Jaan Chuti By Zaid Zulfiqar Short Story جان چھوٹی زید ذوالفقار چاچو رشید اور انکی آل اولاد۔ خاندان بھر میں انہیں یاجوج ماجوج کہا جاتا تھا۔ ...
Jaan Chuti By Zaid Zulfiqar Short Story
جان چھوٹی
زید ذوالفقار
چاچو رشید اور انکی آل اولاد۔
خاندان بھر میں انہیں یاجوج ماجوج کہا جاتا تھا۔
سب ڈھٹائی سے کہتے تھے، ان کے منہ پر کہتے تھے، بلا جھجھک کہتے تھے۔
اب انکے آنے کی اطلاع ملی تو وہ دونوں میاں بیوی
اور دونوں بہن بھائی لرز اٹھے۔ دونوں نے ماں کے سامنے باقاعدہ ہاتھ جوڑے
"مما پلیز۔۔۔ انہیں منع کردیں۔۔۔ پلیز۔۔۔
"
وہ بھی اندر سے تو یہی چاہتی تھیں کہ انہیں روک
دیں۔ اور روک بھی دیتیں اگر بس چلتا۔۔۔
" آپکو پتہ ہے ناں لاسٹ ٹائم ان کے بچوں
نے کیا کیا تھا ؟ میرا لیپ ٹاپ خراب کر دیا، کتابیں پھاڑ دیں، میری پاکٹ منی بھی چوری
کرلی تھی۔ میں اپنا روم انکے ساتھ شئیر نہیں کروں گا " حسن نے دہائی دی
" ہم نے تو ماموں کی طرف جانا تھا مما۔ آپ
نے وعدہ کیا تھا اس بار ضرور جائیں گے۔ اب وہ لوگ کیوں آرہے ہیں۔ اپنے گھر رہیں سکون
سے "
ابو کو اپنی پریشانیاں تھیں
" پتہ نہیں کتنے دن رکیں گے، سارا بجٹ تباہ
و بر باد ہو جاتا ہے۔ مہینے کا آخر ہے "
" کوئی ضرورت نہیں ہے حلوے مانڈوں کی۔ وہ
کونسا بہت مرغ مسلم بناتے ہیں ہمارے لئیے۔ بس سادا دال سبزی جو بنے گی کھلا دیں گے
اللّٰہ اللّٰہ خیر صلا "
انہوں نے جلدی سے کہا۔
خیر تیاریاں ہو گئیں مہمانوں کی۔ دونوں بچوں نے
اپنے لیپ ٹاپ قیمتی چیزیں چھپا دیں۔ الماریوں درازوں کو تالے لگا دئیے۔ امی نے کچن
میں سے سارا کھانا پینا غائب کردیا۔ فرج تک کو تالا لگا دیا گیا۔
جس دن انہوں نے آنا تھا، اس سے پچھلی رات چاچو کا
فون آگیا۔ کچھ ایمرجنسی ہوگئی تھی اور وہ نہیں آرہے تھے۔ ان سب کے لئیے وہ رات چاند
رات تھی۔ وہ چاروں نفوس شکر کرتے نہیں تھکتے تھے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پھپھو صائمہ اور انکے دونوں بچے۔
خاندان بھر والے انہیں برگرز کہتے تھے، psudo yo کہتے تھے، ڈھٹائی سے کہتے تھے۔
اب ان کے آنے کی اطلاع ملی تو وہ سب گھر والے برے
برے منہ بنانے لگے۔
" ہونہہ۔ پھپھو نے آ کر وہی ساری تقریریں
کرنی ہیں۔ تم ایسے پہنا کرو، ایسے کھایا کرو، ایسے سانس لیا کرو۔ ہونہہ۔ اپنی کلاس
کے علاوہ سب کو اُود بلاؤ ہی سمجھتی ہیں وہ "
" بالکل امی "
کنزا نے منہ بسورا
" نیناں کا تو ایٹی ٹیوڈ ہی ختم نہیں ہوتا۔
سیدھے منہ بات ہی نہیں کرتی۔ بات کی بھی تو میرے کپڑے میرے جوتے۔ ہم تو جیسے غریب مسکین
ہیں ناں "
" اور حسن۔ توبہ۔ اتنا شو آف ہے وہ
"
ماموں کو اپنے ہی مسئلے تھے۔
" بجٹ تہس نہس ہو جاۓ گا۔
دال سبزی کھاتے نہیں ہیں وہ۔ آئس کریں پزا اور پتہ نہیں کیا کیا۔ ہزاروں اٹھ جائیں
گے "
" اور جاتے ہوۓ بھی بچوں
کو کچھ نا کچھ دینا پڑے گا۔ اب ہزار سے کم دیتا تو بندہ ویسے اچھا نہیں لگتا
"
خیر۔۔۔۔
تیاریاں ہو گئیں مہمانوں کے آنے کی۔ مہنگے مہنگے
کپڑے، گھر کی صاف صفائی، سیل اور جمعہ بازار سے لی چیزیں چھپا دی گئیں۔ کھانے کے لوازمات
وغیرہ۔
جس دن انہوں نے آنا تھا اس سے ایک شام قبل اطلاع
ملی
" ہم نہیں آ سکتے بھائی صاحب۔ وہ رشید اور
اسکے بچے آرہے ہیں۔ پھر کبھی سہی "
سب اہلِ خانہ نے باقائدہ ہاتھ اٹھا کر شکر کیا تھا۔
" جان چھوٹی۔۔۔۔۔ "
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مہمانوں کی عزت کیا کرو ( سورت الذاریات آیت نمبر
24 تا 27 )
COMMENTS