پاکیزہ محبت ام غنی امروزیہ اور افضاء دونوں ہمیشہ کی طرح ساتھ بیٹھی تھی۔دونوں نے ایک جیسے فلاورز پرنٹ کی ٹاپ اور جینز پہن رکھی تھی۔بالو...
پاکیزہ محبت
ام غنی
امروزیہ اور افضاء دونوں ہمیشہ
کی طرح ساتھ بیٹھی تھی۔دونوں نے ایک جیسے فلاورز پرنٹ کی ٹاپ اور جینز پہن رکھی تھی۔بالوں
میں ایک جیسے ہیُر بینڈز لگائے اور کندھے پر یونیورسٹی کے بیگز ٹکائے پاؤں میں ایک
جیسے جاگرز پہنے ہوئے تھیں۔ دونوں بیٹھیں گپیں لگانے میں مصروف تھیں۔
وہ دونوں جڑواں بہنیں لگتی تھی مگر تھی نہیں۔۔ وہ دونوں گہری دوستیں
تھیں۔جن کا ہنسنا بولنا،کھانا پینا شاپنگ سب ایک ساتھ ہوتا تھا۔جب وہ دونوں ساتھ ہوتیں
تو کوئ تیسرا ان کے درمیان کم ہی نظر آتا تھا۔
زیادہ تر شاپنگ اکٹھے ہی کرتی تھیں مگر کبھی کبھار فیملیز کے ساتھ ہوتیں
تو اپنے لئے کچھ پسند آنے پر دوسرے کے لئے لینا بھی اہم تھا۔
دونوں سہیلیاں بچپن سے ساتھ پلی بڑھی تھی ایک ہی اسکول ایک ہی کالج
اور اب ایک ہی یونیورسٹی تھی۔
ابان امرروزیہ کا ماموں زاد تھا۔آج اسکو لینے یونیورسٹی آیا تھا۔
ابان، امروزیہ کو پسند کرتا تھا مگر کبھی اظہار نہیں کر پایا تھا۔امروز
یہ اس بات سے ناواقف تھی۔وہ خاموشی سے اسے تکے جاتا،اس کی ڈمپل والی مسکراہٹ اسے بہت
پسند تھی۔ابھی ان باتوں کے لئے اسے بہت معصوم لگتی تھی۔اس لیے مناسب وقت کا انتظار
کرنے لگا۔جب اسے اپنے دل کی بات ظاہر کرے گا۔
امروزیہ کی گاڑی ورکشاپ پر تھی اس لیے ابان اسے پک کرنے آیا تھا۔
وہ دونوں کو ڈھونڈتا ہوا کینٹین
کے پاس آیا۔ تو ایک سنگی بینچ پر بیٹھی ہوئی مل گئیں۔
اسلام علیکم۔۔۔! ابان نے دونوں کو سلام کیا۔
دونوں نے ایک ساتھ وعلیکم السلام بولا۔۔۔چلو امروزیہ میں تمہیں لینے آیا ہوں پھپھو جان نے بھیجا ہے۔۔وہ افضاء کو خدا حافظ کہنے کے لیے
اٹھ کھڑی ہوئ۔ افضاء بھی اس کو خدا حافظ کہتے ہوئے خود بھی جانے کے لیے کھڑی ہو گئی۔
ابان کے پیچھے پیچھے چلتی پارکنگ ایریا میں آئی اور گاڑی میں بیٹھ گئی۔۔ابان
نے گاڑی سٹارٹ کی اور اے سی آن کر دیا باہر بہت گرمی تھی۔۔
وہ خاموش بیٹھی رہی۔۔ ابان نے خود ہی گپ شپ شروع کی۔۔
"کچھ کھائیں گی امر۔۔۔؟"
"نہیں میں نے کینٹین سے برگر اور جوس لیا تھا اب مزید بھوک نہیں
ہے۔۔۔"
"چلیں آئس کریم تو کھا لیں مجھے پتا ہے کہ وہ آپ کو بہت پسند ہے۔۔۔"
