عشنا سے بولیں کہ اس کی سہیلیوں کے نمبر
ملاؤ اور ان سے پتہ کرو شاید وہاں گئی ہو۔
ان کے دل میں امید کی چھوٹی سی کرن راستہ بھولے
ہوئے جگنو کی طرح ٹمٹمائی اور پھر ایسے ہی بجھتی ہوئی خاموش ہو گئی۔جب عشنا نے ماں
کی طرف مایوس نظروں سے دیکھا۔۔۔
ہاجرہ بیگم کو ایک دم سے کھٹکا لگا اس کی الماریاں
چیک کیں مگر اس میں کپڑے نہیں تھے۔اپنی الماریوں سے زیور بھی غائب تھا۔۔ہاجرہ بیگم
وہیں ڈھے گئیں۔۔۔۔او میرے خدایا راعنہ یہ تونے
کیا کر دیا۔میں اب شفیق صاحب کو کیا جواب دوں گی کہ مجھ سے اپنی بیٹیوں کی پرورش تک
نہ ہوسکی۔وہ زارو قطار روئے جارہی تھیں۔۔
راعنہ کے ابو دبئی میں مقیم تھے ان کی دوہی بیٹیاں
تھیں بیٹیوں کے اچھے مستقبل کے لیے،اچھی تعلیم کے لیے وہ وہیں مقیم ہوگئے۔۔۔ شفیق صاحب
اپنی بچیوں کو اعلی تعلیم دلوانا چاہتے تھے ان کے اچھے کالج میں داخل کروائے۔
ہر شام کو ان کا فون آتا تو سب سے باری باری بات
کرتے حال احوال پوچھتے ۔۔آج شام کو ان کا فون آیا تو نہ راعنہ کو موجود نہ پا کر پریشان
ہوئے۔۔ہاجرہ بیگم مسلسل روئے جا رہی تھی تھی۔عشنا نے فون پر اپنے بابا کو سب بتا دیا۔۔
اس خبر نے ان کو ہلا کر رکھ دیا۔۔۔۔
اگلی صبح سب سہیلیوں کے گھر اس کی امی جاجا کر پوچھتی
رہیں مگر کہیں نہیں ملی۔۔ماں کی صورت دیکھنے والی تھی کس قدر شرمندگی سے وہ گھر گھرجا
کر پوچھ رہیں تھیں۔اس ماں کی اذیت اور کرب
میں بیان نہیں کر سکتی۔۔۔
اس کے ابو اگلی ہی صبح فلائٹ سے پاکستان پہنچے آنکھوں
سے آنسو موتیوں کی لڑی کی صورت میں بہتے ہوئے سفید داڑھی کو بھگوےُ جا رہے تھے۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آج میں بہت خوش ہوں راعنہ تمہارا ساتھ جو ملنے والا
ہے ہم دونوں جلد ہی ایک ہو جائیں گے ۔۔۔راعنہ نے مسکراتے ہوئے اس کا ہاتھ تھام لیا۔۔وہ
دونوں ٹرین سے اتر کر ٹیکسی میں بیٹھ گئے اور اندرون شہر کی تنگ گلیوں کی طرف مڑ گےُ۔
۔۔۔
یہ کیا۔۔۔ تم مجھے کہاں لے کر جا رہے ہو؟؟تم نے
تو کہا تھا کہ تمہارے چچا جان۔۔۔۔ کیا مطلب یہاں رہتے ہیں وہ۔۔۔؟
میں نے تمہیں بتایا تھا نا میرے چچا لاہور رہتے
ہیں ہم انھی کے پاس تو جا رہے ہیں۔۔۔
ہم کل صبح ہوتے ہی دونوں نکاح کر کہ ایک ہو جائیں
گے تم نے گھبرانا نہیں ہے۔راعنہ کا دل ایک بار پھر مٹھی میں کرنے میں کامیاب ہوگیا
تھا۔۔وہ اسکی طرف دیکھتے ہوئےمسکرائی۔۔اور اپنے بیگز صاںُم کے حوالے کرتے ہوئےاس کے
پیچھے اندر کی طرف بڑھ گئی۔۔۔
پرانے مکان میں داخل ہوتے ہوئے صائم اپنے نام نہاد
چچا سے بہت محبت سے ملا۔۔۔ان کا گرم جوشی سے استقبال کیا گیا۔۔۔
بانو بیگم کی آنکھیں اتنی خوبصورت لڑکی کو دیکھ
کر چندھیا گئیں۔۔۔۔
بانو بیگم! راعنہ بی بی کو لے کر اندر جاوُ اور
ان کے آرام کا خیال رکھنا کوئی تنگی نہ ہو۔۔۔
جی جی آپ بے فکر ہو جائیں ملک صاحب۔۔۔!
