--> Meri Rooh Me Basa Hai Tu By Mahnoor Sheikh Episode 2 Read Online | Urdu Novel Links

Meri Rooh Me Basa Hai Tu By Mahnoor Sheikh Episode 2 Read Online

 Meri Rooh Me Basa Hai Tu By Mahnoor Sheikh Episode 2 Read Online میری روح میں بسا ہے تو      ماہ رُخ شیخ قسط نمبر 2-   " میں اپنی بیٹی...

 Meri Rooh Me Basa Hai Tu By Mahnoor Sheikh Episode 2 Read Online



میری روح میں بسا ہے تو

    ماہ رُخ شیخ

قسط نمبر 2-


 

"میں اپنی بیٹی کو ایسی جگہ کبھی نہیں بھیجوں گی،،،، جہاں اُس کی حق تلفی ہو،،، بنا مقصد کے اُسے خاندانی رسم و رواجوں کی زنجیروں میں جکڑا جائے۔۔۔۔ جو کچھ میں خود پر برداشت کرچکی ہوں،،،،، اپنی بیٹی کے ساتھ کسی قیمت پر نہیں ہونے دوں گی،،،،، مجھے معلوم ہے آپ میری بیٹی کی رخصتی کے بعد خاندان کے باقی مردوں کی طرح دوسری شادی کرلیں گے،،،،، میری بیٹی یہ سب برداشت نہیں کرسکتی۔۔۔۔"

مہناز بیگم اپنی بیٹی کی خاطر ہر جنگ لڑنے کے لیے خود کو تیار کرچکی تھیں۔۔۔

"سردار ذاکوان جتوئی کو اپنی مرضی کرنے سے آج تک کوئی نہیں روک پایا،،،،، نہ آج تک ایسا کرنے والا کوئی پیدا ہوا ہے،،،، آپ کی بیٹی میری بیوی ہے،،،، آپ اُس کے نام کے ساتھ بے شک عنائشہ اعظم خان جوڑ دیں،،،، مگر وہ رہے گی ہمیشہ عنائشہ ذاکوان جتوئی۔۔۔۔ اِس قبیلے کی سردارنی،،،،،،، میں صرف اُس کی پڑھائی تک کی مہلت دے رہا ہوں،،،، اُس کے بعد وہی ہوگا جو میں چاہوں گا،،،،،،"

سردار ذاکوان اپنا حکم جاری کرتا فون بند کر گیا تھا،،،،،

مہناز بیگم نے بے اختیار اپنا سر پکڑ لیا تھا،،،،،

جتوئی قبیلے اور خان قبیلے کے مردوں سے ٹکر لے کر وہ یہاں کوئٹہ میں آن آباد ہوئی تھیں،،،، کوئی اُن کی ضد کا مقابلہ نہیں کرپایا تھا،،،،، مگر اب وقت بدل چکا تھا،،،،

آج اُن کے سامنے سردار ذاکون جتوئی کھڑا تھا،،، جس کے آگے آج تک کوئی نہیں ٹک پایا تھا،،، جسے فیصلہ کرنا ہی نہیں،، اُسے منوانا بھی اچھے سے آتا تھا،،،،

اپنی پوری زندگی کی سٹرگل کے بعد بھی وہ اپنی بیٹی کو اُس دلدل سے بچانے میں ناکام ہورہی تھیں،،،،،، جس جگہ اُن کا دم گھٹتا تھا،،،، وہاں بھلا اُن کی نازک اندام بیٹی کیسے رہ سکتی تھی،،،،،

عنائشہ کو سردار ذاکوان جتوئی سے بچانے کا سوچ سوچ کر اُن کا دماغ ماؤف ہوچکا تھا،،،، مگر کوئی سرا ہاتھ نہیں آپایا تھا،،،،،

∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆

جتوئی حویلی میں نئی نویلی دلہن کی منہ دیکھائی کی رسم جاری تھی،،،،، رواج کے مطابق آج گھر کی تمام خواتین بلوچی لباس میں ملبوس پوری طرح روایتی ہار سنگھار کیے ہوئے تھیں،،،،،

فل کامدار بھاری فراک جن کے اگلے حصے پر ریشم کے مختلف دھاگوں اور شیشے کا کام کیا گیا تھا،،،، اپنے روایتی چاندی کے زیور اور ماتھا پٹی کے ساتھ سروں پر دوپٹے ایک طریقے سے اوڑھے وہ سب خواتین بہت حسین لگ رہی تھیں،،،،