اس بار وہ اسے انکار نہیں کر سکی تھی۔۔اس کی بات سن کر مسکرا دی۔۔چلیں
جیسے آپ کی مرضی۔۔۔
ابان نے ایک مشہور آںُس پارلر کے سامنے گاڑی پارک کی۔۔۔اور دونوں اندر
کی طرف چلے گئے۔۔اپنی اپنی فیوریٹ آںُس کریم آرڈر کرنے کے بعد پھر سے باتوں میں مصروف
ہو گئے۔۔۔
"میں اپنی سٹڈیز کمپلیٹ کرنے کے لئے آئرلینڈ جا رہا ہوں۔۔"
اوہ ڈیٹس گریٹ۔۔۔ یہ تو بہت اچھی بات ہے۔۔۔کب کی فلائٹ ہے؟
"کل شام کی۔۔" ابان اداسی سے مسکرایا۔۔اور سوچنے لگا کہ بات
کروں یا نہ کروں۔۔۔
مگر اپنی محبت کو ابھی راز ہی رہنے دیا۔۔۔اپنی یکطرفہ محبت کو لیے خاموش
ہوگیا ابھی اس قابل نہیں تھا۔پہلے کچھ بننا چاہتا تھا۔اس لیے خاموشی سے چلا گیا۔۔
دوسری طرف امروزیہ اپنی خالہ کے بیٹے نافع کو پسند کرتی تھی۔۔وہ دونوں
ایک دوسرے کو پسند کرتے تھے۔نافع کے ساتھ اس کی اکثر ہیلو ہائے رہتی تھی۔کبھی فرینڈز
کے ساتھ پارٹیز میں۔تو کبھی فیملی گیٹ ٹو گیدر
میں۔۔ان دونوں کی دوستی بہت اچھی تھی۔
ایک بار نافع اور امروزیہ شاپنگ کرنے مال گئے تو وہاں افضاء بھی تھی۔۔
"ہائے امر ۔۔۔کیسی ہو۔۔؟"
"میں ٹھیک ھوں تم سناؤ کیسے آنا ہوا۔۔ بس ممی کی ذرا شاپنگ کرنی
تھی ان کے ساتھ آئ ہوں۔۔۔تم سناؤ یہ کون ہے۔۔؟ تعارف نہیں کرواؤ گی۔۔"افضا نے
کہا۔۔
"ہاں۔۔۔ یہ میرے کزن ہیں
نافع جن کا ذکر میں اکثر کرتی ہوں۔۔بزنس کے سلسلے میں لندن ہوتے ہیں۔پاکستان آنا جانا
لگا رہتا ہے۔اس لئے کم ہی نظر آتے ہیں۔۔۔۔۔"
"اوہ اچھا تو آپ ہیں مسٹر نافع۔۔"نائس ٹو میٹ یو۔۔۔"
"سیم ٹو یو۔۔۔"نافع مسکرایا۔۔
"اوکے امر۔۔ ٹیک یور ٹائم۔۔پھر ملتے ہیں۔۔خدا حافظ کہتے ہوۓ آگے بڑھ گئی۔۔مگر سوچ میں پڑ گئی کہ مسٹر
نافع کی کیا شاندار پرسنیلٹی ہے۔۔اتنا باوقار انسان ہے۔۔اور اوپر سے خوبصورتی بھی کمال
تھی۔۔۔
امر نے تھوڑے دن بعد ایک واٹس ایپ گروپ بنایا۔جہاں اس نے نافع،ابان
اور افضاء کو ایڈ کیا۔۔افضاء تو پہلے ہی نافع کی دیوانی ہو چکی تھی۔اس لیے اسے پرسنلی
جا کے میسج کرنے لگی۔۔روابط آہستہ آہستہ بڑھتے گئے نافع بھی افضاء میں دلچسپی لینے
لگا۔۔۔افضاء باتوں کی ذرا تیز تھی اور اسے شوخ لڑکیاں ہی پسند تھیں۔۔۔دوسری طرف اس
افضاء کو نافع کی بے پناہ خوبصورتی اور دولت نے مرعوب کیا تھا۔۔
۔۔امروزیہ نے کبھی بھی کی افضاء کو خود سے الگ نہیں سمجھا تھا۔مگر افضاء
