Siyah Gulab By Tehmina Firdous Short Story سیاہ گلاب تہمینہ فردوس وہ ایک گہری سرد رات تھی۔گہری رات کا سکوت چیخ و پکار نے توڑا تھا۔ہر طرف آہ...
Siyah Gulab By Tehmina Firdous Short Story
سیاہ گلاب
تہمینہ فردوس
وہ ایک گہری سرد رات تھی۔گہری
رات کا سکوت چیخ و پکار نے توڑا تھا۔ہر طرف آہ و بکا کا منظر تھا۔
یہاں ہر قدم پر کوئی نہ کوئی
اپنے پیارے کے چھن جانے پر نوحہ کناں تھا۔
ہر طرف گہرا سیال مادہ بکھرا
ہوا تھا۔
رونے والی ہر آنکھ سے لہو
ٹپک رہا تھا۔
وہ لہو زمین پر گر کر سیال
مادے سے مل کر عجب رنگ میں بدلتا جا رہا تھا۔
ایسے میں موسم سرما کی پہلی
بارش برسنے کے لئے بے تاب ہوئی تو زمین پر قدم قدم پر بیٹھے سب لوگ گبھرا گئے۔
وہ سب بارش میں بھیگنے کا
مطلب جانتے تھے
آسمان پر کڑکتی بجلی کے ساتھ
ہی ان سب کی ہوائیاں اڑ گئیں۔
خوف کا یہ عالم تھا کہ ہر
کوئی اپنی جان بچانے کا سوچ رہا تھا۔
بارش کا پہلا قطرہ برسنے سے
پہلے ان سب کو یہاں سے نکلنا تھا۔
ہاں ہمیشہ کے لئے
کتنا تکلیف دہ عمل تھا اپنوں
پیاروں کے مردہ وجود کو یونہی بے یارو مددگار چھوڑ کر جانا مگر وہ سب جا رہے تھے۔
ہاں وہ سب جا رہے تھے اپنے
قبیلے کی بقاء کے لیے،بے شک وہ چند ایک ہی بچے تھے مگر وہ اپنے قبیلے کا یوں نام و
نشان نہیں مٹنے دے سکتے تھے۔
انہیں اس پل اپنی جانوں سے
زیادہ اپنے قبیلے کی بقاء کی فکر تھی اور وہ جو ان چند لوگوں کی زندگی سے جڑی تھی۔
بارش کی پہلی بوند گرنے سے
پہلے وہ سب تیزی سے اٹھے اور نامعلوم مقام کی جانب ہجرت کر گئے۔
ظالم مینہ نے انہیں آخری بار
صدیوں سے آباد علاقے کو الوداع کہنے کا موقع بھی نہیں دیا۔
اسی لمحے برسنے کو بے تاب
بادل نے جل تھل کر دی۔
بارش برس ہی نہیں رہی تھی
بلکہ چھاج و چھاج برس رہی تھی اور اپنے سارے مردہ اجسام کے قریب بہتا سیال مادہ اور
لہو رنگ آنسو بھی بہائے لے جا رہی تھی۔
وہ سب مجبوراً اپنے پیاروں
کو مردہ حالت میں بے یارو مددگار چھوڑ کر جا چکے تھے۔
اس بات سے انجان کہ جلد بازی
میں ایک ننھا سا خوف سے لرزتا وجود بھی وہی چھوڑ آئے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
"ہادیہ۔۔۔۔۔"
ہادیہ اٹھئے۔
"ہادیہ میں
کہہ رہی ہوں اٹھئے،ورنہ پانی کا جگ آپ پہ انڈیل دوں گی"وہ کافی دیر سے کمبل میں
دبکی ہادیہ کو جگانے کی ناکام کوشش کرتی تنگ آ کر بولی
"آہ آپی رحم
کریں پلیز سونے دیں نا"کمبل سے جھنجھلاتی ہوئی آواز آئی
"ہادیہ رحم
تو آپ کریں اس بستر پر جو بے چارہ التجا کر رہا ہے کہ کب ہادیہ اس کی جان چھوڑیں اور
کب اس کی اٹکی سانس بحال ہو"اس بار آمنہ مسکراہٹ دباتے ہوئے بولی
"اس بستر کو
ہمیں برداشت کرنا ہو گا،جب تک ہمارا خواب پورا نہیں ہو جاتا جو آپ کی آمد سے ادھورا
رہ گیا،آپ کو اندازہ بھی ہے ہم بالکل جھرنے کے قریب کھڑے تھے اور ہمارے عبدالہادی ہمیں
وہ سیاہ گلاب پیش کرنے والے تھے کہ آپ نے آ کر سب خراب کر دیا۔اب آپ جائیے اور ہمارا
خواب پورا ہونے کے بعد تشریف لائیے گا ہونہہ"ہادیہ نے کمبل کے اندر سے ہانک لگائی
"کچھ خواب ادھورے
ہی اچھے لگتے ہیں ہادیہ ورنہ انہیں پورا کرنے کی قیمت چکانی پڑتی ہے"آمنہ نے اس
بار اس پر لپٹا سارا کمبل کھینچ کر سختی سے کہا تو ہادیہ جھنجھلاتی ہوئی اٹھ بیٹھی
"آپ کتنی ظالم
ہے ہیں آپی،کتنی ی ی ظالم۔۔۔۔جو اپنی معصوم بہن کا خواب پورا نہیں ہونے دے رہیں،ارے
جب ہم خواب پورا کرنے کے لئے لمبی تان کر سوتے ہیں تو آپ آ جاتی ہیں دندناتی ہوئی ہماری
نیند کی دشمن بن کر۔۔۔۔"ہادیہ اس بار منہ بسور کر بولی تو آمنہ کو ہنسی آ گئی
