Afsana By Syeda Um Ul Baneen Naqvi Short Story Novel Name : Afsana Author Name: Syeda Um Ul Baneen Naqvi Category : Short Story Novel st...
Afsana By Syeda Um Ul Baneen Naqvi Short Story
Novel Name : Afsana
Author Name: Syeda Um Ul Baneen Naqvi
Category : Short Story
Novel status : Complete
Novel description :
Assalam o Alaikum
Here is an awesome opportunity for all social media writers. If anyone is interested and want to publish their writings on our web then He / She can approach us through Email or our social media page.
knofficial9@gmail.com
whatsapp _ 0335 7500595
افسانہ
سیدہ ام البنین نقوی
جولائی:17
تپتی دھوپ میں وہ تھکی ہاری
پاؤں گھسیٹتے ہوئے سڑکے کے کنارے چل رہی تھی،کہیں
بھ ی ہوا کی کوئی رمق نہیں تھی درخت بھی خاموش تھے۔۔
سفید دوپٹے کو اپنے اوپر اچھے
سے سیٹ کرتی وہ ادھر ادھر دیکھنے لگی اسے ایک درخت نظر آیا اور اسکے نیچے ایک لوہے
کا بینچ پڑا تھا، پیاس سے ہونٹ خشک تر تھےبغیر کچھ سوچے وہ درخت کے نیچے گئی اور بینچ
پر بیٹھ کر زور زور سے سانس لینے لگی، اپنے بوسیدہ بیگ سے ایک پانی کی بوتل نکالی لیکن
بد قسمتی سے پانی بھی گرم ہو چکا تھا۔۔۔۔۔!!
اللّٰہ کب یہ آزمائش ختم ہو
گی؟؟ تھک گئی ہوں میں بوتل کو دوبارہ بیگ میں رکھتے اس نے آسمان کی طرف دیکھتے ہوئے
کہا۔۔۔۔
آج بھی کہیں جاب نہیں ملی،کاش
کہ کسی کو تو ترس آ جائے مجھ پر وہ بس سوچ سکی
بیس سال کی عمر میں وہ آزمائشوں
کے بھنور میں پھنسی ہوئی تھی۔۔۔۔۔۔
پھر کچھ سوچتے ہوئے آہستہ
سے وہ اٹھی اور گھر کی طرف قدم بڑھائے چھوٹے چھوٹے قدم لئیے وہ ایک پرانی سی گلی میں
داخل ہوئی جہانں گلی کی نکر میں اسکا گھر تھا
گھر کے پاس پہنچ کر ہاتھ آگے
بڑھا کر دروازے کی کنڈی بجائی، دو تین دفعہ کنڈی بجانے کے بعد دروازہ کھلا
ارے باجی تم آ گئی؟ اسکی چھوٹی
بہن دروازہ کھولتے ہی چہکتی بولی
اماں کدھر ہے؟ نور اپنی چھوٹی
بہن ثناء کو اگنور کرتی بولی
باجی اماں گوانڈی(ہمسائے)
کے گھر گئی ہے، اس نے مشین لگوا کے کپڑے دھلوانے تھے تو اماں کو بلا لیا، اماں بھی
چلی گئی کہ چلو رات کی ہانڈی کے لئیے تو پیسے بن جائیں گے ،
ثناء نے نور کو تفصیلات سے آگاہ کیا
ہمممم..!!! نور کہتی سامنے
برآمدے میں پڑی چارپائی پر بیٹھی کہ اسی اثناء ثناہ نے اسے پانی لا کر دیا جسے اس نے
ایک ہی گھونٹ میں پی لیا۔۔۔۔!!
