Hazri By Zaid Zulifqar Short story حاظری زید ذوالفقار باجی راشدہ سارے خاندان میں مکھی چُوس کے نام سے مشہور تھیں۔ مجال ہے جو کبھی کسی کو ایک...
Hazri By Zaid Zulifqar Short story
حاظری
زید ذوالفقار
باجی راشدہ سارے خاندان میں
مکھی چُوس کے نام سے مشہور تھیں۔ مجال ہے جو کبھی کسی کو ایک دھیلا بھی راضی خوشی دیا
ہو۔ بس اپنی مٹھی کس کے بند رکھتی تھیں۔ جب سن لو بس رونے ہی سنا دیتی تھیں۔
" ارے میرے
پاس کونسا میاں قارون اپنے خزانے گروی رکھوا کر گیا ہے۔ یہی سب کچھ ہے جو ہے۔ جا کے
دیکھ لے، اندر کمروں میں چوہے قلقاریاں مارتے پھر رہے ہیں "
سننے والا منہ بنا لیتا۔
ان کے کونسا لمبے چوڑے خرچے
تھے۔ ایک اکیلی جان تھیں۔ نا بچے بچونگڑوں کے جھنجٹ، نا اور کوئی لمبا چوڑا خرچہ۔ خاندان
کی بیاہ شادیوں میں بھی وہ بس مارے باندھے شرکت کرتی تھیں۔ جہاں سو پچاس دیکر کام چلتا،
وہاں دس بیس روپے دے دلا کر ٹرخا دیتی تھیں۔
فاروق بھیا تو عرصہ ہوا گزر
گۓ تھے۔ ایک کمپنی میں بجلی کا کام تھا۔
ایک دن ایسا بیمار پڑے کہ بس اٹھ نا سکے۔ سارا جمع جتھا ان پہ لگ گیا۔ جو اپنا مکان
تھا وہ بھی بیچ باچ دیا۔ اب ان کے پاس زمین جائیداد کے نام پہ تو ایک آنا بھی نہیں
تھا۔ بس میاں کی پنشن کے روپے آتے تھے۔
اور سب کو وہی نظر آتے تھے۔
" بڑا مال جوڑ
رکھا ہے بڑھیا ہے۔ آنے آنے کا حساب رکھتی ہے۔ مجال ہے جو اسکی ناک کے نیچے سے ایک پھوٹی
کوڑی بھی اِدھر سے اُدھر ہو جاوے۔ ہونہہ۔ قبر میں لیکر جاۓ گی سارا پیسہ "
اب جو بھی مال اسباب تھا وہ
انکے اس کمرے کے کونے میں رکھے صندوق میں تھا۔ وہ ایک چھوٹی سی پوٹلی جس میں انکی پونجی
تھی۔
" ارے یہ بڑھیا
بھی اپنے نام کی ایک ہے۔ نا خود اچھا اوڑھنا پہننا، نا کھانا اور نا ہی دوسروں کو کھلانا۔
میری فاطمہ کی شادی میں دیکھا کیسا بدرنگ جوڑا دیا تھا۔ میرا تو دل چاہا وہیں اسے واپس
دیدوں کہ یہ بھی نا دے تو "
" ہاں ہاں۔۔۔
زرا جو اسکے گھر چلے جاؤ تو ایک پیالی چاۓ تک نصیب نہیں ہوتی۔ وہی خالی خولی پانی۔ "
انہیں پتہ تھا۔ سب پتہ تھا
کہ وہ سب کیا کیا کہتے ہیں۔ انہیں سب سنائی دیتا تھا۔ وہ ساری سرگوشیاں۔ طنز۔ وہ چپ
چاپ سنتی رہتی تھیں۔
محلے والے بھی ان کی عادتوں
کو سمجھ گۓ تھے۔ کسی عید شبرات پہ بھی ان کے ہاں