"آپ ہنس کیوں
رہی ہیں؟کیا میں نے کوئی مزاحیہ بات کہی؟یا میرا خواب دیکھنا مضحکہ خیز لگا"ہادیہ
روہانسی ہوئی
"ارے ارے نہیں
میری جان ایسی بات نہیں،میں تو بس یہ کہہ رہی ہوں کہ ایسے خوابوں سے امیدیں نہیں باندھتے
جن کی پورے ہونے کی امید نہ ہو،چلیں اٹھئے شاباش اور میرے ساتھ چلیں بابا ہمارا کب
سے ناشتے پر انتظار کر رہے ہیں اور بزرگوں کو انتظار کروانا بہت بری بات ہوتی ہے"آمنہ
نے اس کی آنکھوں میں نمی دیکھ کر بات بدلی تو وہ موم کی گڑیا جلد ہی بہل گئی۔
"مگر یاد رکھئے
گا ہمارا خواب ایک دن ضرور پورا ہو گا"وہ تیزی سے آمنہ کے گال پر چٹکی بھرتی کہہ
کر بھاگ گئی اور آمنہ مسکراتے ہوئے نفی میں سر ہلاتی بستر تہہ لگانے لگی۔
آمنہ اور ہادیہ دو سگی بہنیں
تھیں۔جن کے والدین کا انتقال ایک روڈ ایکسیڈنٹ میں ہوا تھا جب دونوں بہت چھوٹی تھیں۔والدین
کی وفات کے بعد ان کے دادا محمد شفیع صاحب نے انہیں بہت لاڈ پیار سے پالا تھا شاید
یہی وجہ تھی کہ وہ انہیں دادا کہنے کی بجائے بابا پکارتی تھیں۔
محمد شفیع صاحب کا تعلق ایک
متوسط طبقے سے تھا انہوں نے اپنی جانب سے دونوں بچیوں کی پرورش و تربیت میں کوئی کمی
نہیں رہنے دی تھی آمنہ پر اپنے دادا کی صحبت کا گہرا اثر تھا۔وہ سانولی رنگت کی ایک
سلجھی ہوئی لڑکی تھی جبکہ ہادیہ سرخ و سفید رنگت کی ایک لا ابالی سی گڑیا تھی جس کی
سوئی جس بات پر اٹک جاتی تو اسے سمجھانا ناممکن ہو جاتا جیسے اب آمنہ کے لیے اس کے
دماغ سے عجیب سا خواب نکالنا مشکل ہو رہا تھا۔
دونوں بہنیں باقاعدگی سے کالج
جا رہی تھیں جب اچانک کرونا وباء کے باعث تمام تعلیمی ادارے بند کر دیئے گئے اور انہیں
ناچار گھر بیٹھنا پڑا۔
●●●
"بابا۔"وہ
محبت سے پکارتی تیزی سے زینہ اتری اور آکر شفیع صاحب کے ساتھ لپٹ گئی
"ارے اٹھ گئی
ہماری گڑیا"شفیع صاحب نے شفقت سے اس کے سر پر ہاتھ رکھ کر کہا
"ہم اٹھنا تو
نہیں چاہتے تھے ابھی مزید سونے کا ارادہ تھا مگر آپی جو صدا کی ہماری دشمن ہیں جگا
کر ہی دم لیا،پھر مجبورا ہمیں اٹھنا پڑا"وہ منہ بسور کر بولی تو عقب سے آتی آمنہ
بولی
"دیکھ لیں بابا
آپ کی لاڈلی مجھے کن کن القابات سے نواز رہی ہیں"
"ہاں تو کیا
غلط کہا ہم نے،ایک تو ہم پورا دن گھر میں پڑے پڑے بور ہوتے رہتے ہیں اوپر سے اگر دو
گھڑی سو جائیں تو آپی ہماری جان کو آ جاتی ہیں کریں تو کیا کریں گھر میں رہ رہ کر بھی
بور ہو گئے ہیں ہم،اللہ کرے یہ لاک ڈائون کھل جائے اور ہم کہیں دور پہاڑی علاقے میں
گھومنے چلیں"ہادیہ کی باتوں پر نرمی سے مسکراتی آمنہ کی آخری جملہ سن کر مسکراہٹ
سمٹی۔
"تو پھر یوں
سمجھو کہ ہماری بیٹی کی دعاء قبول ہو گئی۔
"مطلب"شفیع
صاحب مسکرا کر کہنے پر دونوں بہنیں یک لخت بولیں۔
"مطلب یہ کہ
احتیاطی تدابیر اختیار کرنے کی بدولت کرونا وائرس بہت حد تک کنٹرول ہو چکا ہے اور کل
سے لاک ڈائون کھل رہا ہے،مطلب اب سفر کی اجازت مل رہی ہے"شفیع صاحب مسکرا کر بولے
"تو کیا فائدہ،کالج
کی چھٹیاں ختم اب ہم کالج جائیں گے،پہاڑی علاقہ جات کی سیر کی خواہش تو ادھوری رہ گئی
نا ہماری"ہادیہ اداسی سے گویا ہوئی
"میرے ہوتے
ہوئے ممکن ہے کہ گڑیا کی کوئی خواہش ادھوری رہے"شفیع صاحب آنکھوں میں چمک لئے
استفسار کر رہے تھے"
"مطلب؟ایک بار
پھر دونوں بہنیں ایک ساتھ بولیں
"مطلب یہ کہ
آپ دونوں کے پاس شام تک کا وقت ہے،شام تک اپنی پیکنگ مکمل کر لیں کیونکہ ہمیں ہمارے
بچپن کے دوست نے اپنے گاؤں مدعو کیا ہے اور پتا ہے ان کا گاؤں کہاں ہے!