کب تک آئے گی اماں؟ گلاس کو
چارپائی کے نیچے رکھتے نور نے ثناء سے پوچھا
باجی آنے ہی والی ہوں گی اب
تو، ثناء اسکے ساتھ چارپائی پر بیٹھتی بولی
آ گئی ہے نور تو؟ شاہدہ بیگم
جو ہمسائے کے گھر کپڑے دھونے گئی تھی گھر واپس آئی تو سامنے بیٹھی نور کو دیکھا تو
بولیں
ہممم۔۔۔۔۔۔۔نور بس یہی کہہ
سکی
اماں آج بھی کوئی جاب نہیں
ملی،مجھے لگتا ہے کہ بس ہماری قسمت میں ذلالت ہی ہے ہر کوئی تو ایکسپیرئنس مانگتا ہے،
بھلا بتاؤ جب جاب پر نہیں رکھیں گیں تو تجربہ
کہاں سے آئے گا؟
نور نے دکھی انداز میں کہا،
اور ایک آنسو اسکی گال پر بہا
چل میری دھی(بیٹی) تو پریشان
نہ ہو اللّٰہ بہتر سبب لگائے گا اماں نے اسے تسلی دی
اماں کہاں سبب لگائے گا؟ ہزاروں
جگہوں سے میں ذلیل ہو گئی ہوں ماسٹرز بھی رو دھو کہ جیسے تیسے کر لیا لیکن نوکری تو
کہیں مل جائے نور روہانسی ہوئی
نا میری دھی اللّٰہ کی ناشکری
نہیں کرتے وہ جس حال میں بھی رکھے ہمیں صبر کرنا چائیے، تو کیوں فکر کرتی ہے تیرا باپ
اگر نشئی ہے کوئی کام نہیں کرتا تو کیا ہوا؟ تیری ماں تو زندہ ہے نا؟
اماں آخر کب تک چلے گا؟
کب تک تو ابا کی ماریں سہتی
رہے گی؟؟ ہمارے دو تایا ہیں انہوں نے کبھی خبر نہیں لی ہماری تھوڑی تو ہمدردی ہونی
چائیے نا؟ انسانیت ہونی چائیے بندے کے اندر ،جبکہ وہ امیر بھی ہیں اپنے گھر
ثناء بھی تپ کر بولی۔۔۔۔
اینج نہیں کہندے
(ایسے نہیں کہتے)
اللّٰہ ہر کسی نوں خوش رکھے
ساڈے نصیب ساڈے نال
اللّٰہ ہر کسی کو خوش رکھے،
ہمارے نصیب ہمارے ساتھ
ہمممم۔۔۔۔!!
لیکن اماں ہم کب تک اس ٹوٹے
مکان میں رہیں گے؟ ہم سے کوئی رشتہ دار نہیں ملتا، نا کوئی ہمیں اپنے خوشی غمی میں
بلاتا ہے۔۔۔
نور تم بس اللّٰہ کا ہر حال
میں شکر ادا کرو، اگر تم اپنی آزمائش میں کامیاب ہو گئی تو اللّٰہ تمہیں اور زیادہ
نوازیں گے اماں نے اسے سمجھایا
کاش کے ابا نشہ نا کرتے ہوتے
تو آج ہمارے بھی حالات اچھے ہوتے ثناء نے ایک آہ بھری، جب سے ہوش سنبھالا ہے اسی حالت
میں خود کو پایا ہے۔۔۔
دیکھنا میری بچیوں تم دونوں
کے نصیب بہت اچھے ہوں گے
اماں نے تسلی دی، آزمائش ہر
انسان کو آتی ہیں، اور پتہ ہے؟ اگر انسان صبر شکر کے ساتھ مشکل وقت گزار لے تو وہ اللّٰہ
کا گرویدہ بندہ بن جاتا ہے،
کیا باتیں لے کے بیٹھ گئی تم دونوں؟ اماں جلدی سے نور کے پاس
اٹھیں، یہ اسما نے دو سو روپے دئیے ہیں میں اسکا گھی اور تھوڑی سبزی لے آتی ہوں تم
تب تک نہا لو نور گرمی بہت ہے اماں نے باہر جاتے ہوئے نور کو کہا۔۔
اور نور بھی سر ہلاتے غسل
خانے میں گھس گئی۔۔۔۔!!!
