Tufani Raat By Syeda Hina Jafferi Short Story طوفانی رات سیدہ حنا جعفری دیا صحن میں بیٹھی ڈرائنگ کر رہی تھی۔۔۔۔ جنون تھا یہ اس کا۔۔۔۔ آنکھی...
Tufani Raat By Syeda Hina Jafferi Short Story
طوفانی رات
سیدہ حنا جعفری
دیا صحن میں بیٹھی ڈرائنگ کر رہی تھی۔۔۔۔ جنون تھا یہ اس کا۔۔۔۔
آنکھیں ایسی کہ ایک بار کوئی چیز دیکھ لے تو نقش ہو جاتی اس کی آنکھ میں اور وہاں سے
صفحے پر ۔۔۔
ڈرائنگ کرتے کرتے اچانک اس کی نظر جھولے پر پڑی جو زور سے ہل
رہا تھا جیسے کوئی جھولا جھول رہا ہو۔۔ ۔ اس
نے یہاں وہاں نظر دوڑائی۔۔۔۔ ہوا کا نام و نشان نہیں تھا پھر یہ جھولا۔۔۔ اس نے سوچا۔۔۔۔
میڈم ۔۔۔۔ بڑی میڈم کی طبیعت بگڑ رہی ہے۔۔۔۔ تارہ بھاگتی آئی۔۔۔
دیا نے کاغذ وہیں چھوڑا اور اندر کو بھاگی۔۔۔۔
موم۔۔۔۔
°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°
شگفتہ دھڑا دھڑ قے کر رہی تھی۔۔۔۔
موم۔۔۔۔ دیا نے اسے سیدھا کیا۔۔۔
وہ نڈھال ہو چکی تھی۔۔۔۔ بہت علاج کروایا لیکن یہ خونی الٹی
تھی کہ بند ہونے کا نام ہی نہیں لیتی تھی۔۔۔۔۔
یہ لیں پانی۔۔۔۔ دیا نے اس کو پانی دیا اور رومال سے اس کا منہ
صاف کیا۔۔۔۔
تارہ ۔۔۔۔ موم کے لیے دلیہ بنا دو۔۔۔۔ شگفتہ کو لیٹانے کے بعد
دیا کچن میں آئی۔۔۔
جی میڈم۔۔۔۔۔ تارہ نے کہا
یا اللہ یہ کیا ہوگیا ہے موم کو۔۔۔۔ وہ کیوں ٹھیک نہیں ہو رہی
ہیں۔۔۔۔ دیا روز روز اپنی ماں کی یہ حالت دیکھ کر پریشان ہو چکی تھی۔۔۔
°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°
السلام علیکم بابا۔۔۔ دیا نے رحمان کے ہاتھ سے شاپر لیے۔۔۔۔
وعلیکم السلام میرا بچہ ۔۔۔۔ رحمان نے دیا کو سینے سے لگایا۔۔۔۔
موم کہاں ہیں؟
بابا ان کی طبیعت پھر سے خراب ہوگئی۔۔۔ دوائ دی ہے لیکن کب تک
بابا۔۔۔ دیا روہانسی ہو گئ تھی۔۔۔۔
ایک دوست نے بتایا ہے کہ بمبئی میں ایک ڈاکٹر ہے ۔۔۔۔ وہ اس
کا علاج۔۔۔
بابا پھر سے نیا شہر۔۔۔۔۔ دیا رونے لگی۔۔۔
امید ہے سب بہتر ہوگا۔۔۔ کل ہی میں وہاں کے لیے نکلوں گا۔۔۔۔
کیا معلوم کس کے ہاتھ میں شفا ہو۔۔۔۔ رحمان خود بھی بری طرح متاثر تھا۔۔۔۔۔ وہ کام
پر جاتا تھا لیکن اس کا دل اور دماغ اپنی ہم سفر کی صحت میں اٹکا تھا۔۔۔ کون سا ڈاکٹر
نہیں چھوڑا تھا اس نے۔ ۔۔۔۔۔
°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°
اگلی صبح
موم آپ نے سب رپورٹس رکھ لی ناں۔۔۔۔ دیا اپنی ماں کے پاس کھڑی
تھی۔۔۔
ہاں بیٹا بس شام تک ہم بمبئی پہنچ جائیں گے۔۔۔۔ وہاں پہنچتے
ہی ٹیسٹ کروا کر رپورٹس ڈاکٹر کو دکھا کر صبح ہی واپس لوٹ آئیں گے۔۔۔۔ کل شام کو ہم
دوبارہ ساتھ ہوں گے۔۔
ان شاءاللہ۔۔۔۔ موم بس آپ ٹھیک ہو جائیں۔۔۔۔
۔۔ بیٹا تم اکیلی ہو کہو تو چاچی یا موسی سے کہتی جاؤں کہ وہ آج شام
تمہارے پاس آجائیں۔۔۔۔ مسز رحمان کو اپنی بیٹی کی بہت فکر ہو رہی تھی۔۔۔۔
ان کی بیماری کے بعد ان کو بار بار شہر کے چکر لگانا پڑتے تھے
مگر ہمیشہ وہ کسی نہ کسی رشتہ دار کی منت سماجت کر کہ دیا کے پاس چھوڑ کر جاتی تھی۔۔۔۔
نہیں موم۔۔۔ بس ایک ہی دن کی تو بات ہے اور ویسے بھی آخری بار