راعنہ،صاںُم کو الوداعی نظروں سے دیکھتے ہوئے اندر
چلی گئی کہ صبح ان کا نکاح ہوگا تو ایک دوسرے کے ساتھ اپنی نئی زندگی کا سفر شروع کریں
گے۔۔۔
صائم نے چچا کی طرف معنی خیز نظروں سے دیکھا۔۔اور
بیٹھک میں اس کے پیچھے چلا گیا۔۔اور اپنی رقم کا مطالبہ کرنے لگا جو اس نے راعنہ کی
صورت میں وصول کرنی چاہی تھی۔۔۔تم رکو یہیں میں ابھی لے کر آتا ہوں۔۔وہ کہتا ہوں اندر
بڑھ گیا۔۔اس کے جاتے ہی صاںُم نے راعنہ کے بیگ میں سے زیور اور نقدی نکال کر اپنی جیکٹ
میں چھپا لی۔۔کچھ ہی دیر بعد چچا نے ایک بھاری رقم اس کے سامنے میز پر رکھی گن لو پورے
دو لاکھ ہیں۔۔۔
صاںُم مسکراتا ہوا اپنے پیسے اٹھائے کھڑا ہوا اچھا
میں چلتا ہوں۔۔۔وہ رات کے منہ اندھیرے ہی نکل جانا چاہتا تھا تاکہ اس کا سامنا صبح
راعنہ سے نہ ہو سکے
راعنہ کی رات آنکھوں میں ہی کٹی تھی۔۔تب ہی اسے
اپنے گھر والوں کا خیال آیا کہ ناجانے گھر
کے حالات کیسے ہوں گے۔۔اماں کس حال میں ہونگی۔۔۔ابا پر کیا گزری ہوگی۔۔لیکن ان سب کو
تو وہ چھوڑ کر آچکی تھی صرف صائم کی محبت میں۔۔۔اور یہ اسکی زندگی کی کتنی بڑی غلطی تھی اس بات کا احساس اسے جلد ہی
ہونے والا تھا۔۔۔۔سارے خیالات کو ذہن سے جھٹکتے وہ پھر سے صائم کی محبت میں کھو گئی۔۔اس
کے ساتھ گزارے لمحات اس کے ذہن میں گھومنے لگے۔۔۔کتنا خوشگوار احساس تھا کہ کل وہ دونوں
ہمیشہ کے لئے ایک ہو جائیں گے۔۔۔یہ ہی سب سوچتے ہوئے وہ صبح ہونے کا بےچینی سے انتظار
کرنے لگی۔۔لیکن اگلی صبح کا سورج اس کے لئے ایک طوفان لے کر آیا تھا۔۔۔۔وہ فریش ہو
کر ہلکا سا میک کئے تھوڑا جھجکتے ہوئے کمرے سے باہر نکلی۔۔۔اور کچن کی جانب بڑھ گئ۔۔۔۔۔
خوشی اتنی تھی کہ بھوک تک محسوس نہیں ہو رہی تھی۔۔۔پھر
بھی ہلکا پھلکا ناشتہ کرنے کے بعد وہ صاںُم کو ڈھونڈنےلگی۔۔۔تب ہی سامنے سے آتے چچا
سے صائم کے بارے میں دریافت کیا تو چاچا مسکرانے لگا۔۔۔۔
"اری او بھولی صورت کونسا صاںُم۔۔؟؟؟ کہاں
کا صائم۔۔۔؟؟وہ تو رات کو ہی تیری قیمت وصول کر کے بھاگ نکلا تھا۔۔۔اس نے تجھے محبت
کا جھانسہ دیا ہے۔۔۔۔۔"چاچا نے کمینی ہنسی ہنستے ہوئے نقوہت سے کہا۔۔۔۔
اسکو اپنی سماعت پر یقین نہیں آیا۔۔"نن۔۔۔نھیں۔۔
آپ جھوٹ بول رہے ہیں وہ ایسا نہیں کر سکتا میرے ساتھ۔۔وہ مجھ سے شادی کرنا چاہتا تھا۔۔۔محبت
کرتا ہے وہ مجھ سے۔۔۔۔ اسی لئے تو مجھے یہاں لے کر آیا ہے تاکہ ہم نکاح کر سکیں میں
جانتی ہوں وہ یہیں ہے ۔۔۔آپ مذاق کر رہے ہیں ناں۔۔۔۔؟؟؟"اس کو ان کی بات کا یقین
نہیں آرہا تھا۔۔وہ ایسا کیسے کر سکتا ہے میرے ساتھ۔۔۔؟؟؟اس نے تو دعوہ کیا ہے مجھ سے