باجی میں کیا سوچ رہی ہوں؟
نور اور ثناء رات کا کھانا کھا کہ چھت پر بیٹھیں تھیں جب ثناء نے نور کو بلایا۔۔
ہمم کیا کہہ رہی ہو؟
باجی وہ۔۔۔۔۔
ابھی ثناء کچھ کہتی کے نیچے
سے اماں کی چیخنے کی آوازیں آئیں، نور اور ثناء نے ایک دوسرے کی طرف دیکھا
آج پھر ابا نشہ کر کہ آیا
ہے اور اماں کو مار رہا ہے وہ دونوں نیچے کی طرف بھاگیں۔
ابا چھوڑو اماں کو ابا میں
کہہ رہی ہوں چھوڑو اماں کو طاہر حسین جو نشہ کر کہ آیا تھا آتے ہی شاہدہ بیگم کو بالوں
سے پکڑ کر ڈنڈے سے مارنے لگ گیا۔۔
ابے چل ہٹ طاہر نے نور کو
دھکا دیا،۔ نور پیچھے جا کر گری، ثناء خوف سے ایک ہی جگہ کھڑی رہی اور آنسو تواتر اسکی
گال پر بہنے لگے۔۔۔
نور نے جلدی سے اٹھ کر ماں
کو اپنے ابا سے چھڑوایا اور ایک کمرے میں لے گئ، پھر ماں کو پانی کی گلاس پکڑایا
اماں پانی۔۔۔۔۔
شاہدہ بیگم نے پانی کا گلاس
پکڑا
اماں۔۔۔
نور کچھ کہہ نہ سکی اور تینوں
ماں بیٹیاں ایک دوسرے کے گلے لگ کر رو دیں، حیدر نے دسویں کلاس میں ٹاپ کیا تھا تو
سکالرشپ پر اسے بورڈنگ اسکول بھیج دیا گیا تھا۔۔۔۔
تا کہ وہ کچھ بن سکے اگر وہ
اس ماحول میں رہا تو وہ بھی نشئی بن جائے گا ۔۔۔۔
اماں ایک دن میں بہت بڑی آفیسر
بنوں گی دیکھنا ایک ایک کو سزا دوں گی جس نے تمہیں ستایا ہے نور نے ہچکیاں لیتے کہا۔۔۔
انشاء اللّٰہ میری دھی(بیٹی)
شاہدہ بیگم مسکرائیں۔۔۔۔
اماں زندگی کم ہے اور کام
بہت ہیں نور نے دکھ سے کہا،
تو نور ہے میری آنکھوں کا
نور العین، جو کم زندگی ہے اسے ایسے گزارو کے سب کام ہو جائیں، بس اللّٰہ پر یقین رکھا
کر ہماری یہ آزمائش میرے حیدر کی صورت میں کم ہوں گی اماں کو ابھی بھی امید تھی، اور امید بھی پختہ
اماں جب ہم آفیسر بن جائیں
گے اپنی محنت سے اپنے پاؤں پر کھڑے ہو جائیں گے ہم ان رشتےداروں اور ان سب بے حس انسانوں
سے دور چلیں جائیں گے جو غریبی اور مشکل وقت
میں ہمارا تماشہ دیکھتے رہے ہیں۔۔۔
ثناء پاس چپ بیٹھی تھی، بلکل
خاموش۔۔ جب اس نے تپتے ہوئے کہا۔۔!!