چچی بہت باتیں سنا کر گئ تھی کہ آج کس کے پاس وقت ہے ۔۔۔ گھر کی مصروفیات ہی اتنی ہیں۔۔۔
لہذا آپ کو کسی کی منتوں کی ضرورت نہیں اب میں بڑی ہوگئ ہوں۔۔۔۔
دیا کی باتوں سے اس کی ماں کچھ حد تک مطمئن ہوگئ۔۔۔
اچھا بیٹا گاڑی آگئ ہے۔۔۔ ہم جارہے۔۔۔ تارا نے کپڑے دھو کر سوکھنے
کے لیے ڈالے ہیں شام کو ہو سکتا ہے ہلکی پھلکی بارش ہو جائے کپڑے اندر رکھ لینا اور
ہاں اندھیرا ہونے سے پہلے پہلے گھر کے سب کھڑکیاں دروازے بند کرکے اندر چلی جانا آنگن
میں نہ بیٹھی رہنا۔۔۔۔ وقت پر کھانا اور سو جانا۔۔۔ مسز رحمان نے وہ ساری نصیحتیں کی
جو اک ماں سفر پر جاتے ہوئے اپنی بیٹی کے لیے کر سکتی تھی۔۔۔۔۔
گاڑی کا انجن سٹارٹ ہونے کی آواز آئی۔۔۔ آہستہ آہستہ وہ آواز
دور ہوتے ہوتے ختم ہوگئی۔۔۔۔
°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°
دیا نے ابھی اپنی جوانی میں قدم رکھا ہی تھا اور عموماً جو اس
عمر میں نوجوانوں کے جذبات ہوتے اس کے بھی کچھ مختلف نہ تھے وہ بھی آج بغیر سرپرستی
کے اک دن اپنی مرضی سے گزارنا چاہتی تھی۔۔۔۔۔ آج وہ اس گھر کی ملکہ بن کر بسر کرنا
چاہتی تھی۔۔۔
ہمیشہ اس کو وہ دن جب اس کے ماں باپ گھر نہ ہوں رشتہ داروں کی
خدمت میں گزارنا پڑتے تھے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تارا عموماً شام کا کھانا بنا کر گھر جاتی تھی لیکن آج دیا نے
اس کو جلدی جانے کا کہہ دیا کہ وہ آج اپنی پسند کا کھانا بنائے گی۔۔۔۔
اندھا کیا چاہے دو آنکھیں۔۔۔۔ تارا بھی فوراً مان گئ اور گھر
کی راہ لی۔۔۔۔
°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°
تارا کے جاتے ہی دیا نے اپنے منگیتر کو کال کی۔۔۔۔
ہیلو۔۔۔ ہارون ؟؟؟؟
جی ہارون کی جان ۔۔۔
کیسے ہو؟
میں فٹ۔۔ آپ کیسی ہیں میڈم۔۔۔؟ اور موم کا کیا حال ہے۔۔
میں تو ٹھیک ہوں موم بابا کے ساتھ بمبئی گئی ہیں۔۔۔۔
اوہ اللہ شفا دے۔۔۔
آمین۔۔۔
ڈنر کا کیا پلین ہے؟؟؟؟
جو آپ کہیں میڈم۔۔۔۔
آج شام کا ڈنر میرے گھر؟؟؟؟
اوہ واؤ انویٹیشن ۔۔۔wow invitation
جسٹ فار ڈنر مسٹر۔۔۔۔just for dinner mister
اوکے وائے نوٹ۔۔۔۔okay why not
میٹ یو۔۔۔meet you
میٹ یوسون۔۔۔meet you soon
اچھا سنو۔۔۔ دیا۔
۔۔۔ مینیو میں کیا ہے۔۔۔۔ہارون نے جلدی سے پوچھا۔۔۔۔
یور فیورٹ اچار گوشت اور نان۔۔۔
او واؤ جسٹ کانٹ ویٹ۔۔۔۔۔oh wow just can't wait
°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°
دیا نے جلدی سے کوکنگ مکمل کی۔۔۔۔ شام کے پانچ بج رہے تھے۔۔۔۔
اپنے کمرے میں جا کر وہ تیار ہونے لگی۔۔۔۔
بلیک کلر کے گاؤن اور جوڑے میں وہ کسی ملکہ سے کم بھی نہیں لگ
رہی تھی۔۔۔۔
اپنے ہونٹوں پر سرخ لپ اسٹک لگا کر وہ کھلکھلا کر ہنس دی۔۔۔۔
میرے سامنے یوں لال لپ اسٹک میں نہ آیا کرو ورنہ اچھا نہیں ہوگا۔۔۔
ہارون کے یہ الفاظ اس کے کانوں میں گونجے اور وہ شرما سی گئی۔ میں شادی کے بعد لال
لپسٹک میں ہی گھوما کروں گی آپ کے سامنے
۔۔۔ شیشے سے ہٹتے وقت اس نے پھر سے لپ اسٹک اٹھا کر پہلے سے لگی سرخی