حویلی کی بہو، بیٹیاں اور باقی تمام رشتہ دار خواتین فنکشن پوری طرح انجوائے کرنے میں مصروف تھیں،،،، جب باہر سے ملازمہ نے آکر سردار ذاکوان اور حویلی کے باقی مرد حضرات کے آمد کی اطلاع دی تھی،،،

رسم کے مطابق اُنہوں نے دلہن کے سر ہاتھ رکھ کر شفقت سےنوازنے کے ساتھ شال اور نیگ دینا تھا،،،،

حویلی کے علاوہ باقی خواتین مردوں کو اندر آتا دیکھ اپنے دوپٹے کے پلو سے چہرا ڈھک گئی تھیں،،،،،،

جبکہ زیادہ تر کی نظریں زمان جتوئی کے ساتھ سب سے آگے اندر چل کر آتے سردار ذاکوان جتوئی پر ٹکی ہوئی تھیں،،،،،

سردار ذاکوان کی وجاہت کے چرچے دور دور تک پھیلے ہوئے تھے،،،، خاندان کی تقریباً ہر لڑکی کی اولین خواہش سردار ذاکوان کی زوجہ بن کر اُس کی ریاست کے ساتھ ساتھ اُس کے دل پر راج کرنا تھی،،،،،،

لیکن ذاکوان جتوئی نے آج تک کسی بھی لڑکی کی جانب نظر اُٹھا کر نہیں دیکھا تھا،،،،،، کوئی اِسے اُس کا غرور کہتے تھے تو کوئی اُس کی شرافت،،،،،،

لیکن سفینہ جتوئی اپنے پوتے کی تین شادیاں تو ہر صورت کروانا چاہتی تھیں،،،،،

اُن کی اِس خواہش سے حویلی کی تمام خواتین واقف تھیں،،،،،

سفینہ جتوئی کی دائیں جانب بیٹھی خولہ والہانہ نظروں سے سردار ذاکوان جتوئی کو تکے جارہی تھی،،،،،

مگر ذاکوان جتوئی کی نگاہیں کسی کی جانب بھی نہیں اُٹھی تھیں،،،،، وہ رسم پوری کرتا اپنے مخصوص مغرورانہ ایٹی ٹیوڈ کے ساتھ وہاں سے نکل گیا تھا،،،، اُس کے دروازے سے اوجھل ہونے تک نجانے کتنی نگاہوں نے پیچھا کیا تھا،،،،،

∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆

"یار کتنی مشکل لائف ہوتی ہے نا تم لوگوں کی؟؟؟ مجھے تو یہ سب سوچ کر ہی کوفت ہورہی ،،،،،"

عنائشہ زرجان کی باتوں پر جھڑجھڑی لیتے بولی،،،،

جبکہ اُس کے انداز پر زرجان مسکرا دی تھی،،،،

"جب تمہیں ہم بلوچوں سے اتنی ہی نفرت ہے تو تم نے مجھ سے دوستی کیوں کی؟"

زرجان نے مصنوعی خفگی دیکھاتے اُس سے پوچھا،،،

"نفرت کی بات نہیں ہے یار،،،، بس جہاں تک مجھے پتا ہے،،، وہاں کے مرد عجیب سے انا پرست اور عورتوں پر دھونس جمانے والے ہوتے ہیں،،، بڑی بڑی حویلیوں میں عورتوں کو قید کرکے رکھا جاتا ہے،،،، اُن کے لیے عورتوں کی اہمیت باندیوں سے زیادہ نہیں ہوتی،،،،، اور اپنی بیویوں پر سوکنے لاکر بیٹھانا تو اُن کی فطرت ہوتی ہے،،،،،،"