"کہاں ہے"دونوں
بہنیں ایک بار پھر یک زبان بولیں۔
"ان کا گاؤں
مالم جبہ میں ہے،بہت خوبصورت گاؤں ہے پہاڑ،سبزہ،جھرنا سب ہے وہاں،چلو شاباش اب یوں
میرا منہ دیکھنے کی بجائے ناشتہ ختم کرو اور پیکنگ کرو ہم رات کی بس سے ہی نکل رہے
ہیں"شفیع صاحب کی بات مکمل ہونے سے پہلے ہی ہادیہ خوشی سے ان کے ساتھ جا لگی جبکہ
آمنہ تشویش سے اپنی بہن کے چہرے پر پھیلے قوس و قزاع کے رنگ دیکھی رہ گئی۔
●●●
ہمیشہ کی طرح آج بھی وہ دیوانہ
وار چلا رہا تھا
پتھر کی دیواروں سے اپنا سر
ٹکرا رہا تھا
اسے اس بات سے کوئی فرق نہیں
پڑتا تھا کہ اسے کتنی چوٹ لگ رہی ہے اسے پرواہ تھی تو صرف اپنے اس درد کی جو اسے بچپن
سے مل رہا تھا۔
جو قطرہ قطرہ زہر کی طرح اس
کی رگوں میں اتارا جا رہا تھا۔
وہ نادیدہ زہر اس کی جان کے
در پہ تھا مگر موت تھی کہ آنے پر آمادہ ہی نہ تھی۔شاید ابھی اسے اور جینا تھا۔
ہاں شاید ابھی اور اذیت اس
کے مقدر میں تھی۔
شاید ابھی مزید سر پٹخنا ہے،شاید ابھی
مزید تڑپنا تھا۔
اسے یاد تھا اس ننھے سے بچے
سے کسی نے اس کے ماں باپ بچھڑ جانے کی وجہ
پوچھی نہ اس کا غم بانٹا بلکہ اسے ننھی سی عمر میں بغیر کسی جرم کے قید تنہائی کی سزا
سنا دی گئی۔آج وہ ننھا سا بچہ جوان توانا تھا۔قید نے اسے اپنوں کی یاد میں جتنا رلایا
تھا انتقام کی آگ اتنی ہی اس کے سینے میں بھڑکا دی تھی۔آگ تو یوں بھی اس کے تن کا حصہ
تھی
●●●
طویل سفر کے باوجود ہادیہ
سارا راستہ چہکتی گئی تھی مجبورا آمنہ کو بھی اس کا ساتھ دینا پڑا اور شفیع صاحب بھی
ان کے سنگ مسکراتے رہے۔
سارے راستے وہ تصور میں خود
کو جھرنے کے قریب محسوس کرتی رہی اسے یوں محسوس ہو رہا تھا اس کا عبدالہادی اس کے لئے
سیاہ گلاب ہاتھ میں لئے کھڑا مسکرا رہا ہے اور وہ اس کی دلکش مسکراہٹ کے سحر میں جکڑی
جا چکی ہے۔
عبدالہادی کا نام اسے یوں
بھی اپنے نام کے ساتھ بہت اچھا لگا تھا مگر جب سے اس شہزادے نے خوابوں میں آ کر اپنا
نام اسے بتایا تھا تب سے وہ اس نام کی دیوانی ہو چکی تھی۔اس بات سے انجان کہ ہر خواب
کی تعبیر حسین نہیں ہوتی۔
منزل پر پہنچتے ہی میزبان سے ملنے کے بعد شفیع صاحب اور
آمنہ کو نیند نے آ لیا جبکہ ہادیہ کی آنکھوں سے نیند کوسوں دور تھی۔وہ اس چھوٹے سے
مگر نفاست سے سجے ہٹ کو بغور دیکھتی دبے قدموں باہر نکل گئی۔
ہادیہ نے ہٹ سے نکل کر اطراف
میں نظر دوڑائی تو اسے جنت کا گمان ہوا۔
اتنا حسین نظارہ آج سے پہلے
اس نے کبھی نہیں دیکھا تھا۔
تاحد نگاہ آنکھوں کو ٹھنڈک
بخشتا سبزہ اور اطراف میں پھیلے پہاڑ اسے بھلے لگ رہے تھے۔اتنا حسین اور پرسکون ماحول
اسے جھومنے پر مجبور کر گیا اور وہ ایڑھیوں کو ہلکا سا اٹھاتی گول گول گھوم گئی۔
وہ ایسی ہی تھی ہر چھوٹی چھوٹی
خوشی کو دل سے محسوس کرنے والی
وہ کبھی بھی بڑی خوشیوں کے
پیچھے نہیں بھاگتی تھی بلکہ ایسے ہی چھوٹی چھوٹی خوشیوں سے خوش ہو جایا کرتی تھی۔
یونہی گول گول گھومتے اس کی
نظر ہٹ کے عقب میں بہتے شفاف پانی کے جھرنے پر پڑی تو وہ پلٹنا بھول گئی۔