کو اور گاڑھا کیا۔۔۔۔ اچانک اس کی کھڑکی شور سے کھلنے بند ہونے لگی۔۔۔ باہر یک دم اندھیرا
چھانے لگا۔۔۔۔
سفید بادلوں کو ختم کرتے ہوئے ان کی جگہ کالے بادل لینے لگے۔۔۔۔
اوہ مائی گاڈ۔۔۔۔ فریش ہونے اور تیار ہونے میں مجھے اتنا وقت
ہوگیا کہ شام ہوگئی اور پتا بھی نہیں چلا۔۔۔ کپڑے اندر رکھنے ہیں۔۔۔ دروازے کھڑکیاں
بندکرنے ہیں۔۔۔۔۔ پہلے کپڑے اٹھا لاتی ہوں صحن سے۔۔۔۔ ابھی بارش شروع ہو جائے گی اور
سب کپڑے گیلے ہو جائیں گے۔۔۔۔وہ تیزی سے صحن کی طرف بھاگی۔۔۔۔
یہ انٹرنیٹ والے بھی نا ہلکی بارش بتائ تھی یہاں تو طوفان کی
تیاری ہے۔۔۔ وہ تیزی میں کپڑے سنبھال رہی تھی کہ اچانک اسے لگا کہ درخت کے پیچھے سے
کوئی اسے مسلسل دیکھ رہا ہے۔۔۔۔۔ وہ آگے بڑھی اک ہوا کا تیز جھونکا اس کے گالوں کو
چھو کر گزرا لیکن درخت کے پیچھے کوئی بھی نہ تھا۔۔۔
مجھے پورا یقین ہے کہ میں نے کسی کو دیکھا تھا درخت کے پیچھے۔۔۔
لیکن اگر کوئی تھا تو وہ کہاں گیا۔۔۔۔ دیا سوچوں میں گم تھی کہ تبھی بارش کی اک جھڑی
اس کو سوچوں سے باہر لے آئ۔۔۔۔ اور وہ اندر کی طرف بھاگی۔۔۔۔
کپڑوں کو اپنی جگہ پر رکھنے کے بعد وہ کھڑکیوں کی طرف بڑھی۔۔۔
جلدی سے بند کردوں۔۔۔ اس سے پہلے کہ بارش اندر آجائے۔۔۔ اور
کوئی بلی وغیرہ گھس جائے تو موم نے مجھے نہیں چھوڑنا۔۔۔۔
لاؤنچ کی کھڑکیاں بند کرنے کے بعد وہ اپنے ماں باپ کے کمرے کی
طرف بڑھی۔۔۔۔
اوہ واؤ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ریئلی موم
ڈیڈ کا روم گھر کا سب سے خوبصورت روم ہے۔۔۔۔ لگتا ہے موم نے اپنی ونڈو بند کر رکھی
ہے۔۔۔
نکلتے وقت اس کی نظر واش روم کے دروازے پر گئ جو نیم کھلا ہوا تھا۔۔۔۔
لو جی کھڑکی بند کر گئیں لیکن لائٹ آف کرنا بھول گئیں۔۔۔۔ موم
بھی ناں۔۔۔۔ ہمیشہ مجھے ڈانٹتی ہیں کہ فضول لائٹس آف کر دیا کرو اور یہاں خود آن ہی
چھوڑ گئیں۔۔۔۔
دیا نے آگے بڑھ کر لائٹس آف کی اور باہر چلی گئی۔۔۔ اس کے جاتے ہی واش روم کی لائٹ دوبارہ آن ہوگئ تھی۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
چلو جی سب گھر کی کھڑکیاں بند ہوگئیں۔۔۔۔ ہارون پتا نہیں کدھر
رہ گیا۔۔۔ اس نے ہارون کو میسیج کرنے کے لیے موبائل نکالا۔۔۔
اس کی بیٹری تو ڈیڈ ہوگئ ہے۔۔۔۔
چارج پر لگا لیتی ہوں چارج پر لگا کر اس نے ہارون کو میسیج کیا۔۔۔
ویٹینگ فار یو ہنی۔۔۔۔ اور اک بار آئینہ دیکھا۔۔۔ اپنی کھڑکی
کی طرف بڑھی کہ اس کی نظر مین گیٹ پر پڑی۔۔۔۔ تیز ہوا سے دروازہ زور سے کھل بند ہو
رہا تھا۔۔۔
او تیری۔۔۔ یاد ہی نہیں رہا کہ اک یہ جناب بھی ہیں۔۔۔۔ چلو جی
جب ہارون آیا تب بند کر دوں گی اس کو۔۔۔۔ باہر اندھیرا ہو چکا ہے ایسا نہ ہو کہ کوئی
جن بھوت عاشق ہو جائے۔۔۔۔
بقول موم کے۔۔۔ تیار ہو کر رات کے وقت درختوں کے نیچے نہیں جاتے۔۔۔۔
وٹ نان سینس۔۔۔۔ پہلے وقت کے لوگ کچھ بھی بول جاتے تھے۔۔۔ ٹیبل تو ڈیکوریٹ کیا ہی نہیں۔۔۔۔
دیا جلدی سے ٹیبل کی طرف بھاگی ۔۔۔۔
آخری پلیٹ رکھتے ہی اک جھٹکے
سے لائٹ چلی گئی۔۔۔ لو جی بارش نے منہ دکھایا نہیں لائٹ نے منہ چھپا لیا۔۔۔ وہ تو قسمت