نے اس کی پیٹھ میں وار کیا تھا۔
امروزیہ ایک روز اپنی فیملی کے ساتھ ریسٹورنٹ کھانا کھانے کے لیے گئ۔
تو وہاں نافع اور افضاء ہاتھوں میں ہاتھ دئیے قہقے لگانے میں مصروف تھے۔امر یہ سب
دیکھ کر حیران ہوئی۔
اگلے روز افضاء اور امر یونیورسٹی آئیں تو افضاء نے اپنا ہاتھ امر کے
آگے کر دیا" یہ دیکھو رات کو مجھے نافع نے کتنی خوبصورت رنگ گفٹ کی ہے اس نے
مجھے پرپوز کیا ہے"۔
کیا۔۔۔؟
امر یہ سن کر بہت حیران ہوئی
اور بولی" تم جانتی ہو نا کہ نافع
مجھے پسند کرتا ہے۔۔۔؟ پھر رات کا واقعہ اور یہ انگوٹھی یہ سب کیا ہے افضاء۔۔۔؟افضاء
میں تمھاری بہترین دوست تھی تم نے میرے ساتھ ہی یہ سب کیوں کیا۔۔۔؟امر چلائی تھی۔۔۔
"آہستہ بولو اتنا واویلا مت جاؤ۔۔انسان کی پسند ناپسند تو بدلتی
رہتی ہے۔کیا ہوگیا اگر نافع نے مجھے پسند کر لیا اور پھر مجھے پرپوز کردیا۔اس نے جیسے
اپنی صفائی دینے کی کوشش کی۔۔۔اور بیگ اٹھاتی ہوئی وہاں سے چل پڑی۔۔۔امر پیچھے حیران
کھڑی دیکھتی رہی چند ہی لمحوں کے بعد زمین بوس ہو گئی۔۔
یونیورسٹی کی دوسری فیلوز اسے
اٹھا کر یونی کے ساتھ ملحقہ ڈسپنسری میں لے گئیں۔ آپس میں چہ میگوئیاں ہونے لگیں گے
اتنی گہری دوستی میں دراڑ کیسے آ گئی۔۔۔
کچھ دیر کے بعد امر کو ہوش آیا تو وہ اپنے بیڈ روم میں تھی۔مگر ذہنی
کیفیت ابھی اس صدمے سے نہیں نکلی تھی۔۔ایک تو اپنی بہترین دوست کھو جانے کا ڈر اور
دوسرا نافع کے منہ موڑنے کا۔۔ممی اس سے پوچھتی رہیں کہ بیٹا بتاؤ کوئ بات ہوئی ہے یونیورسٹی
میں؟مگر اس نے اپنی مما کو کچھ نہیں بتایا تھا وہ انہیں کوئی دکھ نہیں پہنچانا چاہتی
تھی اس لئے خاموش رہی۔
کچھ روز یوں ہی گزر گےُ۔آہستہ آہستہ اس کی کیفیت درست ہونے لگی۔مگر افضاء نے اس سے کوئی رابطہ نہیں کیا تھا۔۔
امر نے اس کو خود سے کال کی چند ساعتوں کے بعد فون اٹھا لیا گیا۔
رسمی ہیلو ہاےُ کے بعد امروزیہ نے اس سے ملنے کا پروگرام بنایا۔۔
افضاء جو سوچ رہی تھی کہ آج
امر اس پہ خوب برسے گی اس کو دینے کے لئے صفائیاں تلاش کرنے لگی۔۔
دونوں نے ایک کافی شاپ میں ملنے کا پروگرام بنایا۔آج تو ان کی ڈریسنگ
بھی سیم تھی یہ شاید دل کا دل سے رابطہ تھا جو برسوں پرانا تھا آج بھی اس کی نشان کہیں
باقی تھے۔امر اس کو اپنے ہم آہنگ لباس میں دیکھ کر مسکرائی۔۔۔ اور گرم جوشی سے ملی
