Page Nav

HIDE

Breaking News:

latest

Ads Place

Dhagy By Zaid Zulfiqar Short story

 Dhagy By Zaid Zulfiqar Short story دھاگے از زید ذوالفقار مائی نے آنیوالی کو سر تا پا دیکھا اور دیکھتی رہ گئی۔ سالوں پہلے جب اسکی بابت اسے خ...

 Dhagy By Zaid Zulfiqar Short story




دھاگے

از زید ذوالفقار


مائی نے آنیوالی کو سر تا پا دیکھا اور دیکھتی رہ گئی۔ سالوں پہلے جب اسکی بابت اسے خبردار کیا گیا تھا تو وہ کتنا ہنسی تھی۔ ہنستی چلی گئی تھی۔

" پاگل شوہدی ! ابوبکر کوئی چیز تو نہیں ہے کہ اسے کوئ مجھ سے چھین لے گا۔ جھلّیے وہ تو میرے وجود کا حصہ ہے "

چھیننے والوں نے اس کے وجود سے ہی اسے نوچ ڈالا تھا۔ اور اب وہ اسکے سامنے جانے کیا مانگنے آئ تھی۔ اس کے پاس اب دینے کو تھا ہی کیا ؟؟؟ وہ ادھ جلی کھال تھی یا دھیجیوں میں بدل چکا مقدر۔۔۔

" ابو بکر۔۔۔۔ مائ سارے کہتے ہیں تیری سن لی جاتی ہے۔ تو میری سن لے ناں۔ تجھے اسکا ہی واسطہ "

اسکے واسطے دے دے کہ بھی اس سے بڑے کام نکلواۓ گۓ تھے۔

" یہ کردے ناں تجھے اسکی قسم، فلاں چیز دے دے ناں تجھے ابو بکر کی قسم، یہ واسطہ وہ قسم۔۔۔۔ "

اس کے بس دو ہی تو عشق تھے۔

ایک اللّٰہ۔۔۔۔ ایک ابوبکر ۔۔۔۔

وہ ایک بار سانس لیتی تھی تو اپنے رب کو پکارتی تھی، اگلی ہی سانس میں یار کا ورد کرتی تھی۔ ایک محبوب کو منا کے دوسرے محبوب کے لئیے دعائیں مانگتی تھی۔  اسکی ذات بس انہی دو کے گرد طواف کا نام تھی۔ انہی دو عبادتوں کے نام تھی۔ اسکا اللّٰہ جو اسکی بڑے نزدیک سے سنتا تھا اور اسکا ابوبکر جس کی وہ بات سنتی تھی۔ لوگ اس سے کہہ کر دعائیں کرواتے تھے اور وہ اسے ہر دعا میں رکھتی تھی۔

اب وہ بھی دعا ہی لینے آئی تھی۔ اس سے ابو بکر تو پہلے ہی لے گئی تھی۔

" میں تیری مجرم ہوں۔ میں جانتی ہوں۔ پر معاف کردے ناں۔ رحم کردے۔ اسکی قسم ہے "

وہ ہنس پڑی۔ ایسے کہ اسکے چہرے کی ہڈیوں سے چپکی کھال اکڑنے لگی۔

" تو مجرم کہاں سے ہوگئی۔ نمانئیے، تو نے تو کچھ کیا ہی نہیں۔۔۔۔ تو نے تو کچھ نہیں۔۔۔۔ "

اسکی وہ آنکھ بھی رو پڑی جس میں روشنی تھی اور وہ بھی جو سارے رات جلتے دئیے کی مانند اب صبح کے سمے بجھ چکی تھی۔

" وہ بد نصیب تھا، اسے تیری قدر ہی نہیں آئی۔ اس نے تجھے غلط جانچا، بڑا غلط کیا۔ اسے پتہ ہی نہیں ہے کہ اس نے کیا گنوا دیا "

بہت پہلے کسی نے اس سے کہا تھا جب وہ اس پہ لعنت ڈال کہ، تھوک کے چلا گیا تھا۔ اب وہ بہت دیر تک اسے دیکھتی رہی۔ ابوبکر نے اگر اسے گنوا دیا تھا تو اسکی صورت میں سب کچھ پا بھی تو لیا تھا۔ اور اس نے بھی جب ابوبکر پا لیا تھا تو اب اور کیا چاہئیے تھا ؟؟؟؟

" وہ مجھ سے پیار نہیں کرتا۔ وہ میرے پاس ہوتا ہے، میرے ساتھ ہوتا ہے پر وہاں ہوتا نہیں ہے۔ وہ پورے کا پورا میرا ہے مائ لیکن اسکا دل۔۔۔ وہ میرا نہیں، میں اس میں نہیں۔۔۔۔۔ بس مجھے وہی چاہئیے۔۔۔۔ "

یہ تو سب اسے بھی کہتے تھے۔

" تو اس پہ مرتی ہے، اس پہ جان دیتی ہے، وہ تو تجھے چاہتا بھی نہیں۔۔۔ بس مارے باندھے پیار جتاتا ہے، سب کو پتہ ہے اسکے دل میں تو نہیں ہے۔ تو بس اسکی منگیتر ہے، اسکی معشوق ہے کیا ؟؟؟؟ "