محبت کا۔۔۔اس نے کسی بچے کی طرح معصومیت سے ان کی طرف دیکھتے ہوئے پوچھا۔۔۔جبکہ چہرے
پر صائم کی بے وفائی کا ڈر واضح تھا۔۔۔
"ہاہاہا۔۔کون سی محبت نادان لڑکی۔۔۔؟ ایسے لوگ کسی سےمحبت نہیں کرتے۔۔۔۔ان
کی طرح انکی محبت بھی جھوٹی ہی ہوتی ہے۔۔۔پورے دو لاکھ وصول کر کے گیا ہے تیری
۔۔۔۔اور حقیقت تو یہ ہے تجھ جیسی لڑکی سے شادی کوئی نہیں کرتا صرف وقت گزاری کے قابل
ہوتی ہیں تجھ جیسی لڑکیاں۔۔۔جو لڑکی ایک غیر بندے کی چار دن کی محبت کے لئے اپنے ماں
باپ کی اتنے سالوں کی محبت کو بھول سکتی ہے تو کیا گارنٹی ہے کہ وہ اس انسان کے ساتھ
پوری عمر گزارے۔۔۔؟؟"
راعنہ کی آنکھوں سے آنسو ٹپ ٹپ گرنے لگے۔۔۔اوہ
!میرے خدایا۔۔ میں نے کس پر اعتبار کیا۔۔اس نے مجھے پوری دنیا کے سامنے رسوا کر دیا
میری عزت دو کوڑی کی کردی۔۔۔اب میں کیا کروں۔۔۔؟؟میں تو واپس جانے کے قابل بھی نہیں
رہی ۔۔۔کون مانے گا کہ میں پاک ہوں۔۔۔؟؟وہ آنے والے وقت سے ڈرنے لگی ناجانے یہ لوگ
اب میرا کیا حال کریں گے۔۔۔؟؟اس نے سامنے کھڑے چاچا کو دیکھتے ہوئے سوچا جو غلیظ نظروں
سے اسے ہی دیکھ رہا تھا۔۔۔۔ اس کو اپنی عزت کی دھجیاں اڑتی ہوئی محسوس ہوئیں وہ زار
و قطار رونے لگی۔۔۔ اسکو وسوسوں نے گھیر لیا۔۔۔ وہ انہی سوچوں میں گم کھڑی تھی جب چاچا
نے اس کی کلائی کو مضبوطی سے پکڑا اور اسے گھسیٹتے ہوئے لے جاکر کمرے میں پھینکا اور
دروازے کو لاک کر دیا۔۔۔۔وہ مسلسل چیختی رہی خود کو چھڑوانے کی مزاحمت کی لیکن تھی
تو وہ نازک سی لڑکی ہی نا کیسے چھڑواتی اس درندے کی گرفت سے اپنی نازک کلائی۔۔۔۔
وہ اس کو کمرے میں بند کر کے کسی کا انتظار کرنے
لگے۔۔
"اے میرے مالک !میری حفاظت کرنا۔۔مجھے رسوا ہونے سے بچا لینا۔۔۔"اس کے
لب سے ایسے ہی دعائیں جاری تھی جو اس کو گھر سے نکلتے ہوئے ہرگز یاد نہ آئی تھیں۔۔۔
تھوڑی ہی دیر میں ایک بھاری بھرکم وجود لئے ایک آدمی جو دکھنے میں کسی وحشی سے کم نہیں لگ رہا تھا۔۔۔
ان کے گھر میں داخل ہوا اور لڑکی کا مطالبہ کرنے لگا۔۔۔
"ہاں۔۔ہاں میں لے کر آتا ہوں۔۔ لیکن لڑکی
کے حساب سے قیمت بھی تگڑی ہونی چائہیے۔۔۔۔"چاچا نے کمینگی سے کہا۔۔۔
اور وہ اس کو لینے اس کمرے کی جانب بڑھ گیا۔۔۔
"خدا کے لئے مجھے چھوڑ دو میں اپنے گھر جانا
چاہتی ہوں ۔۔۔میری عزت کو یوں مت رسوا کرو۔۔۔"
مگر اس کی وہاں سن کون رہاتھا۔۔۔۔ وہ اس کو بازو
سے گھسیٹتا ہوا باہر لے آیا اور لا کر اس وحشی
کے قدموں میں بے دردی سے پھینک دیا
۔۔۔۔"یہ لو اب سے یہ تمہاری امانت ہے جاوُ لے جاؤ اسے۔۔۔"راعنہ کو دیکھ کر
وہ وحشی انسان خباثت سے ہنسا۔۔۔اورچاچا کے سامنے بھاری نوٹوں کا لفافہ پھینکا۔۔۔ جسے