جیسے وہ ہمیشہ ملتی تھی۔
افضا اس کو دیکھ کر حیران ہوئی کہ شاید اس کی ذہنی حالت ٹھیک نہیں۔یا
شاید وہ پہلے والا ماجرہ بھول گئی ہے۔۔
امروز یہ نے اس کی طرف
انگیجمنٹ کا گفٹ بڑھایا۔جو کہ خوبصورت اور نفیس سا پیرل سیٹ تھا اس کے ہمراہ میچینگ
وریسٹ واچ تھی۔جسے دیکھ کر وہ مزید حیران ہوئی۔آج کے دن وہ اس سب کی توقع نہیں کر رہی
تھی۔
"میں تو سمجھ رہی تھی تم تو
خوب واویلا مچاؤ گی کہ نافع کو تم سے چھین لیا میں نے۔"
امروزیہ خاموش ہوگئی۔اور ویٹر کو
آرڈر کرنے لگی۔
کچھ دیر کے بعد بولی"کسی کو زبردستی تو اپنا بنایا نہیں جا سکتا
نا اس کا بھی دل ہے اس کو اگر تم پسند آ گئی ہو تو اچھی بات ہے میری دوست ہے ہی اتنی
پیاری۔۔
وہ مزید حیران ہوئی تھی۔ مگر اس کی یہ حیرانی جلد ہی امر نے ختم کر
دی کہنے لگی
"تعلق اگر ہمارا روح کا ہو تو دل ایک دوسرے سے بھرا نہیں کرتے،میں
آج بھی تم سے اتنی ہی محبت اور دوستی رکھوں گی جیسے کہ ہم شروع دن سے تھے۔"وہ
اسے حیران کئے جا رہی تھی مگر افضاء کچھ کہنے کے قابل کہاں رہی تھی۔۔۔
اچھا بتاؤ کب ہے شادی کی تیاریاں شروع کی ہیں یا نہیں؟میں تو تمہاری
طرف سے ہی شرکت کروں گی۔۔کیسا۔۔۔؟اس نے مسکراتے ہوئے افضاء کے ہاتھ پر ہاتھ رکھا اور
ویٹر آرڈر سرو کرنے لگا۔
۔ ********** ********
شادی کی تیاریاں مکمل
ہوگئیں شاپنگ میں بھی امروزیہ نے بھرپور تعاون کیا اب شادی کی رسومات میں بھی بڑھ چڑھ
کر حصہ لے رہی تھی۔اس کے ساتھ سیلون آئی تھی تیاری کے بعد اس کے پیچھے آئینے میں کھڑی
ہو گئی اور اس کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر بولی " افضاء آج تم بہت خوبصورت لگ رہی
ہو۔اللہ تعالی تمہیں نظر بد سے بچائے۔" افضاء نے بھی جواباْ مسکراتے ہوئے اپنا
ہاتھ اس کے ہاتھ پر رکھ دیا۔۔
ایسا نہیں تھا کہ امر کو کوئی دکھ نہیں تھا۔بس وہ نبھانا جانتی تھی
اور دل سے خوش رہنے کی دعا دی تھی۔دکھ میں لپٹے ہوئے لوگ دعائیں بھی کمال کی دیتے ہیں۔وہ
یہی چاہتی تھی کہ میری دوست خوش رہے۔اسے لیے میرج ہال کے اندر داخل ہو گئی جہان نافع
بے صبری سے انتظار کر رہا تھا۔۔۔
🌷🌷🌷🌷🌷🌷🌷🌷🌷
افضاء کی شادی خیر خ یریت سے ہو گئی۔امروزیہ بھی شادی کے بعد بہت اکیلی
ہو گئی تھی اس نے اپنی بوریت بھگانے کے لیے مختلف کورسز کی کلاسز لینی شروع کر دیں۔