بلاشبہ وہ حسین منظر تھا مگر
ہادیہ کی نگاہوں کے سامنے اپنا خواب گھومنے لگا
ہاں یہ وہی جھرنا تھا جہاں
اسے وہ ملا تھا،ہاں اس کا عبدالہادی یہیں تو ہاتھ میں سیاہ گلاب لئے اس سے اظہار محبت
کر رہا تھا۔بالکل خواب جیسا
اس نے ایک بار پھر گردن گھما
کر اطراف کا جائزہ لیا تو اس پر انکشاف ہوا کہ نہ صرف وہ جھرنا بلکہ سارا منظر ہی وہی
تھا جو وہ اکثر خواب میں دیکھا کرتی تھی۔
"تو کیا میرا
خواب حقیقت بننے جا رہا ہے"وہ تعجب سے سوچتی ہوئی جھرنے کی جانب بڑھنے لگی اب
چہرے سے مسکراہٹ یکسر غائب تھی۔
●●●
وہ دیوانہ وار پتھر کی دیواروں
سے سر پٹخ پٹخ کر تھک چکا تھا۔وہیں پتھر کی ایک دیوار سے ٹیک لگائے وہ ہولے ہولے کانپتے
اپنے وجود کو فراموش کیے یک ٹک اس قید خانے کے باہر بہتے جھرنے کو دیکھ رہا تھا دفعتاً
کسی نسوانی آواز پر ٹھٹھک گیا
●●●
"تو یہیں ملے
گے آپ ہمیں"
ہمیں یقین ہی نہیں ہو رہا
کہ ہم واقعی وہیں کھڑے ہیں جہاں آپ ہم ملیں گے۔
آہ کب آئیں گے آپ ہمارے سامنے"وہ
آہ بھرتی جھرنے سے گرتے شفاف پانی سے اٹھکیلیاں کرنے لگی اس بات سے انجان کہ بائیں
جانب بہت قریب سے دو آنکھیں اس منظر کو گہری
دلچسپی سے دیکھ رہی ہیں
●●●
وہ اس آواز کا تعاقب کرتا
گرتا پڑتا قید خانے کے پار اس جالی کے قریب گیا جسے چھونے سے اسے شدید تکلیف کا احساس
ہوتا تھا۔
گویا وہی اس کی حد تھی اور
اس حد کے پار
چاہ کر بھی وہ نہیں جا سکتا
تھا۔
اس نے جالی کو ہاتھ لگائے
بغیر باہر کا منظر دیکھنے کی سعی کی تو جلد ہی اسے
جھرنے کے قریب کھڑی اک موم
کی گڑیا کچھ بڑبڑاتی ہوئی دیکھائی دی گو کہ اس کی آواز بہت دھیمی تھی اور جھرنے سے
بہتے پانی کا شور بھی بہت زیادہ تھا پھر بھی جالی کے اس پار وہ اس کی آواز باآسانی
سن پا رہا تھا۔
نہ صرف سن رہا تھا بلکہ دلچسپی
سے باہر کا منظر دیکھ رہا تھا۔
وہ لڑکی یونہی کچھ دیر جھرنے
کے پانی سے کھیل کر واپس لوٹ گئی مگر وہ وہیں پتھر کا بت بنا سوچتا رہ گیا کہ بچپن
کی ملی اس قید کے بعد وہ پہلی بار کسی انسان کو دیکھ کر کیوں مسکرایا ہے۔
●●●
چند گھنٹے سفر کی تھکان اتارنے
کے بعد شفیع صاحب اور آمنہ بھی اٹھ گئے تھے۔
فریش ہونے کے بعد ان کے لئے
شام کا کھانا بھیجا گیا۔
وہ شاید مقامی افراد کی کوئی
ڈش تھی جو
ہادیہ کو تو پھیکی سی لگی
البتہ آمنہ اور شفیع صاحب شوق سے کھاتے رہے۔
ہادیہ نے چند نوالے لینے کے
بعد کھانا چھوڑ دیا۔
دفعتاً اس کا دل چاہا کہ سب
کچھ چھوڑ کر جھرنے کے
پاس بھاگ جائے۔
شفیع صاحب نے اسے کھانا ادھورا
چھوڑنے کا سبب پوچھا تو سہولت سے ٹال گئی،اسے بس جلد از جلد جھرنے کے پاس جانا تھا۔
وجہ وہ خود بھی نہیں جانتی تھی۔
اس کا دل ہر چیز سے اچاٹ ہو
گیا تھا۔
اس کے دماغ میں مسلسل عبدالہادی
کی صدائیں گونج رہیں تھیں۔
وہ جھرنے کے پاس جانے کے لئے
بے چین ہو رہی تھی۔
جونہی شفیع صاحب اور آمنہ
نے کھانا ختم کیا
وہ شفیع صاحب سے اجازت لیتی
آمنہ کو لے کر گاؤں دیکھنے کا بہانہ بنا کر ہٹ سے نکل آئی جبکہ شفیع صاحب خود اپنے