اچھی ہے کہ ٹیبل پر کینڈلز لگائ ہوئی ہیں۔۔۔ وہی جلا لیتی ہوں۔۔۔
کہاں گیا لائیٹر۔۔۔۔ اس نے
پاس ٹیبل پر ہاتھ گھمانا شروع کیا۔۔۔ کہ اس کو لگا کہ اس کے ہاتھ سے کوئی ہاتھ ٹیچ
ہوا ہے۔۔۔۔ وہ ڈر گئ اور تیزی سے موم بتی جلانے لگی۔۔۔۔ جیسے ہی موم بتی روشن ہوئی
اس کو سامنے والی دیوار پر اپنے ساتھ ایک اور سایہ نظر آیا۔۔۔۔وہ بری طرح ڈر گئ تھی۔۔۔
وہ ایک دم سے پیچھے مڑی لیکن وہاں کوئی نہیں تھا۔۔۔۔ اس کے ڈر
میں اضافہ ہوگیا۔۔۔ تبھی اسے پھر سے دیوار پر سایہ نظر آیا۔۔۔۔ وہ کانپنے لگی۔۔۔
آج کیا قتل کا ارادہ ہے۔۔۔؟
یہ آواز تو۔۔۔ ہارون۔۔۔ وہ اک دم پیچھے مڑی اور اک زوردار مکا
ہارون کے کندھے پر دے مارا۔۔۔۔
یہ کون سا طریقہ ہے۔۔۔ اچانک چپ چاپ کھڑے ہوگئے۔۔۔ میں تو ڈر
ہی گئ تھی۔۔۔ ایڈیٹ۔۔۔۔۔
موم بتی کی روشنی میں دیا کا چہرہ بہت خوبصورت دکھ رہا تھا۔۔۔۔
بہت زیادہ حسین لگ رہی ہو۔۔۔۔۔ قسم سے جان لیوا۔۔۔۔ ہارون نے
شرارت بھرے لہجے میں کہا۔۔۔
اچھا مسٹر۔۔۔ مجھے اپنا سیل دو ویسے بھی لائٹ نہیں کینڈل لائٹ
ڈنر ہو گا۔۔۔ میں جا کر کھانا لے آؤں۔۔۔۔۔
چلو میں تمہاری مدد کر دوں گا۔۔۔۔
کھانا لگانے کے بعد وہ دونوں کھانے لگے۔۔۔۔ ہارون اتنی تیز تیز کھانا کھا رہا تھا کہ دیا حیران رہ گئ۔۔۔۔
کوئی جلدی ہے ہارون۔۔۔؟ وہ پوچھے بغیر نہیں رہ سکی۔۔۔۔
ہاں تم سے باتیں کرنی ہیں بہت ساری۔۔۔۔۔ اور آج اتنے عرصے بعد
اتنا لذیذ کھانا کھا رہا ہوں۔۔۔۔
اچھا جی۔۔۔۔ کیری آن۔۔۔۔۔ دیا بھی کھانے میں مصروف ہوگئی۔۔۔۔
بہت لذیذ کھانا بنایا ہے۔۔۔ ہارون نے کہا۔۔۔
شکریہ۔۔۔ دیا مسکرائی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کھانے کے بعد وہ دونوں صوفے پر جا کر بیٹھے۔۔۔۔۔
ہارون۔۔۔۔ کیا تم مجھ سے ابھی بھی اتنا ہی پیار کرتے ہو جتنا
ہماری منگنی سے پہلے۔۔۔۔ دیا نے معصومیت سے پوچھا یہ سوال وہ ہارون سے کوئی کروڑوں
بار پوچھ چکی تھی۔۔۔۔۔
اور نہیں تو کیا۔۔۔۔ کیا شادی یا رشتے کے بعد محبت ختم ہو جاتی
ہے؟؟؟؟؟
بلکہ میں تو۔ کہتا اصل محبت
ہی تب شروع ہوتی ہی۔۔۔۔ ہارون نے اس کا ہاتھ تھام کر چوما تھا۔۔۔۔۔
جذبات کی اک لہر نے دونوں کے دلوں کو چھوا تھا۔
دو نامحرموں کے درمیان تیسرا شیطان ہوتا ہے۔۔۔۔۔۔ اچانک دیا
نے اپنا ہاتھ چھڑایا ۔۔۔۔ ہارون چائے یا کافی۔۔۔۔
ہارون نے اس کو پھر سے صوفے پر بٹھایا تھا۔۔۔۔ نتھنگ۔۔۔۔ جسٹ
یو۔۔۔
ہارون میں نے صرف ڈنر پر بلایا تھا۔۔۔ رات بہت ہو رہی ہے تم
اب جاؤ۔۔۔دیا پھر سے کھڑی ہو چکی تھی۔۔۔
اتنی جلدی چلا جاؤں۔۔۔۔ کتنی بار کہا ہے میرے سامنے لال لپ اسٹک
لگا کر مت آیا کرو۔۔۔۔ لیکن میڈم کہاں سنتی ہیں۔۔۔۔۔
دیا شرما گئی تھی۔۔۔۔
میری آنکھوں میں دیکھو۔۔۔۔۔ ہارون نے اس کا چہرہ اپنی طرف کیا۔۔۔۔
اس کی آنکھوں میں دیکھتے ہی دیا کو یوں محسوس ہوا کہ جیسے وہ
اک کٹھ پتلی بن گئ ہو۔۔۔ اس کو کسی نے ہپنوٹائیز کر لیا ہو۔
اس کا وجود ڈھیلا پڑنے لگا تھا۔۔۔۔۔
چلو دیا تمہارے کمرے میں چلتے ہیں۔ ہارون آگے چلا جارہا تھا