عنائشہ نے اپنی ساری بھڑاس زرجان کے سامنے نکالی تھی،،،،

"اوہ ہو عنائشہ ایسا کچھ بھی نہیں ہے،،، جو تم کہہ رہی ہو،،،، یقین مانو جتنی عزت بلوچ اپنی عورتوں کو دیتے ہیں شاید ہی اُتنی عزت کسی اور علاقے کے مرد دیتے ہوں،،،، عورت کے ایک بار چل کر جانے پر بڑی بڑی دشمنیاں ختم کردی جاتی ہیں،،،، باقی چھوڑو میں تمہیں ہمارے علاقے کے سردار کا قصہ سناتی ہوں،،،، جن کے سگے بھائی کا قتل کیا گیا،،،، وہ اُس کا بدلہ لینے کی طاقت بھی رکھتے اور ارادہ بھی،،،، مگر دشمنوں کے گھر سے عورتوں کے چل کر آنے اور خون معاف کرنے کی درخواست پر نہ صرف دشمنی وہیں ختم کردی سردار سائیں نے بلکہ اُن عورتوں کو اپنی حویلی سے سروں پر چادریں اوڑھا کر رخصت کیا،،،،،

تم بولو ایسا بڑا دل یہاں کے مردوں میں پایا جاتا ہے،،، اور رہی بات قید کرکے رکھنے کی،،، تو اُنہیں قید نہیں کیا جاتا،،،، اِسے تحفظ دینا کہتے ہیں،،،، اور ہاں تمہیں وہاں کے مردوں کی تین تین اور چار چار شادیوں سے بھی بہت مسئلہ ہے نا تو میں بتاتی ہوں،،،،، مرد دو دو اور تین تین شادیاں اپنی بیویوں کا حق مار کر اپنی خوشی کے لیے نہیں کرتے بلکہ عورتوں کو اُن کے حصے کی خوشیاں دینے کے لیے کرتے ہیں،،،، "

زرجان جب بولنے پر آئی تھی تو بولتی چلی گئی تھی،،،، اُس کی آخری بات پر عنائشہ نے سوالیہ نظروں سے اُسے دیکھا تھا،،،،

"زیادہ شادیوں کا رواج صرف اُن خاندانوں میں ہے جہاں مردوں کی نسبت عورتیں زیادہ ہیں،،،، ہمارے ہاں خاندان سے باہر بیٹی دینے کا رواج نہیں ہے،،،، اِس لیے بے جوڑ رشتوں سے بچنے کے لیے ایک ہی لڑکے سے اُس کے جوڑ کی لڑکیوں کی شادی کروا دی جاتی ہے،،،، تو پھر چاہے دو بیویاں ہوں یا تین ایک ہی چھت کے نیچے ہنسی خوش رہتی ہیں،،،، وہاں کی عورتیں اِس حقیقت کو دل سے تسلیم کرچکی ہیں،،، اِس لیے اب کسی کو زیادہ فرق نہیں پڑتا،،،،،"

زرجان نے اُسے تفصیل سے آگاہ کیا،،،

مگر عنائشہ اُس کی اتنی لمبی تقریر کے جواب میں ایسے انگڑائی لیتی سیدھی ہوئی، جیسے گہری نیند سے بیدار ہوئی ہو،،،،،،

"تم اُس جگہ کا حصہ ہو،،، اُنہیں کبھی غلط نہیں کہو گی،،، مگر میری ماما نے مجھے وہاں کے لوگوں کی ساری اصلیت پہلے ہی بتا رکھی ہے،،،، میں تو کسی قیمت پر برداشت نہیں کرسکتی کہ میرا ہزبینڈ دوسری شادی کرے،،،، اتنا بڑا دل میرا تو بالکل بھی نہیں ہے،،،،، اور پلیز اب اِس ٹاپک کو چھوڑو،،،،، میں بور ہوگئی ہوں،،،، چلو کچھ کھا کر آتے ہیں،،،،"

عنائشہ طویل ہوتی گفتگو سے اُکتاتے اُٹھ گئی تھی،،،،،،

∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆

جتوئی حویلی بلوچستان کے شہر بولان کے قبائلی علاقے میں واقع تھی،،، وسیع و عریض رقبے پر پھیلی یہ موجودہ دور کی سب سے شاندار عمارت جانی جاتی تھی،،،،، اِس حویلی کے اندر مقیم لوگوں کا رہن سہن بھی شہنشاہوں سے کم نہیں تھا،،،،،

جتوئی حویلی کے حصے میں ہی ہمیشہ صدارتی کرسی رہی تھی،،، بہت سے قبیلوں کی بہت کوششوں کے بعد بھی کوئی چھین نہیں پایا تھا،،،،،