دوست کی عیادت کو چل دیئے
●●●
ہنستے مسکراتے قریب ہی دانا
چگتی مرغیوں کے پیچھے بھاگتے ہادیہ آمنہ کو لئے اسی جھرنے کے پاس آ گئی۔
"ارے آپ تو
کہہ رہی تھیں کہ گاؤں دیکھنا ہے"
"بجائے گاؤں
دیکھنے کے آپ ہمیں اس جھرنے کے پاس لے آئی ہیں"
"ویسے کتنا
حسین منظر ہے"
"جنت لگ رہی
ہے"
ایک منٹ یہ تو ویسا ہی منظر
ہے نہ جیسا آپ خواب میں دیکھا کرتی تھیں"آمنہ اطراف میں دیکھتی ٹھٹکی۔
"ہاں ویسے ملتی
تو ہے میرے خواب سے یہ جگہ مگر وہ نہیں آیا نا"افسردہ سی ہادیہ جھرنے کے پانی
سے کھیلتی بولی
"گڑیا ہم اتفاقاً
ایسی جگہ آ ہی گئے ہیں جو آپ کے خواب سے مماثلت رکھتی ہے تو اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں
کہ آپ بالکل خواب والی کیفیت خود پر طاری کر لیں اس لئے اب چپ چاپ اس جگہ کو دیکھیں
اور انجوائے کریں بجائے اس کے کہ فضول سوچ خود پہ سوار کر لیں
اور ویسے بھی بابا یہاں بچپن
کے دوست حمید خان کی بیماری سے پریشان ہو کر آئے ہیں،سیر و تفریح کا تو صرف آپ کا دل
بہلانے کو کہہ دیا کیونکہ آپ ہمیشہ پہاڑی علاقوں میں جانے کی ضد کرتی تھیں بس اس کے
علاوہ کوئی بات نہیں سمجھ لیں آپ"اپنی بہن کی بے تابی دیکھ کر آمنہ سختی سے کہتی
رخ موڑ گئی۔
"ارے کیا ہوا
بابا کے دوست کو"ہادیہ اپنی نازک طبیعت کے باعث باقی سب بھول کر اپنے دادا کے
دوست کے لئے پریشان ہو اٹھی
"گڑیا انہیں
کینسر ہے
وہ قریب المرگ ہیں،بس ایک
آخری بار بچپن کے دوست سے ملنا چاہتے تھے مگر لاک ڈاؤن کے باعث ممکن نہیں تھا اللہ
نے بابا کی دعائیں سن لیں اور لاک ڈاؤن میں نرمی ہوتے ہی بابا ہمیں لے کر یہاں چلے
آئے یوں اپنے دوست کی آخری خواہش بھی پوری کر دیں گے،اور آپ کی پہاڑی علاقہ دیکھنے
کی ضد بھی"ہادیہ کو پریشان دیکھ کر آمنہ نے نرم لہجہ اختیار کیا۔
"اللہ بابا
کے دوست پر رحم کرے،ویسے ہماری واپسی کب تک ہو گی"ہادیہ اب پریشان دکھائی دے رہی
تھی۔
"پتا نہیں بابا
ہی بتا سکتے ہیں"
"اچھا چھوڑیں
یہ سب کتنے حسین پھول ہیں یہاں شاید جھرنے کا پانی مسلسل زمین پر پڑتے رہنے سے اگ گئے
ہیں،اور یہ گلاب کا پھول ہم آپ کے بالوں میں لگائیں گے کیونکہ اس پھول کو دیکھ کر یوں
لگ رہا ہے کہ پھول آپ کی خوبصورت زلفوں کے لئے ہی بنا ہے"ہادیہ کی پریشانی کم
کرنے کے لئے آمنہ نے اسے ادھر ادھر کی باتوں میں لگا کر اس کے جوڑے کی صورت بند بالوں
کو کھولا تو وہ کسی آبشار کی طرح گرتے چلے گئے اور لمبے سیاہ گھنے بالوں میں لگا گلاب
بھی اپنی قسمت پہ رشک کر رہا تھا۔
"کاش یہ لال
گلاب نہ ہوتا سیاہ گلاب ہوتا،اور اسے آپی کی جگہ عبدالہادی ہمارے بالوں میں لگاتے"ہادیہ
بس یہ سوچ ہی سکی۔
قریب ہی یہ منظر دو آنکھوں
نے بڑی دلچسپی سے دیکھا تھا۔
●●●
اس نے صبح جس پری چہرہ کو
دیکھا تھا دل اسے دوبارہ دیکھنے کی ضد لئے بیٹھا تھا مگر یہ قید اس کے اور اس پری چہرہ
کے درمیان حائل تھی۔
وہ بے چین سا ہو کر غار نما
