Bacha Hai Koi Baat Nahi By Zaid Zulfiqar Short Story بچہ ہے کوئی بات نہیں از زید ذوالفقار اس کو بچپن سے ہی چوری کی عادت تھی۔ امی نے جو بھ...
Bacha Hai Koi Baat Nahi By Zaid Zulfiqar Short Story
بچہ ہے کوئی بات نہیں
از زید ذوالفقار
اس کو بچپن سے ہی چوری کی
عادت تھی۔
امی نے جو بھی پیسے بچا کر،
چھپا کر کہیں بھی رکھنے، ضرورت پڑنے پہ ملتے ہی نہیں تھے۔ جگہیں بدل کر دیکھ لیں، کبھی
باورچی خانے میں رکھے، کبھی کسی گدے کے نیچے، کبھی کبھی تو غسل خانے کے اونچے روشندان
میں بھی رکھے پر کوئی فائدہ نہیں ہوا۔ جب ضرورت پڑنے پہ پیسے نکالنا چاہے، نوٹ ندارد۔
ایک بار امی نے اسے رنگوں
ہاتھوں پکڑ لیا۔
وہ کسی کام سے پڑوسی کے گئی
تھیں۔ واپس آئیں تو وہ شیلف پہ چڑھا شیٹ کے نیچے سے نوٹ کھینچ رہا تھا۔ انہوں نے کھینچ
کر نیچے اتارا اور ایک جھانپڑ رسید کیا۔
" معاف کردو
امی۔ ابو کو نا بتانا۔ دوبارہ نہیں کرتا۔ "
وہ رویا، گڑ گڑایا تو ماں
کو رحم آگیا۔
چند دن سکون کے گزرے۔ کچھ
دنوں بعد انہیں کپڑے خریدنے کے لئیے پیسوں کی ضرورت پڑی تو دیکھا جمع شدہ پیسوں میں
کچھ سو روپے کم تھے۔
اسے ڈرایا دھمکایا پر وہ نہیں
مانا۔ اسکے جانے کے بعد اسکے بیگ میں دیکھا۔ نئی جیومیٹری، کچھ کھلونے اور دو مڑے تڑے
نوٹ۔
پیشی ہوئی، رونا دھونا، پھر
سے معافی تلافی۔
وقت گزرتا گیا۔ اسکی چوری
کی عادت پختہ ہوتی گئی۔ کئ دفعہ وہ پکڑا جاتا تو مان لیتا، گناہ قبول کر لیتا۔ پر جو
جو پیسہ انکے علم میں لاۓ بغیر پار کرتا، اس سے صاف
منکر ہو جاتا۔۔۔ کئی بار ابو سے بھی بات کرنے کی کوشش کی پر ان کے غصے سے ڈر کر چپ
ہوگئیں۔
" بچہ ہے، بچے
تو ایسے کرتے ہی ہیں، سنبھل جاۓ گا، سدھر جاۓ گا "
پھر بات ابو کے بٹوے تک پہنچ
گئی۔
" ارے بیگم
تم نے تو کچھ پیسے نہیں لئیے میرے پرس میں سے ؟؟؟ پانچ سو روپے کم ہیں۔۔۔۔ ہزار کم
ہیں۔۔۔ ارے کہاں گۓ۔۔۔۔ "
امی اسکے کان مڑوڑتی تھیں۔
" مجھے پتہ
ہے تو نے ہی چراۓ ہیں۔ باز آ جا باز آجا "
وہ باز نہیں آیا۔ چوریاں سکول
تک پہنچ گئیں۔ دوستوں کی پاکٹ منی، لنچ باکس، جیومیٹری کی چیزیں۔ وہ ایسی صفائی سے
چیزیں پار کرتا کہ کسی کو کانوں کان خبر نا ہوتی تھی۔ ایک دو بار پکڑا گیا، ابو امی
کے سامنے بلوایا گیا۔ وہ سب جانتے تھے پر پرنسپل
کے سامنے مکر گۓ۔ الٹا ان پہ غصہ کیا۔
" ہمارا بچہ
ہی ملا آپ کو الزام لگانے کے لئیے۔ "
سکول سے ہٹوالیا۔ نیا سکول۔
وقت اور کھسکا۔ ہاسٹل جا پہنچا۔