اور ۔۔وہ کسی غلام کی طرح اس کے پیچھے چلنے لگی۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اندھیرے میں ڈوبے کمرے میں اچانک روشنی پھیل گئی لائٹ آچکی تھی۔۔۔۔۔۔۔
رات کے 2 بج رہے تھے۔۔۔ دیا اک دم اٹھ کر بیٹھ گئی۔۔۔۔۔
اپنے وجود کو اس نے کمبل میں
چھپانے کی کوشش کی۔۔۔۔۔ پاس فرش پر پڑا گاؤن اٹھا کر جلدی سے اٹھ کر یہاں وہاں دیکھا۔۔۔۔
اس کو کچھ یاد نہیں تھا کہ اس کے ساتھ کیا ہوا۔۔۔۔ اس نے شیشے میں خود کو دیکھا تو
اس کے چہرے اور جسم پر بہت سے نشانات تھے۔۔۔۔ وہ چونک گئی۔۔
یہ میں نے کیا کر لیا۔۔۔ اسکا سر درد سے پھٹے جارہا تھا۔۔۔۔۔
ہارون کہاں گیا۔۔۔ وہ ایسا کیسے کر سکتا ہے۔۔۔ مجھے اس پر یقین تھا تبھی موم ڈیڈ کی
غیر موجودگی میں اس کو بلایا تھا۔۔۔ لیکن وہ۔۔۔۔۔ میں تمہیں معاف نہیں کروں گی ہارون۔۔۔۔
اس نے گھر میں یہاں وہاں ہارون کو آوازیں لگانا شروع کردیں لیکن
کوئی جواب نہ ملا۔۔۔۔
اس نے کھڑکی سے باہر دیکھا باہر بہت طوفانی بارش ہو رہی تھی۔۔۔۔
وہ فون کی طرف بڑھی ۔۔۔۔ جیسے ہی فون اٹھایا اس کی حیرت کی انتہا
نہ رہی۔۔۔۔ اس نے ہارون کو جو میسج کیا تھا اس کے جواب میں ہارون نے جو لکھا تھا وہ
پڑھ کر دیا کے پاؤں کے نیچے سے زمین کھسک گئ۔۔۔
ایم سو سوری سویٹ ہارٹ۔۔۔ امی۔ سیڑھیوں سے گر گئی ہیں۔۔۔ میں
ان کے ساتھ ہسپتال آیا ہوں۔۔۔ وہ بے ہوش تھی تو ٹینشن میں بتانا بھول گیا۔۔۔۔ ایم سو
سوری۔۔۔ میرا ویٹ نہ کرنا۔۔۔۔ کھانا کھا کر سو جانا۔۔۔۔ لو یو۔۔۔۔ سو سوری ڈیئر۔۔۔۔۔
اگر ہارون آیا ہی نہیں تو وہ کون۔۔۔۔۔۔
اچانک اس کو کچن میں سے آوازیں سنائی دینے لگی ۔۔۔۔۔
یہ ککککک کیسی آواز تھی۔۔۔۔؟
دیا ڈر سے کانپ رہی تھی۔۔۔۔
یا اللّٰہ مجھ سے غلطی ہو
گئی۔۔۔۔ مجھے موم کو منع نہیں کرنا چاہئے تھا۔۔۔۔ کاش کاش چاچی ہوتی۔۔۔۔ میں نے ہارون
کو بلایا ہی کیوں۔۔۔۔۔ ہائے نفسانی شیطان تیرے بہکاوے میں انسان ہمیشہ اپنا نقصان ہی
کرتا ہے۔۔۔۔ شاید اسی لیے نفس سے جنگ جہاد ہے۔۔۔۔۔ یا اللّٰہ یہ آوازیں تو بڑھتی ہی
جارہی ہیں۔۔۔۔
دیا آہستہ سے کچن کی طرف بڑھتی ہے۔۔۔۔ جیسے جیسے وہ کچن کے قریب
جاتی ہے اس کو برتنوں کی آوازوں کے ساتھ ساتھ تیز اور خوفناک سانسوں کی آواز بھی آتی
ہے ایسے جیسے شیر شکار کو چیرتے پھاڑتے وقت دھاڑتے ہوئے سانس لے رہا ہو۔۔۔۔ اس کی ہمت
جواب دے جاتی ہے۔۔۔۔
یہ تتتتت تو بہت خوفناک آواز ہے۔۔۔۔ اچانک وہ آواز آنابند ہو
جاتی ہے۔۔۔۔ دیااور زیادہ ڈر جاتی ہے۔۔۔۔ اس کو اپنے زخموں میں شدید درد محسوس ہونے
لگتا ہے۔۔۔۔
آہ۔۔۔۔ ایسا لگتا ہے کسی نے چاقو کے ساتھ یہ زخم بنائے ہوں۔۔۔۔
وہ ہمت کرکہ کچن کا نیم کھلا دروازہ کھولتی ہے۔۔۔۔
کچن کی سب لائٹس جل رہی تھی مگر وہاں کوئی نہ تھا۔۔۔۔
ابھی تو اتنی آواز آرہی تھی اب اک دم سے خاموشی۔۔۔۔ یہ کیا ہو
رہا ہے کچھ سمجھ نہیں آرہا۔۔۔۔ ہارون نہیں آیا لیکن اس کی شکل کا کوئی آیا جس نے میرے
ساتھ ڈنر کیا باتیں کی اور کب غائب ہوگیا کدھر گیا کچھ پتا نہیں۔۔۔۔ دیا یہ سب دل ہی
دل میں بڑںڑائے جا رہی تھی۔۔۔۔
میں کہیں نہیں گیا ادھر ہی ہوں۔۔۔۔