قید خانے میں چکر کاٹ رہا تھا دفعتاً جھرنے کے قریب ہی وہی چمکتی ہوئی آواز سنائی دی
لیکن اس بار ایک سے زائد آوازیں اس کی سماعتوں سے ٹکرائیں تو وہ تیزی سے ناہموار پتھریلی
زمین سے اٹھتا(قید خانے کی آخری حد)اس جالی کے قریب پہنچا جہاں وہ موم کی گڑیا اپنے
ساتھ ایک اور لڑکی کو لئے کھڑی تھی۔
وہ اس موم کی گڑیا کو دیوانہ
وار تکے جا رہا تھا یکبارگی میں آمنہ نے حمید خان کا نام لے کر اس کی محویت توڑی۔
آنکھوں میں نرم تاثر کی جگہ
اب دہکتی آگ نے لے لی تھی۔کالی سیاہ آنکھوں سے نکلتے شرارے خوفناک منظر پیش کر رہے
تھے۔مگر جیسے ہی آمنہ نے بتایا کہ شفیع صاحب کے دوست حمید خان قریب المرگ ہیں تو اس
کے اندر جیسے سکون سا اترا تھا۔
کئی صدیوں بعد جیسے اسے آزادی
کا پروانہ ملا تھا کیونکہ وہ جانتا تھا حمید خان اس صدی کا وہ آخری انسان(بزرگ)ہے جو
اسے پہاڑ کے اندر بنی غار میں اسے قید کر کے رکھ سکتا ہے۔
اس کے بعد کسی میں اتنی طاقت
نہیں تھی کہ اسے روک پاتا۔
اور ویسے بھی اس گاؤں میں
سوائے حمید خان کے کوئی اس بات پر یقین ہی نہیں کرتا تھا کہ ہزاروں سال پہلے ان کے
بزرگ جب اس گاؤں میں آباد ہوئے تو ان کے آباد ہونے سے قبل ایک پرامن مسلمان جنات کا
قبیلہ یہاں بسا کرتا تھا۔
کیونکہ وہ مخلوق ہر انسان
کو دکھائی نہیں دیتی۔اس لئے جب انسانوں نے وہاں اپنی خیمہ بستی آباد کی تو جنات کا
تقریبا سارا قبیلہ ان کے خیموں تلے کچل کر مارا گیا۔چند جنات بچے تھے جو اس رات بارش
برسنے سے پہلے ہی اپنے قبیلے کی بقاء کے لئے علاقہ چھوڑ کر جنگلوں میں جا بسے تھے۔
اسی رات قبیلے کے سردار عبداللہ
اور ان کی بیوی تارہ بھی انسانوں کے خیمے تلے کچل کر جان سے گئے تھے انہی کا ننھا سا
بچہ اس رات بچ گیا تھا جسے افراتفری میں بچنے والے جنات وہیں چھوڑ کر چلے گئے تھے۔
کسی کو خبر نہ تھی کہ ایک
خیمے کے پیچھے چھپا ننھا ہادی اپنے ماں باپ کی لاش دیکھ کر صدمے سے نڈھال ہے۔
اس رات ننھا ہادی بارش میں
بھیگ کر اپنی تمام طاقتیں کھو چکا تھا۔
اس دور میں جب کسی علم رکھنے
والے انسان کو معلوم ہوا کہ ان کی غلطی سے ہزاروں جنات مارے گئے ہیں تو انہیں فکر لاحق
ہوئی کہ کہیں بچنے والے جنات اپنے پیاروں کا انتقام لینے نہ پہنچ جائیں۔
اسی لئے انہوں نے پورے علاقے
پر حصار باندھ دیا اور جنات کے قبیلے کا بچہ جو بارش میں بھیگ کر اپنی طاقتیں کھو چکا
تھا اسے جھرنے کے قریب پہاڑ میں محدود کر دیا۔اس بزرگ کو اس ننھے بچے سے ہمدردی تھی
مگر وہ جنات کی فطرت سے خوب واقف تھے۔وہ جانتے تھے کہ کسی پرامن جن کو ناحق تکلیف پہنچائی
جائے تو وہ اپنے دشمن کی نسلیں تک تباہ کر دیتا ہے۔
یہی وجہ تھی کہ ہمدردی کے
باوجود انہیں ننھے ہادی کو غار تک محدود کرنا پڑا۔
وقت گزرتا گیا صدیاں بیت گئیں
مگر ہادی کو قید سے رہائی نہ ملی۔
ہر صدی میں کوئی نہ کوئی بزرگ
اپنی نئی نسل کو خطرے سے آگاہ کر کے دنیا سے رخصت ہوتا تھا مگر کئی صدیوں بعد جدید
دور آیا اور اکیسویں صدی کے لوگ اس قصے کو محض افواہ کے سوا کچھ ماننے کو تیار نہ ہوئے