سردار جہانگیر جتوئی نے اپنے قبیلے کی روایات کو قائم رکھتے دو شادیاں کی تھیں،،، ایک اپنی چچا زاد سفینہ جتوئی سے اور دوسری شمیم جتوئی سے،،،، مگر سردارنی کا عہدہ صرف پہلی بیوی کو ہی ملتا تھا،،،،، اِس لیے سردارنی سفینہ جتوئی کی ہی حویلی کے اندر حکمرانی چلتی تھی،،،،

سفنیہ جتوئی سے جہانگیر جتوئی کی چار اولادیں تھیں،،،، سب سے بڑے حسن جتوئی جن کی پہلی شادی خالہ زاد یاسمین بیگم سے ہوئی تھی،،، اُن کے دو بیٹے تھے بڑا ذاکوان جتوئی اور حمزہ جتوئی جس کا ایک جھگڑے میں قتل ہوچکا تھا،،،، حسن جتوئی کی دوسری شادی فریجہ جتوئی سے ہوئی تھی،،، جن سے اُن کی کوئی اولاد نہیں تھی،،،،

دوسرے نمبر پر یوسف جتوئی تھے،،، جن کی پہلی شادی گلناز جتوئی سے ہوئی تھی،،،، اُن کا ایک بیٹا اسجد اور دو بیٹیاں پلوشہ اور غزالہ تھیں،،،، اور دوسری شادی صبورہ بیگم سے ہوئی تھی جن ایک بیٹی انعم تھی،،،،

تیسرے اور چوتھے نمبر شبانہ جتوئی اور سائرہ جتوئی تھیں جن کی شادیاں خاندان میں ہی کی گئی تھیں،،،،

جبکہ سردار جہانگیر جتوئی کی شمیم جتوئی سے دو اولادیں تھیں،،،، بیٹا کمال جتوئی اور بیٹی حلیمہ جتوئی،،،،،

اُن کے ہاں خاندان سے باہر شادی کرنے کا رواج نہیں تھا،،،،، مگر کمال جتوئی نے اپنی ماں کی شے پر سب خاندان والوں سے بغاوت کرکے اپنے مخالف خان قبیلے کی بیٹی مہناز اعظم خان کو بیاہ کر حویلی لایا تھا،،، مہناز نازوں میں پلی کافی موڈی لڑکی تھی،،، جس سے حویلی میں رہ پانا کافی مشکل ثابت ہورہا تھا،،،، شادی کے دو سال بعد اُنہوں نے ایک خوبصورت سی لڑکی کو جنم دیا تھا،،،، جس کا نام شمیم جتوئی نے بہت پیار سے عنائشہ کمال جتوئی رکھا تھا،،،، کچھ عرصے بعد جہانگیر جتوئی کی خواہش پر اُن کے بڑے پوتے ذاکوان جتوئی اور عنائشہ جتوئی کا نکاح کردیا گیا تھا،،،، مہناز بیگم نے اِس بات پر بہت اعتراض اُٹھایا تھا مگر اُن کی اِس معاملے میں نہیں سنی گئی تھی،،،،

مہناز بیگم ہر روز کمال جتوئی سے حویلی چھوڑ کر شہر شفٹ ہونے کی بات کرتیں،،،، مگر کمال جتوئی اپنوں سے مزید بغاوت کرنے کے حق میں نہیں تھے،،، اُنہیں پہلے ہی اِس بغاوت کی معافی نہیں مل پائی تھی اپنے باپ سے،،،،،

جب اُنہیں دنوں کمال جتوئی کی دوسری شادی کا فیصلہ کیا گیا تھا،،، جسے سنتے ہی مہناز بیگم نے ایک ہنگامہ کھڑا کردیا تھا،،، وہ اپنے شوہر کو اِس بات کی اجازت نہیں دے رہی تھیں،،،، مگر یہاں پر بھی اُن کی نہیں سنی گئی تھی اود کمال جتوئی کی دوسری شادی اُن کی پھوپھو زاد سے کردی گئی تھی،،، جس کے بعد مہناز بیگم نے وہاں سے فرار ہونے کا فیصلہ کرلیا تھا،،،،

