Khasara By Tehmina Firdous Short Story خسارہ تہمینہ فردوس سیلن زدہ چھت پر اکھڑے پینٹ کو گھورتے ہوئے پہلی بار فرصت سے اس نے اپنی گزشتہ ز...
Khasara By Tehmina Firdous Short Story
خسارہ
تہمینہ فردوس
سیلن زدہ چھت پر اکھڑے پینٹ
کو گھورتے ہوئے
پہلی بار فرصت سے اس نے اپنی
گزشتہ زندگی
کے بارے میں سوچا تو دل دہل
گیا۔
آخر کیوں اس نے زندگی گزار
دی مگر خود کو بدلنے کے بارے میں نہیں سوچا
آخر کیوں؟
*****
"آخر میں کہاں
جاوں؟
میرے پاس تو اتنے بھی پیسے نہیں کہ
کرائے کے مکان کے لئے اڈوانس رقم ادا کرسکوں،
کچھ تو خیال کریں بھابھی۔"
"میری بلا سے
جدھر بھی جاو
بس اس گھر میں مجھے تم دکھائی
نہ دو یہی بہتر ہوگا۔"
"مگر بھابھی
"بس۔"
اس کے بیمار دیور کی نحیف آواز اس کی سماعتوں سے ٹکرائی تو تنفر سے کہتی وہ اٹھ کھڑی
ہوئی اور ہاتھ سے اسے اپنے کمرے سے نکلنے کا اشارہ کرتی خود کو کسی ریاست کی ملکہ تصور
کررہی تھی۔
ایک چھوٹے سے گاوں سے اپنے
اکلوتے ماموں کے گھر بیاہ کر آنے والی روزینہ نے آتے ہی پورے گھر پر حکمرانی شروع کردی
تھی۔
اس کا شوہر گھر میں بڑا تھا جبکہ اس سے چھوٹا ایک بھائی اور تھا،
ساس سسر حیات نہیں تھے،
وہ اسی زعم میں تمام عمر مبتلا
رہی کہ کوئی
اس سے سوال کرنے والا نہیں،
وہ جو چاہے کرے۔
چند سالوں میں روزینہ تین
بیٹیوں کی ماں بن گئی۔
کہتے ہیں بیٹیوں کی ماوں کا
دل نرم ہوتا ہے
مگر یہاں معاملہ الٹ تھا حرص
کا شکار روزینہ
نے چند سالوں میں ہی شوہر
کو اپنے اکلوتے بھائی سے اس قدر متنفر کردیا کہ وہ بیوی کے اتنے سخت فیصلے کی حمایت
کرنے لگا۔
اور بیوی نے جان لیوا مرض
میں مبتلا بے روزگار دیور کو گھر اور جائیداد
سے بے دخل کر دیا۔
دیور تو اس صدمے اور بیماری
کے باعث جانبر نہ ہوسکا مگر روزینہ کو بھی اس کی حرص نے
آخری عمر میں خوب ذلیل کیا۔
اولاد شادی کے بعد ماں سے
پلا جھاڑ کے چلے گئی۔
شوہر کا روڈ ایکسیڈنٹ میں
انتقال ہوگیا
اور ساری جائیداد تو وہ بہت
پہلے ہی اپنے اولاد میں بانٹ چکی تھی۔
آج کینسر کی آخری سٹیج پر
اولاد کی راہ تکتے تکتے تھک کر سیلن زدہ چھت پر اکھڑے پینٹ کو گھورتے ہوئے
پہلی بار فرصت سے اس نے اپنی
گزشتہ زندگی
کے بارے میں سوچا تو دل دہل
گیا۔
آخر کیوں اس نے زندگی گزار
دی مگر خود کو بدلنے کے بارے میں نہیں سوچا
آخر کیوں؟
اس کو اپنے بیمار دیور پر
رحم نہیں آیا؟
اس کی لالچ نے اسے آج تنہا
کردیا اور زندگی کے آخری لمحات میں وہ سوچ رہی تھی کاش اس نے سب کچھ پالینے کی لالچ
نہ کی ہوتی تو آج تنہا یوں سسک سسک کر زندگی کے آخری لمحات نہ گزار رہی ہوتی۔
کاش اس نے جوانی میں سوچا
ہوتا کہ کسی کا حق چھین کر سب کچھ حاصل کرنے کے باوجود بھی قبر میں تو انسان خالی ہاتھ
ہی جائے گا
اور ساتھ جانے والی چیز صرف
اور صرف نیک اعمال ہیں،
صلہ رحمی ہے
مگر جوانی میں طاقت کا گھمنڈ
اکثریت کو لے ڈوبتا ہے
اور اپنے اعمال پر انسان تب
غور کرتا ہے جب مالک الموت کے آنے کا وقت قریب ہوتا ہے
ایسے بدبخت لوگوں کو اکثر
توبہ کا موقع بھی نہیں ملتا، اور ایسے ہی لوگ ہوتے ہیں جو سراسر خسارے میں ہیں۔
COMMENTS