اس نے چمکتی آنکھوں سے اٹھا لیا۔۔۔پھر اس وحشی انسان کے کسی بندے نے جو اس کے پاس ہی
غلاموں کی طرح کھڑا تھا۔۔راعنہ کو بے ہوشی کا انجکشن لگا کر گاڑی میں ڈال دیا ۔۔۔اس
کو ایک کوٹھے کی زینت بننے کے لئے لے جایا جارہا تھا مگر شاید قدرت کو یہ منظور نہیں
تھا۔۔
پولیس کے پہرے چاروں طرف سختی سے لگائے گئے تھے۔شفیق
صاحب کے دوست پولیس کے محکمے میں بڑے آفیسر تھے انہوں نے ہر طرف سختی کے آرڈرز جاری
کردیئے۔۔۔
"لڑکی مل جانی چاہیے۔۔۔۔انہوں نے اپنے آدمیوں
کو حکم دیا۔۔۔ انہوں نے بڑے شہروں کے سب دارالامان، ہسپتال،خفیہ رہائش گاہوں تک کی
چھان بین کروائی۔۔آنے جانے والی ہر گاڑی پر نظر رکھی جا رہی تھی۔۔باقی شہروں میں بھی
اس خبر کو پہنچا دیا گیا۔۔۔
ایک گاڑی میں چند مشکوک لوگ دکھائی دیے تھے جنہیں حراست میں لے لیا گیالڑکی کو ان کے چنگل سے آزاد کروا لیا گیا۔۔۔
شفیق صاحب آپ کی لڑکی مل گئی ہے جلد ہی پولیس اسٹیشن
آجائیں۔۔"وہ افسردہ بیٹھے راعنہ کے بارے میں ہی سوچ رہے تھے جب پولیس اسٹیشن سے
فون آیا۔۔۔
راعنہ کے والد بوجھل قدموں سے اس کو لینے کے لئے
پولیس اسٹیشن کے لئے گھر سے نکل گئے۔۔ وہ خاندان میں کہیں نظر ملانے کے قابل نہیں رہے
تھے۔۔
راعنہ نے گھر آکر اپنے ماں باپ سے معافی مانگی۔
"امی بابا مجھے جو چاہے سزا دے لیں مگر یہ
بے رخی مت دکھائیں ۔۔۔میں اس کے بھکاوے میں آگئی تھی۔۔۔۔"اس نے ان دونوں کے سامنے
ہاتھ جوڑتے ہوئے کہا ۔۔۔جبکہ نظریں شرم سے جھکی ہوئی تھیں۔۔۔
"سب کچھ تو برباد کر یا تم نے۔۔
سالوں سے کمائی ہوئی عزت کو پانی میں ملا کر رکھ
دیا۔۔۔اب تمہیں معافی چاہیے۔۔۔کیا یہ معافی اس عزت کو لوٹا سکتی ہے۔۔۔بدنام ہو کر رہ
گئے ہیں ہم معاشرے میں۔۔۔۔۔ اپنےبوڑھے باپ کو دیکھو کیا حالت ہو گئی ہے انکی۔۔، اپنی بہن کو دیکھو جس کے ہاتھ
پیلےنہیں ہوئے کیا کوئی اب اسکے لئے رشتہ لے کر آئے گا۔۔۔ نہیں اب یہاں کوئی نہیں آئے
گا۔۔۔ صرف دھتکار رہ گئی ہے ہمارے لئے۔۔ سو
سو باتیں ہوں گی خاندان میں۔۔ کاش کہ تم مر ہی جاتی تو اچھا ہوتا ۔۔کم از کم اتنی رسوائی نہ ہوتی ہماری ۔۔۔اس کی امی روتے ہوئے
اس کی طرف سوالیہ نظروں سے دیکھتے ہوئے پوچھا۔۔۔۔جبکہ وہ چپ کھڑی تھی۔۔۔کچھ بولنے کے
قابل کہاں رہی تھی۔۔۔ٹھیک ہی تو کہا ہے سب
نے۔۔۔ سب کچھ میں نے برباد کر دیا۔۔۔اسے یوں کھڑے دیکھ کر ایک ایک کر کے سب ہی کمرے
سے نکلتے چلے گئے۔۔۔۔
اب گھر میں اس سے کوئی بات نہیں کرتا تھا نہ بابا
نہ ماں نہ بہن سب خاموش ہو گئے تھے اب گھر اسے قبرستان لگتا تھا جو گھر ہر وقت دونوں
بہنوں کی شوخ اور چنچل گفتگو سے مہکتا رہتا تھا۔۔۔ اس گھر میں اب یوں لگتا تھا جیسے