اور اپنے بھائیوں سے مدد مانگتے ایک دن رات کے اندھیرے میں وہ اپنی بیٹی کو لے کر حویلی سے فرار ہوگئی تھیں،،،، کمال جتوئی نے اُنہیں واپس لانے اور اپنی بیٹی حاصل کرنے کی پوری کوشش کی تھی،،،، مگر مہناز بیگم نے کورٹ سے رجوع کرتے نہ صرف اُن سے طلاق لے لی تھی بلکہ اپنی بیٹی کی کسٹڈی بھی حاصل کرلی تھی،،، لیکن وہ اپنی بیٹی کے نام کے ساتھ جڑا ذاکوان جتوئی کا نام نہیں ہٹا پائی تھیں،،،،، وہ اب شہر میں مقیم تھیں اور ایک کامیاب بزنس وومین تھیں،،،، مگر ذاکوان جتوئی نام کو خطرہ اُنہیں ہمیشہ اپنے سر پر منڈلاتا محسوس ہوتا تھا،،،

اِن سب چیزوں کے باوجود یہ پورا خاندان حویلی کے اندر ایک ساتھ ہنسی خوشی رہ رہا تھا،،،

آٹھ سال پہلے اچانک جہانگیر جتوئی اور حسن جتوئی ایک حادثے میں اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے تھے،،،، پوری حویلی جہاں اِس واقع سے صدمے کی لپیٹ میں آگئی تھی،،،، وہیں پورے قبیلے میں ایک ہی سوال کھڑا ہوا تھا کہ اب سردار کون بنے گا،،،،

اصول کے مطابق جہانگیر جتوئی کے بڑے بیٹے حسن جتوئی یا آگے سے اُن کے بڑے بیٹے ذاکوان جتوئی حقدار تھے،،،،

مگر حویلی میں جہانگیر جتوئی کے باقی بیٹوں کی جانب سے اعتراض اُٹھائے جانے پر جہانگیر جتوئی کی وصیت نکلوائی گئی تھی،،،،، مگر وہاں بھی ذاکوان جتوئی کا ہی نام کندہ دیکھ کوئی اعتراض نہیں کر پایا تھا،،،، اور بیس سال کی عمر میں ذاکوان جتوئی کو صدارتی کرسی سونپ دی گئی تھی،،،،،

ہمیشہ سے ایک سردار کو حویلی کے اندر اور باہر سے بہت سی پوشیدہ سازشوں کا سامنا کرنا پڑتا تھا اور سردار ذاکوان جتوئی بھی کرتا آرہا تھا،،،،

جہانگیر جتوئی کی دوسری بیوی شمیم جتوئی کو ہمیشہ اپنے بیٹے کے ساتھ ہوئی نا انصافی کھٹکتی آئی تھی،،، وہ چاہتی تھیں کہ حسن جتوئی کی وفات کے بعد اُن کا بیٹا کمال جتوئی یہ صدارتی کرسی سنبھالے مگر اُن کے ارمانوں پر پانی پھر جانے کی وجہ سے وہ اندر ہی اندر اپنی سوتن سفینہ جتوئی اور اُن کے سردار پوتے ذاکوان جتوئی کے خلاف ہوچکی تھیں،،،،

مگر کبھی بھی کسی کی سامنے آکر سردار ذاکوان جتوئی سے مخالفت کرنے کی جرأت نہیں رہی تھی،،،،،،،،

∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆

"اُف میرے خدا کتنی ٹھنڈ ہے یہاں پر تو،،،،، میں تو مر ہی جاؤں گی،،،،،"

عنائشہ گاڑی سے اُتر کر اردگرد بچھی برف دیکھ کانپتے ہوئے بولی،،،،،

وہ لوگ یونیورسٹی ٹرپ میں مری آئے ہوئے تھے،،، جہاں موسم سرما کی وجہ سے برفباری عروج پر تھی،،، اتنی ساری پیکنگ کیے ہونے کے باوجود عنائشہ کی ٹھنڈ کم نہیں ہوپارہی تھی،،،،،

بلیک لانگ کورٹ اور بلیک گرم کیپ جس میں سے نکلی اُس کی سیاہ زلفیں چہرے کے گرد بکھری ہمیشہ کی طرح اُس کی دلکشی میں مزید اضافہ کررہی تھیں،،،،

کپکپاتے نازک ہونٹ اور ریڈ نوز کی وجہ سے وہ مزید کیوں لگ رہی تھی،،،، زرجان کو وہ ہمیشہ ایک باربی ڈول ہی لگی تھی،،،،

"واؤ وہاں کتنی خوبصورت جگہ ہے،،،، میں وہاں پکچر لے کر ابھی آئی،،،،"