دیا کے جسم کے ساتھ ساتھ اس کی روح بھی لرز کر رہ گئی تھی۔۔۔۔۔
کون ہو تم۔۔۔ اور یہاں کیوں آئے تھے۔۔۔۔؟ اور کیا کیا تم نے
میرے ساتھ دیا پیچھے مڑے بغیر ہی بولی تھی۔۔۔۔
میرا نام شارق ہے۔۔۔ میں ایک جن ہوں۔۔۔۔
ج۔۔۔ج۔۔۔۔ج۔۔۔جن۔۔۔۔ میں نہیں مانتی۔۔۔۔ ایک جن ۔۔۔۔ دیا باہر
باہر سے کہہ رہی تھی حالانکہ اس کا دل چیخ چیخ کر کہہ رہا تھا کہ یہ کوئی انسان نہیں
ہے۔۔۔
لیکن کوئی جواب نہ آیا ۔۔۔۔ دیا نے پیچھے دیکھا تو کوئی بھی
نہ تھا۔۔۔۔ کدھر چلا گیا پھر سے۔۔۔۔ ضرور کوئی چور ڈاکو ہے جو میرے بارے میں سب جانتا
ہے۔۔۔۔ اور اس طرح ڈرا دھمکا کر ڈاکا ڈالنا چاہتا ہے۔۔۔۔ اس نے اپنے آپ کو جھوٹی تسلی
دی۔۔۔۔۔
اچانک دیا کو بہت کمزوری اور بھوک کا احساس ہوا۔۔۔۔ اس نے دیگچی
کا ڈھکن ہٹایا تو حیران رہ گئ وہاں کچھ نہ تھا۔۔۔۔ اس نے فریج کھولا غرض یہ کہ ہر چیز
جہاں وہ کچھ نہ کچھ کھانے کا رکھتے تھے دیکھی لیکن سب خالی تھا۔۔۔۔
سب کہاں گیا۔۔۔ شام کو تو سب سامان بھرا پڑا تھا۔۔۔۔۔۔
دیا۔۔۔۔ کیا مجھے ڈھونڈ سکتی ہو۔۔۔۔۔ کم آن۔۔۔۔ میں لکا چھپی
کھیلنا چاہتا ہوں۔۔۔۔ باہر لاؤنچ سے اک آواز آئی۔۔۔۔
مجھے بتاؤ کہ تم کیوں آئے ہو یہاں پر۔۔۔۔۔دیا بہت غصے میں آ
چکی تھی۔۔۔۔
اذان کے ہوتے ہی چلا جاؤں گا صرف دو گھنٹے ہی تو ہیں۔۔۔
میں نے جانے کا نہیں پوچھا آنے کا پوچھا ہے۔۔۔۔ کیوں آئے ہو۔۔۔۔؟؟؟؟
تمہیں کمپنی دینے آیا ہوں۔۔۔
اب اک لڑکی اتنا تیار ہو کر بغیر سر پر دوپٹا لیے شام کے وقت
میرے گھر کے نیچے گھومے گی تو مجھ آوارہ کا دل تو اس پر آئے گا ہی ناں۔۔۔۔
یہ سب بکواس ہے۔۔۔۔ میں نہیں مانتی۔۔۔۔۔ تم جن ہو انسان نہیں
جو دل آئے گا۔۔۔۔
اوہ میڈم ۔۔۔۔۔ انسان بے وفائی کر جاتا لیکن تاریخ گواہ ہے ہم
جنات جسے چاہتے ہیں یا تو اسے اپنا بناتے ہیں یا کسی اور کا بھی نہیں ہونے دیتے۔۔۔۔۔
ہم پیار محبت نہیں عشق کے قائل ہیں۔۔۔۔ وہ اب دیا کے بالکل سامنے کھڑا تھا۔۔۔
بلا کا خوبصورت تھا وہ۔۔۔۔ آنکھوں میں گہرائی اور اک آگ کے شعلے
سی چمک۔۔۔۔ دراز قد۔۔۔۔۔ اس کے کانوں کو بالوں نے ڈھانپ رکھا تھا۔۔۔۔ ہلکی سی داڑھی۔۔۔۔
اور اس پر کالا لباس۔۔۔۔اک پل کو دیا اسے دیکھتی ہی رہ گئ تھی۔۔۔۔۔
کدھر کھوگئ۔۔۔۔۔ ؟؟؟؟
کہیں نہیں۔۔۔۔۔ تمہارے آنے کا مقص۔۔۔۔
شششششششش۔۔۔۔۔۔۔ وقت کم ہے چلو اب کھیلتے ہیں۔۔۔۔
وہ پھر سے غائب ہو گیا تھا۔۔۔۔۔
اچانک دیا کو اپنے ماں باپ کے کمرے کے دروازے کی آواز آئی نہ
چاہتے ہوئے بھی وہ اس طرف بڑھنے لگی۔۔۔۔۔
اک پل کو اسے ایسا لگا کہ صوفے پر کوئی سفید کپڑوں میں ملبوس
عورت بیٹھی ہے۔۔۔ اس نے دوبارہ غور سے دیکھا تو وہاں کوئی نہ تھا۔۔۔۔
وہ اپنے ماں باپ کے کمرے کی طرف بڑھی۔۔۔۔
واش روم کی لائٹ جل رہی تھی وہ وہاں گئی تو اس کی چیخ نکل گئی۔۔۔۔
اک سفید لباس میں ملبوس عورت شارق کی انگلیوں سے خون چوس رہی
تھی۔۔۔۔ اس کی سمجھ میں کچھ نہیں آرہا تھا۔۔۔۔ وہ عورت اس قدر خوفناک تھی کہ اس کا
رنگ نہ کالا تھا نہ ہی سفید۔۔۔۔ اس کے آدھے سر پر بال تھے باقی وہ گنجہ تھی ایسے جیسے