آسیب کا راج ہو۔۔۔خاموشیاں پورے حق سے وہاں
ڈیرہ ڈالے بیٹھی تھیں۔۔۔۔۔
کچھ دن بعد اس کے تایا آئے تھے ان کے گھر ۔راعنہ
کے لئےاپنے نیم پاگل بیٹے کا رشتہ لے کر جس کے پاگل پن کو ان کے بعد کسی سہارے کی ضرورت
تھی۔
انہوں نے راعنہ کے لیے رشتہ مانگا تو وہ بھی احسان
جتاتے ہوئے کہ ۔۔۔"تمہاری بیٹی کو اب کس نے لینا ہے۔۔۔۔۔اب کوئی نہیں آئے گا اس
کے رشتے کے لئے۔۔۔۔"
رشتے کے لیے ہاں کر دی گئی سادگی سے نکاح پڑھوا
کر رخصت کر دیا گیا اور اب راعنہ سے ان کا کوئی واسطہ نہیں تھا ۔۔۔
راعنہ کو اپنے شوہر سے بہت چڑ ہوتی تھی اس کی حرکتیں
عجیب سی تھیں منہ سے ہر وقت رال ٹپکتی رہتی ۔۔۔کپڑوں سے ناک صاف کرتا۔۔۔۔ وہ جو بہت
نفاست پسند تھی ہر وقت صفائی کا خیال رکھتی تھی اپنے جیون ساتھی کی صورت میں اس کو
دیکھتی تو کرب سے آنکھیں موند لیتی۔اس کو سنبھالنا بہت مشکل کام تھا۔۔ مگر وہ اپنی
اور اپنے بابا کی نام نہاد رہی سہی عزت کے لئے سہہ جاتی۔۔۔
ساس سے بات بات پر یہی طعنے سننے کو ملتے کہ گھر
سے بھاگی لڑکیوں کی کوئی عزت نہیں ہوتی پتا
نہیں کہاں کہاں منہ کالا کرکے آئی ہے ۔۔۔ایسے ہی ہزار باتیں وہ محلے والوں سے بھی سنتی۔۔بد
چلن اور آوارہ کا خطاب ملتا۔۔۔۔ پھر وہ اپنی قسمت پر روتی ۔۔لیکن قسمت کا بھی کوئی
قصور نہیں تھا۔۔۔کیونکہ انتخاب اس کا اپنا تھا اسلئے چپ کر کے سہہ جاتی۔۔۔
کاش میں اس صاںُم کی گھٹیا باتوں میں نہ آئی ہوتی۔مگر
اس کا یہ کاش۔۔۔ کاش ہی رہ جاتا۔۔۔کیونکہ گزرے وقت کو آج تک کون واپس لا پایا ہے۔۔۔۔۔
سارا دن گھر کے کاموں اور شوہر کو سنبھالنے میں
مصروف
رہتی۔اس کو والدین کی نافرمانی کی سزا ملی تھی والدین
کو ملنے کے لیے تڑپتی رہتی تھی مگر صبر کے علاوہ اس کے پاس کوئی چارہ نہیں تھا۔۔۔یوں
ہی اپنی زندگی اپنے والدین کی خاطر اس پاگل کو سہارا دینے کے لیے وقف کر چکی تھی۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میری دعا ہے کہ اس کی زندگی میں حسین پل دوبارہ
سے لوٹ آئیں۔اس سے جو نادانی میں غلطیاں ہوئیں اس کا وہ بہت ازالہ کر چکی۔۔۔
اور سب سے بڑی بات پیاری بنتِ حوا۔۔اپنے ماں باپ
کی عزت پر کبھی آنچ مت آنے دینا ورنہ وہ جیتے جی مرجائیں گے۔۔۔اپنے باپ کا سر فخر سے
بلند رکھنا۔۔
میری امی جان مجھ سے یہ بات کہا کرتی تھی لڑکیوں
کی عزت ایک کانچ کی طرح ہوتی ہے اگر اس میں ایک بار دراڑ آجائے تو ساری زندگی اس کا
بد نما داغ چھپائے نہیں چھپتا۔۔۔
اے بنت آدم! اپنی عزتوں اور والدین کی پگڑیوں کی
لاج رکھنا تم۔۔۔۔
کبھی کسی صاںُم کے بہکاوے میں نہ آنا تم۔۔۔۔۔۔
The end 🔚
COMMENTS