تو اس صدی کے آخری سمجھدار بزرگ کی موت کا وقت بھی قریب آ گیا۔
گاؤں والوں نے ان کے قریبی
رشتے داروں اوردوستوں کو فون کر کے آگاہ کر دیا۔
قسمت کی بات تھی حمید خان
نامی بزرگ کو گلے کا کینسر تھا اور بیماری شدت اختیار کرنے کے بعد وہ بولنے کی صلاحیت
سے بھی محروم ہو گئے۔
وہ سب کو ہزاروں سال پہلے
گزرے واقعہ کے بارے میں یقین دلانا چاہتے تھے مگر قسمت نے ساتھ نہ دیا اور اب وہ قریب
المرگ تھے۔
کئی صدیوں کی قید کے بعد اس
کی آخری رکاوٹ بھی ختم ہونے جا رہی تھی اور اب وہ ننھا سا عبدالہادی ایک خوفناک جن
کا روپ دھار چکا تھا اور بدلہ لینے کے لئے بے تاب دیکھائی دے رہا تھا۔
بس اس بڈھے کی موت کے بعد
میری یہ قید اپنے اختتام کو پہنچے گی پھر میں اپنے آباؤ اجداد کی موت کا بدلہ اس پورے
گاؤں کے انسانوں لوں گا"اس کے لبوں پہ شیطانی مسکراہٹ ابھر کر معدوم ہو گئی کیونکہ
سامنے کھڑی موم کی گڑیاں کی زلفیں کھل کر سامنے کسی آبشار کی طرح گری تھیں اور ان میں
لگا گلاب کس قدر حسین لگ رہا تھا کوئی ہادی سے پوچھتا،
اس کے بڑے کہا کرتے تھے کہ
کبھی کبھار کوئی بھٹکا ہوا جن ہی کسی انسان(لڑکی)کی زلفوں کا اسیر ہوتا ہے۔
اور ہادی نہ چاہتے ہوئے بھی
اس موم کی گڑیا کی زلفوں کا اسیر ہو چکا تھا۔
اس گاؤں کو تباہ کرنے کے بعد
ہادیہ کا حصول اس کی دلی خواہش بن گیا۔
●●●
اب آمنہ اور ہادیہ کا معمول
بن گیا تھا اور وہ روز وہاں آنے لگیں اس بات سے بے خبر کہ ڈھیر ساری باتیں کرتے،
پھول توڑتے،
جھرنے کے پانی سے کھیلتے کوئی
انہیں بہت دلچسپی سے دیکھتا رہتا ہے۔
انہیں وہاں آئے دس دن گزر
چکے تھے۔
آج بھی دونوں بہنیں وہاں بیٹھی
پھول توڑ رہی تھیں جب آمنہ نے بات کا آغاز کیا۔
"آپ کو معلوم
ہے گڑیا بابا بتار رہے تھے یہاں اسی گاؤں میں آج سے ہزاروں سال پہلے جنات آباد تھے
مگر اب وہ یہاں سے جا چکے ہیں۔میں سوچ رہی تھی وہ یہاں واپس کیوں نہیں آئے کیا انہیں
اس جگہ کی یاد نہیں آئی کبھی؟"
"اور میں نے
سنا ہے انسانوں نے بے خبری کے عالم میں بہت سے جنات کو اپنے خیموں تلے کچل کر مار ڈالا
تھا۔وہ اس کا بدلہ لینے ضرور آئیں گے یا کم سے کم اپنا علاقہ دیکھنے ضرور آ سکتے ہیں"
"آپی آپ تو
اتنی سمجھدار ہو آپ سے بچگانہ تبصرے کی امید نہ تھی ہمیں۔۔۔
"چلیں مان لیا
کہ انہیں اپنی جگہ یاد آتی ہو گی مگر سب سے اہم یہ کہ جس طرح اللہ نے ہر مخلوق کی کچھ
حدود مقرر کی ہیں اسی طرح جنات کی بھی کچھ حدود ہیں آپی۔۔۔
جب اللہ نے انہیں انسان سے
دور رہنے اور انہیں ایذا نہ پہنچانے کا حکم دیا ہے تو وہ کیسے یہ سب کر سکتے ہیں؟
اور اگر وہ بھٹکے(غیر مسلم
جنات)ہوئے ہوں تو ہم آپ کی بات مان بھی لیتے لیکن اگر وہ مسلمان جنات کا قبیلہ تھا
تو کیونکر نافرمانی کرے گا؟
اور رہی بات بدلے کی تو جیسا
کہ بابا نے بتایا مسلمان جنات کا قبیلہ تھا تو کیا انہیں نہیں معلوم کہ اللہ کی بارگاہ
میں کون عزت والا ہے؟
اللہ کی بارگاہ میں عزت والا