کسی نے مشین سے اس کے بال کاٹے ہوں۔۔۔۔ اس کے دانت کچھ چمکدار اور کچھ کالے تھے اور
بے ترتیب بھی۔۔۔۔ اس کے ہاتھوں میں بھی صرف چمڑی ہی تھی ۔۔۔۔۔ اس کی آنکھیں باہر کو
نکلی ہوئی تھی۔۔۔۔۔
دیا کا سانس پھولنے لگا تھا۔۔۔۔ وہ باہر بھاگی لیکن دروازہ لاک
ہو چکا تھا۔۔۔ اس نے بہت کوشش کی لیکن وہ دروازہ نہیں کھلا۔۔۔۔۔
دیا۔۔۔۔ شارق چلایا
شارق وہ کیا چیز ہے اور تم اسے اپنا خون کیوں پلا رہے تھے۔۔۔؟؟؟؟؟
تبھی وہ عورت بھی رینگتے ہوئے واش روم سے باہر آئی تھی۔۔۔۔
دیا میٹ ہر ۔۔۔۔۔ یہ میری بیوی ہے۔۔۔۔۔
اوہ تو جن بھی موقع پرست ہوتے ہیں۔۔۔۔ بد صورت بیوی کی غیر موجودگی
میں اک خوبصورت لڑکی کا فائدہ اٹھا کر تم خود کو وفادار کہتے ہو۔۔۔۔ اور بعد میں کفارے
کے طور پر اس کو اپنا خون پلا رہے ہو۔۔۔۔۔ جسٹ واؤ۔۔۔۔۔ دیا کو خود سمجھ نہیں آیا کہ
غصے میں اس نے تکبر کے الفاظ استعمال کیے ہیں۔۔۔۔
دیا میں نے تمہیں پہلے بھی کہا تھا کہ ہم انسان نہیں کہ کبھی
ایک کے پیچھے کبھی دوسرے کے۔۔۔۔ اور ہاں عشق پتا ہے کیا ہے کہ کسی کے لیے کچھ بھی ہو
لیکن اک عاشق کے لیے اس کا محبوب سب سے خوبصورت ہوتا ہے۔۔۔۔ تم نے میری بیوی کو بد
صورت کہا۔۔۔ اس کی سزا ملے گی تمہیں۔۔۔
تبھی اک زوردار تھپڑ دیا کے گالوں پر رسید ہوا جس سے وہ ہل کر
رہ گئی۔۔۔۔۔
اور یہ میرا نہیں تمہارا خون ہے۔۔۔۔ جو میں عنایا کو پلا کر
دیکھ رہا تھا۔۔۔۔
وٹ۔۔۔۔ تمہارا دماغ ٹھیک ہے۔۔۔ میرا خون لیکن کیوں۔۔۔؟؟؟؟ اور
تم اپنی وفاداری دکھا چکے ہو کچھ گھنٹوں پہلے۔۔۔۔۔ دیا بہت غصے میں آ چکی تھی۔۔۔۔۔
تم سمجھتی کیا ہو۔۔۔؟؟؟ میرے اندر کوئی فیلنگس نہیں ہیں تمہیں
لے کر۔۔۔۔ جسے تم بدصورت کہہ رہی ہو وہ تم سے ذیادہ خوبصورت تھی۔۔۔۔ ایک دن ایک کالے علم کا کوئی پجاری چلّہ کاٹ رہا
تھا اس نے ہمارے بچے کو قابو کرنے کی کوشش کی۔۔۔۔ میری بیوی اپنے بچے کو بچانے آگے
بڑھی تو اس عامل نے نہ جانے کیا کیا اس کی ساری سکن جل گئ بال جھڑ گئے اور یہ ایسی
ہوگئ۔۔۔
۔ میں جب واپس گھر لوٹا تو بہت پریشان تھا۔۔۔ کوہ کاف کے اک حکیم جن
نے بتایا کہ اگر میں کسی ایسی انسان لڑکی کا خون کا کر اسے پلاؤں کہ جس کے ساتھ اس
کا پیدائش کا دن ملتا ہو اور کاندھے پر یہ
برتھ مارک ہو جو اس کے کاندھے پر ہے اور دن ہفتہ ہو لیکن باہر چاند نہ ہو بلکہ کالے
بادلوں نے چاند کو ڈھکا ہو۔۔۔۔۔ بہت مشکلوں سے تم میں یہ کوالیٹیز ملی۔۔۔ لیکن کبھی
سب اک ساتھ نہیں ملا آج قدرت نے موقع دیا اور
تم میں یہ سب اک ساتھ مل گیا۔۔
۔۔میں نے تمہارے ساتھ کچھ بھی غلط نہیں کیا۔۔۔۔ بس جسم کے مختلف حصوں
سے خون جمع کیا تاکہ تم زندہ رہو کیونکہ میں یہ دیکھنا چاہتا تھا کہ کیا تمہارا خون
اس کو فائدہ دے گا اور دیکھو اس کے آدھے بال لوٹ آئے رنگ بھی سدھر گیا۔۔۔۔ دانت بھی
ٹھیک ہو رہے ہیں۔۔۔ لیکن جو خون میں نے لیا تھا وہ کم پڑگیا۔۔۔ شاید تمہاری موت ہی
میری بیوی کی نئی زندگی ہے۔۔۔۔ لہذا ایم سوری میں اپنے بچے کی ماں کو واپس لانے کے
لیے یہ قدم اٹھا رہا ہوں۔۔۔۔۔ اگر آج تم نہ مری تو وہ مر جائے گی۔۔۔۔