وہ رات تینوں ماں بیٹیوں نے
ایک دوسرے کی آغوش میں گزاری
اگلے دن نور صبح جلدی اٹھیں
نماز ادا کر کہ تیار ہو کر باہر آئی۔۔
ارے نور کہاں جا رہی ہوں؟
اماں نے روٹی پکاتے اس سے پوچھا
اماں آج بھی میں نوکری ڈھونڈنے
جا رہی ہوں۔۔
چل آ جا روٹی کھا لے پھر جانا،
اماں نے اسے کہا، نہیں اماں بھوک نہیں بس دعا چائیے تیری کہ آج کہیں نوکری مل جائے
، بیٹا میری دعائیں تیرے ساتھ ہیں شاہدہ بیگم نے کہا، اسکے منہ پر مار کے نشانات ابھی
بھی باقی تھے
نور کو اپنی ماں کی چہرے کی
طرف دیکھ کر بے اختیار رونا آیا، وہ اپنی ماں کو ہر دکھ سے آزادی دلوانا چاہتی تھی،
کچھ دیر بعد نور ایک پرائیویٹ
سکول میں تھی، اپنی سی_وی دیتے ہوئے بے اختیار دعا کی اسکو جاب مل جائے، پرنسپل نے
سی_وی دیکھتے کہا کہ آپ آ جائیے گا کل آپکا انٹرویو لیا جائے گا۔۔
جی...ج...جی سر ٹھیک ہے نور
نے خوشی سے پرنسپل کو کہا اسے امید تھی کہ اب نوکری مل جائے گی۔۔۔!!!
اماں......اماں.....اماں۔۔
کہاں ہو؟؟؟ نور گھر آتے ہیں
اماں کو آوازیں دینے لگی
کیا ہو گیا ہے نور؟ کیوں ایسے
آوازیں دے رہی خیر تو ہے نہ؟ اماں باہر آئیں تو نور کو دیکھ کر بولیں
اماں نوکری مل گئی کل سے انٹرویو
پر بلایا ہے نور نے اماں کی بانہوں میں ہاتھ ڈالتے کہا، اماں اب ہمارے حیدر کو اچھے
کپڑے پہننے کو ملیں گے اسکی سب خواہشات پوری کروں گی
آاااااہہہ یا اللّٰہ تیرا
شکر ہے اماں نے خوش ہوتے اسکا ماتھا چوما۔۔۔۔
فروری 20۔۔۔۔۔
کچھ مہینوں بعد۔۔۔۔۔
اماں آج دعا کرنا، آج میرا
ٹیسٹ ہے
ہاں بیٹا ادھر آ تیرا پہلے
میں صدقہ دوں شاہدہ بیگم اپنی مٹھی میں کچھ کالے ماش کی دال لے کے آئی اور نور کا صدقہ
دینے لگی
دیکھنا بیٹا تیرا ٹیسٹ ضرور
اچھا ہو گا شاہدہ بیگم نے اسکا ماتھا چومتے ہوئے کہا
نور دوپٹہ کو سر پر لیتے،
ساتھ ایک بڑی شال کو اپنے اوپر سیٹ کرتی گھر سے باہر نکلی،
یا اللّٰہ بے شک تو رحیم و
کریم ہے سب کی محنت کا پھل ضرور دیتا ہے، جو بندے صبر شکر کر کہ تجھ پر بھروسہ کرتے
ہیں تو انکا دامن نہیں چھوڑتا، آج میرا ٹیسٹ اچھا ہو نور نے دل سے دعا کی اور ٹیسٹ
شروع کیا۔۔۔
پتہ نہیں چلا کیسے دن گزر
گئے اور نور کے سی_ایس_ایس کے پیپرز ہو گئے، نور چھ مہینے سے اس ٹیسٹ کی تیاری کر رہی
تھی اور اب پیپرز بھی ختم ہو گئے تھے۔۔۔!!
اٹھ جاؤ نور تمہاری یہ ڈاک
آئی ہے نور جو سوئی ہوئی تھی ٹیسٹ دے کر کافی دن بیت چکے تھے لیکن ابھی تک رزلٹ نہیں
آیا تھا،
ہیں کونسی ڈاک؟
نور نے آنکھیں ملتے ہوئے ثناء
سے ڈاک پکڑی۔۔
ڈاک کو کھولتے ہیں اسے ایک
لیٹر ملا جسکو وہ پڑھتے ہی خوشی سے اچھلی
اماں ثناء میرا ٹیسٹ کلئیر
ہو گیا اب انٹرویو کے لئیے بلایا پھر ٹریننگ دیں گے۔۔۔
خوشی سے نور نے روتے ہوئے
ثناء کے گلے میں بانہیں ڈالیں اور اماں کو بتایا۔۔
سی ایس پی آفیسر نور العین۔۔۔۔!!!!!