سے کچھ کہیں نہیں بھیجا جاتا تھا۔ کوئی شگون کی مٹھائی، کوئی صدقے کی چیز، کچھ بھی
نہیں۔
وہ راشدہ باجی مکھی چوس ہی
تھیں۔
اس دن وہ اپنی بہن کے گھر
ملنے جا رہی تھیں۔ راستے میں سڑک کے کنارے انہوں نے وہ عورت دیکھی جس کی گود میں وہ
چند سالوں کا بچہ تھا۔ وہ بلک بلک کر رو رہا تھا۔ عورت اسے چپ کروانے میں ہلکان ہو
رہی تھی۔ بچہ روتا ہی جا رہا تھا۔
" اری بھوک
لگی ہے اسے۔ دودھ پلادے "
انہوں نے گزرتے گزرتے مشورہ
دیا۔ جواباً اس عورت نے اپنے سینے سے کپڑا سرکا دیا۔ راشدہ باجی کانپ کر رہ گئیں۔
وہ گلے سے نیچے تک جلی ہوئی
تھی۔ لال لال زخم جو سڑنے لگے تھے۔ تازہ تازہ بہتا خون۔۔۔۔
بچہ ابھی بھی بلک رہا تھا۔
" جھونپڑے کو
آگ لگ گئی۔ سب جل گیا مائی۔ دو بچے دفنا چکی ہوں۔ یہ تیسرا۔۔۔۔۔ یہ بھوک سے مر جاۓ گا۔۔۔۔"
وہ الٹے قدموں واپس مڑیں۔
اپنے اس چھوٹے سے گھر کے اس کچوک سے کمرے میں۔۔۔ ایک کونے میں رکھا صندوق۔۔۔ وہ چھوٹی
سی صندوقچی۔۔۔۔
وہ اسے چادر میں چھپاۓ واپس وہاں پہنچیں۔ وہ صنوقچی اس عورت
کی جھولی میں الٹ دی
مُڑے تُڑے نوٹ۔ ہزار پانچ
سو کے۔ کچھ ریز گاری۔ سکے۔۔۔۔۔ دو بالیاں۔۔۔ ایک باریک کنگن۔۔۔۔
" نبی ص سرکار
کو سلام کرنے کی آرزو تھی ری میری۔ بچپن سے انکے روضے کی جالی چومتے دیکھا خود کو۔
تب سے پیسہ جوڑا۔ ایک ایک روپیہ۔ کبھی کچھ ہوجاتا، کبھی کچھ۔ سارا پیسہ جمع تھا تو
میاں چارپائی پہ پڑ گیا۔ نبی ص سرکار کو کہہ دیا آؤں گی ضررو۔ سارا روپیہ اسکی بیماری
کھاگئی۔ وہ گیا تو سوچا اب باقی کیا بچا۔ ہاں باقی حاظری رہ گئی۔ اری سارا خاندان مجھے
مکھی چوس کہوے ہے۔ میری بلا سے۔۔۔۔۔۔ "
انکی آنکھیں بھیگ گئیں۔ آواز
میں چھپ چھم اتر آئی۔ انہوں نے بچے کے سر پہ پیار سے ہاتھ پھیرا
" اُنہیں تو
پتہ ہی ہے کہ میں نے کوشش کی ہے۔ انہیں تو سب پتہ ہی ہے۔ سلام کا کیا ہے۔ یہیں سے کہہ
دوں گی کہ سرکار میرا سلام قبول کریں، میری حاظری میں ابھی دیر ہے "
سنا ہے خاندان بھر کے لوگ
ابھی بھی انہیں مکھی چوس ہی کہتے ہیں۔ وہ بہت پھونس بڑھیا ہوگئی ہیں۔ اب بھی آنے آنے
کا حساب رکھتی ہیں۔ محلے والے ایک دوسرے کے کانوں میں سرگوشیاں کرتے ہیں۔
" مائی کے پاس
بڑا مال ہے۔ وہ صندوقچی ہے ناں، وہ۔۔۔ "
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نیکی میں ایک دوسرے کی مدد
کرو ( سورت المائدہ آیت نمبر 02 )
COMMENTS