دیا کے تو رونگٹے ہی کھڑے ہوگئے تھے۔۔۔ تم ایسا نہیں کرو گے۔۔۔۔
میں اپنے ماں باپ کی اکلوتی اولاد ہوں وہ یہ صدمہ نہیں برداشت کر سکیں گے۔۔۔۔
اب کچھ نہیں ہوسکتا اب اگر تمہارا خون نہ ملا اس کو تو وہ مر
جائے گی۔۔۔۔ عنایا آؤ اور آکر چوس لو جتنا خون تمہیں ضرورت ہو۔۔ فجر سے پہلے پہلے یہ
کام ہو جانا چاہئیے
۔۔ عنایا رینگتی ہوئی دیا کی طرف بڑھنے لگی۔۔۔
یا میرے مالک۔۔۔ اللّٰہ مجھ سے غلطی ہوئی میں نے تکبر کے الفاظ
کہے۔۔۔ مولا مجھے معاف کر دے مجھے بچا لے۔۔۔۔ مولا۔۔۔
اللّٰہ اکبر اللّٰہ اکبر۔۔۔۔۔۔۔
کسی مسجد میں اذان کی آواز بلند ہوئی اور عنایا تڑپنے لگی جیسے
جیسے اذان کے الفاظ آگے بڑھ رہے تھے عنایا کا جسم راکھ بنتا جارہا تھا اور دیا کے زخم
بھرتے جارہے تھے ۔۔۔۔ اور شارق جیسے اک جگہ جکڑا جاچکا تھا ۔۔۔۔۔ وہ بس دور کھڑا یہ
منظر دیکھ رہا تھا اور چلائے جا رہا تھا۔۔۔۔۔
اذان کے ختم ہوتے ہی سب طوفان تھم چکا تھا۔۔۔۔ مختلف مساجد سے
اذان کی صدائیں بلند ہو رہی تھیں۔۔۔۔۔ عنایا کی راکھ بھی ختم ہو چکی تھی اور شارق جو
کہ اک خوبصورت نوجوان کے روپ میں تھا انتہائی خوفناک شکل میں تبدیل ہو کر وہاں سے غائب
ہو چکا تھا۔۔۔۔
بے شک اللّٰہ پر کامل ایمان ہو اور سچے دل سے پکارو تو وہ کبھی
خالی نہیں لوٹاتا۔۔۔۔۔ دیا کی آنکھ سے بے ساختہ آنسو جاری ہوگئے۔۔۔۔ وہ اذان جو روز
مسجد میں دی جاتی تھی لیکن کبھی بھی دیا کے کانوں تک نہیں پہنچی کیونکہ وہ نیند میں
اتنی گم ہوتی تھی۔۔۔۔ ماں کے جگانے کے باوجود وہ اس رب کے حضور سجدہ کرنے کی توفیق
نہ حاصل کر سکی۔۔۔۔ لیکن آج اس کا دل کر رہا تھا کہ اذان کی آواز اس کے کانوں تک پہنچتی
رہے۔۔۔۔ اس آواز کے باعث ہی آج وہ زندہ تھی۔۔۔۔
دیا نے جلدی سے وضو کیا۔۔۔۔ نماز ادا کرنے کے بعد شکرانے کے
نوافل ادا کیے۔۔۔۔ اس کی آنکھ سے آنسو رواں تھے۔۔۔۔ باہر روشنی پھیل چکی تھی۔۔۔۔ جیسے
پیغام دے رہی ہو کہ طوفان کتنا ہی شدت والا ہو جب تھم جاتا ہے اور اس کے بعد روشنی
آتی ہے تو ہر چیز کو اک نئی زندگی بخشتی ہے۔۔۔۔۔۔
دیا نے کھڑکی سے باہر دیکھا تو پرندوں کے خوشی بھرے نغمے۔۔۔۔
پھولوں پر پڑتی سورج کی روشنی اک نئی زندگی اک نئے سفر کی طرف بلا رہی تھی۔۔۔ آج دیا
کو اپنا وجود پہلے جیسا نہیں لگ رہا تھا آج وہ اک رات پہلے والی دیا نہیں تھی۔۔۔۔
اچانک اس کی نظر مین گیٹ پر پڑھی ۔۔۔۔۔ تارا دائیں بائیں دیکھ
کر سڑک پار کر رہی تھی۔۔۔۔ اس کو دیکھ کر آج دیا کو دلی خوشی محسوس ہوئی۔۔۔۔
موبائل دیکھا تو موم کا میسج آیا تھا رپورٹس کلیئر ہیں ہم نکل
رہے ہیں۔۔۔۔
وہیں ہارون کا بھی اک میسج تھا۔۔۔۔۔ دیا ایم ویری ہیپی۔۔۔۔
امی ابو آج ہمارے نکاح کی تاریخ رکھنے آپ کے گھر جارہے۔۔۔۔۔امی
کو بس ہلکی سے چوٹیں آئیں تھیں۔۔۔۔ بس ڈر سے وہ بے ہوش ہوگئیں تھیں۔۔۔
دیا نے اک نظر آسمان کی طرف دیکھا۔۔۔۔ بھیگی آنکھوں سے مسکرا
دی۔۔۔۔ بس اتنی سی ناراضگی۔۔۔۔ کہ چند آنسوؤں کے بدلے ختم۔۔۔۔۔۔ اور وہ چہرے پر اک
زخم لئے نیچے لاؤنچ کی طرف چل دی۔۔۔۔۔ایک نئی زندگی کی طرف۔۔۔
ختم شد۔۔۔۔
COMMENTS