وہ ہے جو انتقام کی طاقت رکھنے کے باوجود معاف کر دے۔
آپی وہ مخلوق اپنے رب سے محبت
کرتی ہوئی تو کبھی اپنی حد سے تجاوز نہیں کرے گی اس لئے آپ بے فکر رہیں"
آمنہ کے انداز پر متحیر سی
ہادیہ بولے بغیر نہ رہ سکی
"ارے ہماری
گڑیا تو بہت سمجھدار ہو گئی ہیں،
چلیے اب چلتے ہیں شام ہو رہی
ہے۔اندھیرے میں ایسی جگہ سانپ بچھو بھی نکل آتے ہیں چلیے"آمنہ کہتی ہوئی اٹھ کھڑی
ہوئی۔
"جی چلیے آپی
چلتے ہیں۔ویسے میرے خواب میں آنے والا شہزادہ جو ہاتھ میں کالا گلاب لئے ہمہ وقت ہمارا
منتظر رہا کرتا تھا آیا ہی نہیں یہاں!پھر رکنے کا کیا فائدہ،
سچ کہتی ہیں آپ ہر خواب سچ
نہیں ہوتا۔پگلی ہوں خواب کو حقیقت سمجھے بیٹھی تھی"
وہ آمنہ کی تقلید کرتی یکبارگی مڑی اور تاسف سے جھرنے سے بہتے پانی کو دیکھ کر
بلند آواز میں چلائی"بہت برے
ہو عبدالہادی خواب میں آ کر اپنا نام بتاتے تھے،
اور کبھی پھول دیتے تھے،
مگر حقیقت میں آپ کا نام و
نشان بھی نہیں یہاں"کہتی وہ لوٹ گئی اور وہ جو روز باتیں سن کر مسکراتا رہتا تھا
آج اس کی ہر ہر بات پر جھر جھری لہتا پھوٹ پھوٹ کر رو رہا تھا۔وہ صدیوں سے اپنے پیاروں
کا انتقام لینے کے لئے پل پل تڑپا تھا آج اس لڑکی کی باتیں سن کر اللہ کے حضور سجدہ
ریز ہو گیا تھا۔
وہ رو رہا تھا اور اس کی آنکھوں
سے سیال مادہ بہہ رہا تھا!
جب اس کے رب کو انتقام لینے
والا پسند نہیں تھا تو وہ کیوں ان لوگوں کی فہرست میں آنا چاہتا تھا جو ٹھکرائے ہوئے
ہیں۔
جب اس کے رب کو معاف کرنے
والا پسند ہے
!تو وہ کیوں نہیں
معاف کرنے والا بن گیا۔
وہ مسلمان ہونے کے باوجود
کیسے ان سب باتوں کو بھول گیا۔
وہ بلک بلک کر روتا اللہ سے
معافی مانگ رہا تھا۔
وہ معافی مانگ رہا تھا اس
نیت کی جو صدیوں سے کئے بیٹھا تھا۔
ہاں وہی انتقام کی نیت۔۔۔۔
وہ اپنی حد سے تجاوز کا سوچ
رہا تھا ہاں ایک انسان کی زلفوں کا اسیر ہو کر اسے حاصل کرنے کی نیت کر کے ۔
وہ رو رہا تھا معافی مانگ
رہا تھا جب جاتے جاتے ہادیہ نے اس کا نام پکارا تو دل میں اک ہوک سی اٹھی وہ مڑ کر
اپنی زندگی کی پہلی اور آخری محبت کو الوداع کہنا چاہتا تھا مگر وہ چاہ کر بھی نہیں
مڑا۔
وہ اپنی توبہ پر قائم رہنا
چاہتا تھا اور قائم رہا بھی۔۔۔۔۔
اس کی محبت کا نام ہادیہ تھا(راستہ
دکھانے والی)اور وہ اسے صدیوں بعد روشن راہ دکھا گئی تھی۔
حمید خان کے انتقال کے بعد
وہ سلاخ نما جالی خودبخود غائب ہو گئی اور عبدالہادی غائب ہو گیا۔
آج اس غار میں اگنے والا واحد
حسین سیاہ گلاب اس کے ہاتھ میں تھا جس کا ذکر ہادیہ کیا کرتی تھی۔سیاہ گلاب حسرت سے
تکتے ایک ننھا سا موتی اس کی آنکھ سے ٹوٹ کر گلاب میں جذب ہو گیا اور وہ نرمی سے اس
پھول کو جھرنے سے گرتے پانی کی نظر کرتا اپنے پیاروں کے پاس لوٹ گیا جو صدیوں سے اپنے
سردار کے منتظر تھے۔
خواب میں اڑتا آتا ہے اک مبہم
سایہ
مجھ سے تیرا ہاتھ چھڑا کر
لے جاتا ہے۔
اس کا نام عبدالہادی تھا(ہدایت
دینے والے کا بندہ)اور اسے ہدایت مل چکی تھی۔
ختم شد
COMMENTS