عادت ایسی پختہ ہو چکی تھی کہ اسکے بغیر بے چینی سی رہتی۔ ساتھیوں کے پیسے، فون، لیپ
ٹاپ۔
ایک دفعہ پکڑا گیا۔ وارڈن
تک بات جا پہنچی۔ گھر والوں کو بلوالیا گیا۔
" بچہ ہے سر۔
غلطی ہو گئی۔ آئیندہ نہیں کرے گا۔ مجھے بتائیں میں تلافی کردیتا ہوں "
ہر ایک کا نقصان انہوں نے
بھرا۔ اسے لیکر گھر آگۓ۔ نیا کالج، نیا ہاسٹل۔۔۔۔۔
اس رات ابو کو اطلاع ملی۔
وہ بائیک چوری کی واردات میں
ملوث پایا گیا تھا۔ چھ ماہ قید کی سزا ہوئی جو بعد ازاں حرجانہ ادا کر کے معاف ہوگئی۔
اب ماں باپ پریشان ہوۓ۔
پر شائد اب وقت گزر چکا تھا۔
وہ ننھے تنے سے چھال دار درخت بن چکا تھا۔ اسکے غلط لوگوں سے یارانے تھے۔ بات بس چوری
تک نہیں رہی تھی۔ جوا، شراب، سمگلنگ پتہ نہیں کیا کیا۔۔۔۔
وہ کئی کئی ماہ تک گھر نہیں
آتا تھا۔
کبھی کسی تھانے سے ملتا، کبھی
کسی حوالات سے۔ اسکو معافیاں دلواتے، اسکے حرجانے بھگتتے وہ سڑک پہ آگۓ۔ گھر بک گیا۔ جمع پونجی ختم۔ کراۓ کا گھر۔
" سب ٹھیک ہو
جائے گا۔ اللّٰہ اسے ہدایت دے۔ اللہ اسے سیدھا راستہ دکھاۓ۔ "
وہ کسی قتل کے مقدمے میں اندر
چلا گیا۔ جن کا جوان خون مارا تھا وہ غصے میں تھے۔ اسے پھانسی دلوانے کو تیار تھے۔
ماں کا رو رو کر برا حال تھا۔
" اللّٰہ رسول
صلی اللّٰہ علیہ وسلم کا واسطہ اسے معاف کردیں۔ میرا ایک ہی بیٹا ہے۔ خون بہا لے لیں،
اسے چھوڑ دیں "
روز روز انکی منتیں، ترلے۔
کئی لوگ درمیان میں ڈالے۔ پنچایت۔ ثالثی۔
وہ رہا ہو گیا۔ اسکی سگی بہن
خون بہا میں دے دی گئی تھی۔ ماؤں نے ہمیشہ پتر ہی تو مانگے ہیں۔
چھ ماہ بعد بیٹی کی لاش واپس
آگئی۔ وہ اسکے جنازے کے لئیے موجود نہیں تھا۔ کسی ریپ کیس میں اندر تھا۔ اس پہ کئی
مقدمے اور بھی تھے۔
انسانی حقوق کی تنظیمیں اسکے
لئیے کیس لڑ رہی تھیں۔ سزائے موت یا عمر قید اسکا مستقبل تباہ کردیں گی، اسے معافی
ملنی چاہئیے۔ رحم کی درخواست۔ نفرت جرم سے مجرم سے نہیں۔ ابو ایک بار پھر حرجانے اور
جرمانے کے لئیے قرض لے رہے تھے۔
سالوں پیچھے کا زمانہ ہے۔
دنیا کے سب انسانوں میں سے
سب سے زیادہ نرم دل اور رحمت العالمین کے سامنے ایک مجرم ہے جس نے چوری کی ہے۔ اسکے
ہاتھ کاٹنے کا حکم دیا ہے۔ ارشاد فرمایا ہے :
" خدا کی قسم
اگر اسکی جگہ میری بیٹی ہوتی تو اسکے لئیے بھی یہی سزا ہوتی "
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مجرموں پہ ترس نا کھاؤ، انہیں
سرِ عام سزا دیا کرو ( سورت النور آیت نمبر 2 )
COMMENTS