اسی دوران اس کا ماموں زاد کزن ابان بھی اپنی پڑھائی مکمل کرکے واپس آ چکا تھا آج ان
کی فیملی کو ڈنر پر مدعو کیا گیا تھا۔
وہ ابان کو آج پہلے سے بہت خاموش لگی تھی کھانا بھی خاموشی سے کھایا
اس کے بعد چائے پر بھی بہت خاموش تھی۔
کچھ دیر کے بعد امر باہر لان میں واک کرنے کے لیے نکل آئیں ابان بھی
اس کے پیچھے آ گیا۔
"ہیلو ڈیئر کیسی ہو"۔۔۔۔۔؟
"میں ٹھیک ہوں! آپ سنائیں کیسے ہیں۔۔۔؟"
میں بھی بالکل ٹھیک۔۔۔! خیریت آج آپ اتنی خاموش کیوں ہیں؟ آپ پر یہ
خاموشی بالکل بھی اچھی نہیں لگ رہی۔۔"
"نہیں تو میں تو بالکل نارمل ہوں جناب۔۔۔! امر نے مسکرانے کی کوشش
کی۔۔۔
امر نے اس کو پوچھا آپکی سٹڈیز
کمپلیٹ ہوگئی آگے کیا کرنے کے ارادے ہیں؟؟
"ہممممم آگے بابا کے ساتھ بزنس سنبھالنے کا ارادہ ہے اور پھر۔۔"۔امروز
یہ نے اس کی طرف سوالیہ نظروں سے دیکھا۔اور پوچھا۔۔۔اور۔۔۔۔؟؟
ابان اس کی طرف دیکھ کر مسکرایا اور بولا "شادی۔۔۔"
وہ بھی ابان کی طرف دیکھ کر مسکرانے لگی۔۔"ہاں تو پھر کوئی لڑکی
ہے نظر میں۔۔۔؟"
"ہاں لڑکی تو ہے بہت معصوم سی ہے میرے دل میں اسی کا راج ہے بہت
جلد اس کے گھر رشتہ لے کر جاؤں گا۔۔"
"ڈیٹس گریٹ۔۔۔!مجھے کب
ملوا رہے ہیں اس سے۔۔؟؟؟
ابان اسکی طرف دیکھ کر مسکرایا بہت جلد انشاءاللہ۔۔۔۔۔سکینہ بی، ان
کو اندر بلانے کے لئے آئی تھیں باہر ٹھنڈ بہت زیادہ ہونے لگی اور دونوں بی بی کے پیچھے
اندر کی طرف بڑھ گئے۔۔۔۔
امروزیہ کی ممی آج کچن میں بہت مصروف تھیں۔ وہ کچن کاؤنٹر کے پاس کھڑی
ہوکر اپنی ماما سے پوچھنے لگی ماما۔۔! خیریت آج اتنا اہتمام کیا جا رہا ہے۔۔
آج تمہارے ماموں اور ممانی تمہارے لےُ رشتہ لے کر آےُ ہیں
ابان کا۔۔۔
کیا۔۔؟ مگر وہ تو کسی اور لڑکی کو پسند کرتا ہے۔۔۔۔
" ہاں کرتا ہے پسند مگر وہ کوئی اور نہیں تم ہی وہ خوش قسمت لڑکی
ہو جسے ابان نے منتخب کیا ہے۔۔وہ اس کے ہاتھوں کو اپنے ہاتھوں میں لیے بولی تھیں اور
محبت سے اس کے ہاتھ چوم لیے تھے۔۔
وہ مزید حیران ہوئی مگر وہ تو۔۔۔
"چلو تم یہ سلاد کی پلیٹس ڈیکوریٹ کرو اس میں کباب بھی رکھنے ہیں۔
اور ٹرالی لے کر جلدی سے باہر آؤ۔۔۔جی اچھا ممی۔۔
وہ ٹرالی لے کر باہر آ گئی سب کو سلام کرنے کے بعد پلیٹس سرو کرنے لگی
ابان اور اس کی نظریں آپس میں ملی تھیں۔ ابان