عنائشہ زرجان کے روکنے کے باوجود ایک طرف بنی اُونچی پہاڑی اور اُس پر برف سے ڈھکی جھونپڑی کو دیکھتی اُس جانب بڑھ گئی تھی،،،،

سیلفی لیتے اُسے خود پر کسی کی نظروں کی تپیش محسوس ہوئی تھی،،،، عنائشہ نے بے ساختہ آس پاس دیکھا تھا،،،، مگر وہاں کسی کو نہ پاکر وہ ایک دو تصویریں لیتی واپس پلٹی تھی جب بے دھیانی میں پیر پھسل جانے کی وجہ سے وہ کھائی میں جاگرتی جب اُسی لمحے کسی نے اُسے کلائی سے تھام کر اپنی جانب کھینچتے اپنے مضبوط حصار میں لیا تھا،،،،

خوف کے مارے برآمد ہونے والی چیخ مقابل کے چوڑے سینے میں دب گئی تھی،،،،،،،

جاری ہے

 

 



COMMENTS

Name

After Marriage Based,1,Age Difference Based,1,Armed Forces Based,1,Article,7,complete,2,Complete Novel,634,Contract Marriage,1,Doctor’s Based,1,Ebooks,10,Episodic,278,Feudal System Based,1,Forced Marriage Based Novels,5,Funny Romantic Based,1,Gangster Based,2,HeeR Zadi,1,Hero Boss Based,1,Hero Driver Based,1,Hero Police Officer,1,Horror Novel,2,Hostel Based Romantic,1,Isha Gill,1,Khoon Bha Based,2,Poetry,13,Rayeha Maryam,1,Razia Ahmad,1,Revenge Based,1,Romantic Novel,22,Rude Hero Base,4,Second Marriage Based,2,Short Story,68,youtube,34,
ltr
item
Urdu Novel Links: Meri Rooh Me Basa Hai Tu By Mahnoor Sheikh Episode 2 Read Online
Meri Rooh Me Basa Hai Tu By Mahnoor Sheikh Episode 2 Read Online
https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEisJ80YcjEAhgfMhJaddhp6fTbqeQPWpdhDZaXID2xKw_JqwQygqlA5tKyH2dWtjjp7XKSKf5E-R4VVOGKaJyNxVuViwcBwKqM12MosPpiWduPWHWnjJJlk9_qzfdbfJAp1MX4Svk9vL77M_rlUapk9aeyolQUtgUjYCCZUz3hf-7DKQy-X4ovP54ei/w400-h275/299015422_549290350283815_6861974735874726941_n.jpg
https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEisJ80YcjEAhgfMhJaddhp6fTbqeQPWpdhDZaXID2xKw_JqwQygqlA5tKyH2dWtjjp7XKSKf5E-R4VVOGKaJyNxVuViwcBwKqM12MosPpiWduPWHWnjJJlk9_qzfdbfJAp1MX4Svk9vL77M_rlUapk9aeyolQUtgUjYCCZUz3hf-7DKQy-X4ovP54ei/s72-w400-c-h275/299015422_549290350283815_6861974735874726941_n.jpg
Urdu Novel Links
https://www.urdunovellinks.com/2022/08/meri-rooh-me-basa-hai-tu-by-mahnoor_14.html
https://www.urdunovellinks.com/
https://www.urdunovellinks.com/
https://www.urdunovellinks.com/2022/08/meri-rooh-me-basa-hai-tu-by-mahnoor_14.html
true
392429665364731745
UTF-8
Loaded All Posts Not found any posts VIEW ALL Readmore Reply Cancel reply Delete By Home PAGES POSTS View All RECOMMENDED FOR YOU LABEL ARCHIVE SEARCH ALL POSTS Not found any post match with your request Back Home Sunday Monday Tuesday Wednesday Thursday Friday Saturday Sun Mon Tue Wed Thu Fri Sat January February March April May June July August September October November December Jan Feb Mar Apr May Jun Jul Aug Sep Oct Nov Dec just now 1 minute ago $$1$$ minutes ago 1 hour ago $$1$$ hours ago Yesterday $$1$$ days ago $$1$$ weeks ago more than 5 weeks ago Followers Follow THIS PREMIUM CONTENT IS LOCKED STEP 1: Share to a social network STEP 2: Click the link on your social network Copy All Code Select All Code All codes were copied to your clipboard Can not copy the codes / texts, please press [CTRL]+[C] (or CMD+C with Mac) to copy Table of Content