دن گزرتے گئے وہ اسسٹنٹ کمشنر
بن گئی تھی، اور اپنی ڈیوٹی باخوبی نبھا رہی تھی،۔
انہوں نے وہ محلہ چھوڑ دیا
تھا اب وہ ایک عالیشان گھر میں آ گئے تھے جہاں گاڑیاں کھڑی تھیں اسکے گھر کے باہر،
طاہر حسین اپنے انجام کو پہنچا تھا بہت نشہ کرنے کی وجہ سے اسکے گردے اور پھپھڑے ختم
ہو چکے تھے اس لئیے وہ تڑپ تڑپ کر مر گیا۔۔۔
اب ثناء بھی ایک اچھے سے میدیکل
کالج میں پڑھ رہی تھی، حیدر نے (ISSB) کا ٹیسٹ دیا تھا جسے اس نے اپنی ذہانت کے بل بوتے پر پاس کر لیا اب وہ کیپٹن بن
رہا تھا۔۔۔
میم ۔۔۔۔۔۔۔۔
نور اپنے آفس میں بیٹھی کچھ
کام دیکھ رہی تھی جب چوکیدار اندر آیا
میم ایک شخص آپ سے ملنا چاہتا
ہے وہ کہہ رہے کہ وہ آپکے تایا جان ہیں چوکیدار
نے کہا
ہممم انہیں اندر بھیجو نور نے کچھ سوچ کر کہا۔۔۔
شاہد حسین اندر آئے۔۔۔
نور؟؟؟
آئیے مسٹر شاہد آپکو کیا کام
ہے مجھ سے؟ نور کا چہرہ بغیر کسی تاثر کے تھا بلکل سپاٹ لہجہ جیسا ایک سخت گیر آفیسر
کا ہوتا ہے
نور ہمیں بہت خوشی ہوئی۔۔۔۔۔
دیکھئیے مسٹر شاہد آپ یہاں
کوئی فالتو بات نہیں کر سکتے میں آن ڈیوٹی کوئی فالتو بات نہیں کرتی میرا موقف بس کام
ہے نور نے سپاٹ لہجے میں کہا۔۔۔۔۔!!
کیا تم اپنے کزن کے لئیے سفارش
کرو گی؟ اسے جاب نہیں مل رہی شاہد حسین نے اپنا مدعا بیان کیا
سوری مسٹر شاہد میں کسی کی
سفارش نہیں کرتی نہ ہی رشوت لیتی ہوں،۔جو جس جاب کے قابل ہو اسے وہ جاب مل جاتی ہے،۔
آپکا بیٹا اپنی محنت کے بل بوتے پر جاب حاصل کرے نہ کہ کسی سفارش پر۔
اب آپ جا سکتے ہیں نور کہہ دوبارہ فائلز دیکھنے لگی
شاہد حسین مایوسی سے اٹھے
اور چلے گئے
لوگ بھی کتنے عجیب ہیں نا؟
مشکل وقت میں ایسے لوگ نظر نہیں آتے، ہمارے مشکل وقت میں یہ لوگ بے حس بنے ہوئے تھے
لیکن شکر ہے اس پاک ذات کا
جس نے مجھے عزت بخشی اور مجھے اس قابل بنایا کہ ان بے حس لوگوں کے منہ پر تمانچہ مار
سکوں نور نے پر سکوں ہو ک سوچا
ہمیں ہر آزمائش میں صبر کرنا
چائیے، اور اللّٰہ پر بھروسہ رکھنا چائیے
بے شک وہ اللّٰہ ہمیں مشکل
وقت سے نکال کر زیادہ نوازتا ہے ۔۔۔۔۔۔۔
COMMENTS