اس کی شرماہٹ کو دیکھ کر مسکرا دیا۔۔۔
ماموں اور ممانی نے اسے اپنے پاس
بٹھایا اور پیار کیا۔۔
اسد بھائی اور منیزہ بہن! ہم آپ سے آپ کی بیٹی کا ہاتھ مانگنے آئے ہیں۔یہ
ہماری خوش قسمتی ہوگی کہ آپ کی بیٹی ہمارے گھر کی رونق بنے۔ ہمارے گھر میں بیٹی جیسی
رحمت کی کمی ہے اسے پورا کر دیں۔۔آپ سے اور کچھ نہیں چاہیے۔۔
جی ضرور۔۔۔! ہم سوچ کر آپ کو جواب
دیں گے بیٹی کا معاملہ ہے اتنی جلدی تو فیصلہ نہیں کر سکتے نا۔۔! امروزیہ کے بابا نے
محبت بھرے لہجے میں کہا۔۔۔
جی ضرور بھائی صاحب آپ کا پورا حق ہے اپنی بیٹی کے معاملے میں فیصلہ
کرنے کا۔مگر ہم بہت امید لے کر آئے ہیں آپ کے گھر میں ہمیں خالی مت لوٹایُےگا۔۔آپ کے
جواب کا انتظار رہے گا۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ان کے جانے کے بعد امر کے ماما بابا نے امر سے اس رشتے کے بارے میں
پوچھا تھا۔۔امر یکدم اداس ہو گئی تھی۔۔"کیسے یک دم مجھے پرایا کرنے کا سوچ لیا
آپ نے۔۔۔؟"
بیٹا یہ تو ہمارے معاشرے کی روایت ہے بیٹیوں کو رخصت کرنا ہی پڑتا ہے
یہ تو ہمارا اللہ جانتا ہے کہ کتنے پیار سے والدین اپنی اولاد کو سینے سے لگا کر رکھتے
ہیں اور کوئی دوسرا سوالی بن کر آ جائے تو سنت نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ادا کرتے
ہوئے اپنی بیٹی کو رخصت کرنا ہی پڑتا ہے۔۔۔۔
مگر بابا۔۔۔ وہ منمنائی تھی۔۔
"اگر مگر کچھ نہیں بیٹا تمہارے ماموں ہیں اور بہت چاہت سے آئے ہیں۔۔۔"
جی بابا۔۔۔اپنے باپ کے آگے کچھ نہ بول سکے تھی۔۔
وہ اس کے سر پر دست شفقت رکھتے ہوئے نم آنکھیں لیے باہر چلے گئے۔۔۔
منیزہ نے اپنی بیٹی کو پیار سے گلے لگا لیا ماں کے دل کی دھڑکن بھی
تیز ہو گئی تھی بیٹی کو رخصت کرنے کا سوچ کر۔۔۔امر نے بھی اپنی نم آنکھیں لیے چہرہ
ماں کے سینے میں چھپا لیا۔۔۔
کچھ روز سوچ بچار کے بعد امروزیہ نے اپنی ممی بابا کی خوشی میں ہاں
کر دی۔
جلد ہی شادی کی ڈیٹ فکس ہو
گئی تھی۔۔۔
امر نے اپنی بہترین دوست افضاء کو بھی فون کیا۔۔مگر وہ اپنے بیٹے کی
پیدائش کی وجہ سے آ نہیں سکی تھی۔۔۔
شادی سے ایک روز پہلے نکاح کر لیا گیا تاکہ وقت کا ضیاع نہ ہو۔۔۔
نکاح پر امر نے ہاف وائٹ لانگ میکسی پہنی تھی۔۔۔بالوں میں سرخ گلاب
لگائے ہوئے تھی جس میں وہ بے حد حسین لگ رہی تھی۔۔
