Jhoot By Zaid Zulfiqar Short Story جھوٹ زید ذوالفقار مجھے زندگی میں کسی چیز سے اتنی چڑ نہیں ہے جتنی جھوٹ سے ہے۔ میں سب کچھ معاف کر سکتا ہ...
Jhoot By Zaid Zulfiqar Short Story
جھوٹ
زید ذوالفقار
مجھے زندگی میں کسی چیز سے اتنی چڑ نہیں ہے جتنی
جھوٹ سے ہے۔ میں سب کچھ معاف کر سکتا ہوں لیکن جھوٹ نہیں۔ جتنا برا مجھے جھوٹا انسان
لگتا ہے، جتنی نفرت مجھے کسی کو جھوٹ بولتا دیکھ کر ہوتی ہے، اتنی کبھی کسی چیز سے
نہیں ہوتی۔
بچپن میں میرا بہترین دوست احمر تھا۔ لنگوٹیا یار۔
ساتھ ساتھ سکول جانا، ساتھ کھیلنا۔ دو جسم ایک جان والی بات۔ میں نے اس سے بھی ساری
زندگی کے لئیے قطع تعلق کر لیا تھا۔
وجہ ؟؟؟؟
وہی۔۔۔ جھوٹ۔۔۔
مجھے کہتا ہے یار کل کو ٹیسٹ ہے ہم دونوں سکول نہیں
جائیں گے اور اگلے دن خود سکول پہنچ گیا۔ میں نے پوچھا تو قسم کھا گیا کہ میں تو نہیں
آیا تھا۔
بس۔۔۔۔۔
کوئی مجھے قتل کرلے اسے معاف ہے، پر جھوٹ نہیں۔
میرے ایک کزن بہاولپور ہوتے ہیں۔ ڈاکٹر ہیں۔ اچھی
دوستی ہے۔ ایک بار میرے جاننے والے انکے ہسپتال میں ایڈمٹ تھے۔ مجھے کہنے لگے ڈاکٹر
صاحب سے سفارش کردیں زرا دھیان کریں میرا۔ میں نے کردی سفارش۔ کہتے ہیں میں تو ابھی
شہر میں ہوں ہی نہیں سالی کی شادی میں آیا ہوا ہوں۔ بعد میں پتہ چلا انہوں نے جھوٹ
بولا تھا۔ اس دن وہ وارڈ میں ہی تھے بس کسی اور پیشنث کا معاملہ تھا تو ایویں مجھے
ٹال دیا۔
میں آج بھی ان سے بات نہیں کرتا۔۔۔۔ کئ بار صلح
کی کوشش کی انہوں نے پر میں نے نہیں سنی۔ میں کیوں سنتا۔ ایک بار جھوٹ سن تو لیا تھا۔۔۔۔
میں اپنے طلباء کو بھی یہی درس دیتا ہوں۔ جھوٹ مت
بولو اور ناں ہی سنو۔ جہاں تک ممکن ہو اس سے بچو اور اس سے بچے ہی رہو۔
ایک بار ایک طالب علم نے چھٹی کرلی۔ اگلے دن پوچھا
تو کہتا ہے بیمار تھا سر۔ اسکے دوست نے کہا سر یہ کوئی بیمار نہیں تھا، نیا سیزن آیا
ہے وہی دیکھ رہا تھا۔ مجھے تو تپ چڑھ گئی۔ میں نے کھڑے کھڑے اسے نا صرف کلاس بلکہ کالج
سے بھی نکلوا دیا۔
جھوٹوں کو دینے کے لئیے میرے پاس ایک ذرہ بھر بھی
علم نہیں ہے۔
میں اپنے والدین کا اکلوتا بیٹا ہوں۔ میرے والد
صاحب میری کل دنیا ہیں۔ آپ کہہ سکتے ہیں کہ اس دنیا میں سب سے زیادہ عزیز مجھے وہی
ہیں۔ میری والدہ تو عرصہ ہوا وفات پا چکی ہیں۔
ان دنوں ابو میرے لئیے رشتے دیکھ رہے تھے۔ وہ میری
نسبت خالہ کے ہاں کرنا چاہتے تھے لیکن میری مرضی ماموں کی بیٹی میں تھی۔ میں اس میں
کچھ عرصے سے دلچسپی رکھتا تھا۔ جب سے وہ میری ہی طرح لیکچرار ہوگئ تھی، تب سے میں اسکے
بارے میں سنجیدگی سے سوچنے لگا تھا۔ میاں بیوی ایک ہی پیشے سے منسلک ہوں تو انکی ذہنی
ہم آہنگی اچھی ہوتی ہے۔
ابو سے میں نے اشاروں کنایوں میں بات کی لیکن وہ
ٹال گۓ۔
میں بہت حیران ہوا۔ بلاشبہ وہ اچھا رشتہ تھا۔ کم از کم خالہ کے ہاں سے تو اچھا تھا۔
میری امی کے تعلقات بھی ماموں کے ساتھ بہت اچھے رہے تھے۔ اب ابو کا یوں ٹال مٹول کرنا
مجھے سمجھ نہیں آیا۔
میں اصرار کرتا گیا۔
وہ منع کرتے رہے۔
اس دن میں نے قطعیت سے پوچھا
" آپ انکار کی کوئی وجہ تو بتائیں۔ کوئی
ٹھوس وجہ۔ میں خود پیچھے ہٹ جاؤں گا ابو "
اور تب انہوں نے بتایا۔۔۔۔
میں ساکت رہ گیا۔۔۔۔
میں ساری زندگی جس شے سے نفرت کرتا رہا، اسے برا
کہتا رہا، وہ میری زندگی کی بنیاد تھا۔
" شادی کے دس سال تک بھی ہمارے اولاد نہیں
ہوئی۔ تمہارے ماموں سے بہن کی خالی گود دیکھی نہیں گئی تو تمہیں بہن کی گود میں ڈال
دیا "
میں نے کئی دوست چھوڑ دئیے تھے کہ انہوں نے مجھ
سے جھوٹ بولا تھا۔ میں نے بہت سے رشتے توڑ دئیے تھے کہ ان میں کہیں غلط بیانی کی آمیزش
تھی۔ میں نے کئی طلباء اس جھوٹ کی وجہ سے کھو دئیے تھے کہ میں اس ایک شے کو مر کے بھی
معاف نہیں کر سکتا تھا۔ اور اب۔۔۔۔۔۔
وہ روتے ہوۓ، سر جھکاۓ کہہ
رہے تھے
" مجھے معاف کرنا بیٹا کہ میں نے تم سے سچ
چھپایا۔۔۔۔۔۔۔۔ مجھے معاف۔۔۔۔۔ "
میں نے دیکھا میرے بچپن کا دوست مجھ پہ ٹھٹھے مار
کر ہنس رہا تھا۔ میرے کزن نے مجھے منہ چڑایا تھا۔ طلباء کا گروہ مجھ پہ جملے کس رہا
تھا۔
میں نے انکے بندھے ہاتھ آنکھوں سے لگا لئیے۔
" آپ ہی میرے ابو ہیں۔۔۔۔ بس آپ ہی سب سے
سچے ہیں۔۔۔۔ بس آپ ہی۔۔۔۔۔ "
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دوسروں کی غلطیاں معاف کر دیا کرو ( سورت النور
آیت نمبر 22 )
COMMENTS