اسے اس سے بھی فرق نہیں پڑتا تھا۔ وہ اسے دیکھتا بھی نہیں تو اسکی بلا سے۔ اس کے ذمہ تو بس اسکی چاہت کی ڈیوٹی تھی۔ اسکے دل کو اپنے قابو میں لینا اسکا مقصد ہی نہیں تھا۔

" اللّٰہ تجھے اسکی محبت دے۔ اسکے دل میں تجھے جگہ دے۔ اب وہ تیری دسترس میں ہے تو ہمیشہ رہے "

مائی نے سچے دل سے دعا دی تھی۔ پھر یاد آیا۔ وہ ایک امانت بھی تو ہے۔ وہ یاد آئی۔ وہ جو آج بھی وہیں پڑے تھے۔ وہ دھاگے۔

اسکی شادی طے ہوگئی تھی ابو بکر سے۔ آمنہ اور ابوبکر شادی کے کارڈ پہ پاس پاس لکھا تھا۔ وہ تو ہر وقت مسکراتی رہتی تھی۔ بات بے بات کھلکھلاتی تھی۔ اسکی دودھیا رنگت لال لال ہوئی رہتی تھی۔ اس دن شام کو ابوبکر آیا تھا

" میں اپنے مرشد کو سلام کرنے گیا تھا۔ انہوں نے یہ تحفہ دیا ہے۔ یہ ایک دھاگہ تو میرے باندھ، ایک میں تیرے باندھ دیتا ہوں۔ یہ ہماری محبت کا نگہبان رہے گا "

وہی دھاگہ اس نے اسے تھما دیا۔ وہ دھاگہ جسے اس نے باندھنے سے انکار کردیا تھا۔

" وہ مجھ سے میری جان مانگتا ہزار بار قربان۔ دل مانگتا لاکھ بار اسکا۔ میں پوری اسکی ہی تھی۔ بس وہ اتنی معمولی شے نا مانگتا۔ میرا سوہنا رب نگہبان نہیں تھا میرا اور اسکا اور اس محبت کا ؟؟؟ ایک دھاگہ مجھے اسکا کرتا ؟؟؟ میری صدیوں تک مانگی دعاؤں، بے لوث دعاؤں کا کیا ؟؟؟؟ "

وہ شادی توڑ کر چلا گیا۔ اس نے اس پہ لعنت بھی بھیجی۔ اسکے پیار پہ تھوک بھی دیا۔ اسکے لئیے اسکا دیا دھاگہ سب سے مقدم تھا۔ اسکے مرشد کی کہی سب سے اونچی تھی۔ وہ سب سے بعد میں بھی نہیں تھی۔ اسکا دل۔۔۔۔ ہونہہ دل۔۔۔۔ سستا دل۔۔۔

وہ دھاگہ لیکر چلی گئی۔ وہ چپ چاپ اسے جاتا دیکھتی رہی۔ جیسے اس رات وہ چلا گیا تھا۔ جب وہ درد سے چلا رہی تھی۔ چیخیں مار رہی تھی۔ وہ اسکے جلے ہوۓ وجود پہ اپنی ذات سے ٹھنڈا مرحم رکھ سکتا تھا لیکن۔۔۔۔

" مرشد کی دَین کو چھوٹا کہا تو نے۔ اس دھاگے کو حقیر سمجھا۔ دیکھ کیا عذاب آیا تجھ پہ "

تو وہ عذاب تھا ؟؟؟؟؟

اس رات جانے کیسے آگ لگی تھی۔ جانے کیسے۔۔۔ اسی شام کی رات جب اس نے دھاگہ باندھنے سے منع کردیا تھا۔ اسی رات جب اسکا آدھا چہرہ جھلس گیا تھا۔ داہنا ہاتھ۔ دور تک آبلے ہی آبلے۔۔۔

سب کہتے تھے دھاگہ تو بہانہ تھا۔ وہ تو اسے خود بھی چھوڑنا چاہتا تھا۔ وہ اس پہ جو عاشق ہوگیا تھا۔ اس پہ جو کہتی تھی ابوبکر کا دل اسکا بھی نہیں ہے۔۔۔۔

اس رات وہ سکون کی نیند سوئ تھی۔

مرشد کی دی امانت اسکے حقدار تک پہنچ گئی۔

" نی آمنہ۔۔۔ مائ اٹھ۔۔۔ اٹھ۔۔۔ "

رات کسی وقت اماں نے اسے جھنجوڑا

" ابو بکر اور اسکی اس یارنی کا ایکسیڈنٹ ہوگیا ہے۔ دونوں موقع پہ ہی ختم۔۔۔۔ ہاۓ آمنہ تیری بددعا لگ گئی۔۔۔۔ دونوں۔۔۔۔ "

وہ بہت دیر تک ماں کو دیکھتی رہی۔ اسے واقعی لگتا تھا اس نے اسے بدعا دی تھی ؟؟؟؟؟

وہ دوبارہ سے کروٹ لے کر لیٹ گئی۔

" مجھے اور سونا ہے اماں ۔۔۔۔ مجھے سونے دے اماں۔۔۔۔ "

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

کسی کی اندھا دھند تقلید نا کرو ( سورت الاسراء آیت نمبر 36 )



No comments

Note: only a member of this blog may post a comment.

Latest Articles