ابان اور امروزیہ کا فوٹو شوٹ ختم ہوا تو ابان نے اس کے کان میں سرگوشی
کی۔۔۔
"دیکھ لی میری محبت۔۔۔میری حسین محبت۔۔میرے جذبوں میں اتنی حدت
تھی کہ میں نے رب سے تمہیں مانگا اور تم مجھے مل گئی۔۔۔
امر نے محبت بھری نظروں سے ابان کو دیکھا اور مسکرا دی۔۔۔مان گئی آپ
کی محبت۔۔۔
کتنی خوبصورت ہو جاتی ہے نہ زندگی جب دوست، محبوب اور ہمسفر ایک ہی
انسان ہو۔۔۔ابان نے اس کی طرف ہاتھ بڑھاتے ہوئے کہا۔۔وہ پھر سے مسکرا دی اور اس کا
ہاتھ پکڑتی ہوئی اسٹیج پر بیٹھ گئی۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کچھ روز کے بعد امر اپنی ممی کے گھر رہنے گئی تو ابان کے بار بار میسجز آ رہے تھے۔۔آجاؤ یار
دل نہیں لگ رہا، اس روم کو بھی تمہاری عادت ہو گئی ہے۔۔روم کا دروازہ کھول کر اندر
آتا ہوں تو تمہارے پرفیوم کی خوشبو پھیلی ہوتی
ہے۔ایسے لگتا ہے کہ تم آس پاس ہی کہیں موجود
ہو۔ہر طرف تم ہی تم دکھائی دیتی ہو۔۔
"وہ خیال تھا دھنک نما،یا کوئی عکس تھا میرے روبرو۔
مجھے ہر طرف سے تو لگا یا کوئی اور تھا تیرے ہو بہو۔۔۔"
"واہ واہ آپ تو کمال کے شاعر ہیں۔۔" امر اس کا شعر سن کر
مسکرائی تھی۔۔
"میں صبح تمہیں لینے آرہا ہوں ریڈی رہنا پلیز اور آئندہ کبھی بھی
اتنے دن کے لےُ مت جانا میرا دل نہیں لگتا
تمہارے بنا۔اب تمہارے ساتھ کی عادت ہوگئی ہے مجھے۔۔۔"
اگلی صبح امر بہت دل لگا کر تیار ہوئی تھی۔۔ابان کا فیورٹ سوٹ پہنا،
لائٹ سا میک اپ کیا اور ساتھ لائٹ سی جیولری پہنی۔۔۔
تیار ہوتے ہوےُ اسے نافع کا خیال آیا۔جس نے امرسے محبت کی قسمیں کھائی
تھیں۔مگر سب جھوٹی ثابت ہوئی تھی۔وہ اب اپنی نئی زندگی میں بہت خوش تھا۔۔
نبھانا جس کو کہتے ہیں
وہ کچھ ہی لوگوں کو آتا ہے
بڑا آسان ہے کہنا
مجھے تم سے محبت ہے۔۔
امروزیہ نے نافع کے خیال کو اپنے ذہن سے جھٹکا۔۔
آج وہ نا تو اس کی جدائی میں رنجیدہ تھی نہ ہی پشیمان۔ ابان اس کا وہ
حق تھا جو اسے آسمانوں سے عطا ہوا تھا۔۔رب کی اس عطا پر وہ الحمدللہ کہے بنا نہ رہ
سکی تھی۔۔
اس نے بھی ابان کی محبت میں کچھ اشعار لکھے تھے،جس کا اظہار وہ اس کے
روبرو ہو کر کرنا چاہتی تھی۔۔۔ان میں سے ایک کو گنگنانے لگی۔
"سنو۔۔۔! تم شفا کا پانی ہو
جس کا گھونٹ بھرنے سے
فصل جہاں کے دامن
پھول کھلنے لگتے ہیں
اور دکھوں کے جنگل میں
سکھ اترنے لگتے ہیں ۔۔۔۔
ختم شد
COMMENTS