--> Khayal E Eid By Adeena Khan Short Story | Urdu Novel Links

Khayal E Eid By Adeena Khan Short Story

Khayal E Eid By Adeena Khan Short Story خیالِ عید ادینہ خان   وہ  اپنے گھر کے چھوٹے سے ٹیرس پر بیٹھا گٹار ہاتھ میں تھامے مسلسل سامنے والی ...

Khayal E Eid By Adeena Khan Short Story




خیالِ عید

ادینہ خان

 

وہ  اپنے گھر کے چھوٹے سے ٹیرس پر بیٹھا گٹار ہاتھ میں تھامے مسلسل سامنے والی کھڑکی پر نگاہیں جمائے دھیمے سروں میں گا رہا تھا:


"برسات بھی آ کر چلی گئی

بادل بھی گرج کر برس گئے

پر اس کی ایک جھلک کو ہم

اے حسن کے مالک ترس گئے

کب پیاس بجھے گی آنکھوں کی

دن رات یہ دکھڑا رہتا ہے

میرے سامنے والی کھڑکی میں


اک چاند کا ٹکڑا رہتا ہے_____"


اور یہیں اس کی آنکھوں کی پیاس بجھانے میراں جی تشریف لے آئیں تھیں۔


وہ ایک سرسری سی نگاہ اس پر ڈالتی ہاتھ کھڑکی سے باہر نکالے بارش کو محسوس کرنے لگی جبکہ صلاح الدین ٹکٹکی باندھے اسے دیکھ رہا تھا۔


وہ اس کے مقابلے میں زیادہ خوبصورت نہیں تھی مگر نا جانے اسے کیوں اتنی اچھی لگتی تھی اس کی یونیورسٹی میں ہزاروں حسینائیں تھیں بہت سی تو اس کے آگے پیچھے بھی گھومتی تھیں۔


ان دونوں کے درمیان کوئی بات چیت نہیں ہوتی تھی جب بھی آمنے سامنے آتے بس خاموشی رقص کرتی رہتی۔


یہ لاہور شہر کے ایک پرانے محلے کا منظر تھا جہاں کی گلیاں تنگ سہی مگر لوگوں کے دل بہت وسیع تھے وہیں دو خاندان ایسے بھی پائے جاتے تھے جو رہتے تو ایک دوسرے کے آمنے سامنے اور بہت قریب تھے مگر ان کے دلوں میں نفرتوں کا جنگل بہت گھنا تھا۔ ایک خاندان کی سربراہی غلام اکبر کے ہاتھ میں تھی جبکہ دوسرے خاندان کی سربراہی الیاس نواز کے پاس تھی۔ دشمنی کا بیج بھی ان دونوں نے ہی بویا تھا ان کی دشمنی پندرہ سال پر محیط تھی جو اب بچوں میں بھی منتقل ہو چکی تھی۔


ہوا کچھ یوں تھا غلام اکبر اور الیاس نواز نے جب بی اے پاس کیا تو ہر طرف نفسا نفسی کا عالم تھا اور نوکری ڈھونڈنا بہت مشکل کام تھا۔


ان دونوں میں باپ دادا کی وجہ سے اچھی سلام دعا ہوا کرتی تھی اسی لیے جب الیاس نواز کے ایک جاننے والے نے کسی اخبار کے دفتر میں ایڈیٹر کی نوکری کا بتایا تو وہ ہمدردی کی خاطر غلام اکبر کے پاس جا پہنچے اور انھیں بھی نوکری کے لیے کاغذات جمع کرانے کا کہا۔ ان کے دل میں بغض نہیں تھا تبھی وہ خلوصِ نیت سے چاہتے تھے جس کی قسمت میں ہوئی مل جائے گی۔


اگلے دن وہ دونوں صبح صبح جانے کے لیے تیار ہو گئے مگر اچانک سے الیاس کی والدہ کی طبیعت خرابی کے باعث وہ اپنی فائل بھی غلام کو پکڑا گئے تا کہ وہ ان کی فائل مطلوبہ جاب کے لیے جمع کرا سکے۔


غلام اکبر وہاں پہنچے تو اتنا بڑا اور عالیشان دفتر دیکھتے کچھ بوکھلا گئے ایسی جگہ انھوں نے صرف خوابوں میں ہی دیکھی تھی تبھی غلطی سے فائلز جمع کروانے میں گڑبڑی کر گئے۔


اخبار ایڈیٹر کے لیے خود کی جبکہ اخبار بیچنے والے کے لیے الیاس کا نام دے آئے۔


قسمت کا کرنا ایسا ہوا کہ دونوں کو ہی ہفتے بعد ہی بلاوا آ گیا اور پھر تو گویا قیامت آ گئی۔ غلام اکبر نے بہت صفائیاں پیش کیں مگر سب بے سود تو وہ بھی ڈھیٹ بن گئے۔ کوئی دوسری نوکری نہ ملنے کی وجہ سے الیاس نے اخبار بیچنے کو ہی ترجیح دی۔


اچھی نوکری کی وجہ سے غلام اکبر کی شادی ایک غریب پڑھی لکھی لڑکی سے ہو گئی اور الیاس نواز کی شادی متوسط طبقے کی میٹرک پاس سے۔ ان کی بیویاں بھی ان کی دیکھا دیکھی جھگڑنے لگیں پھر یہی چیز بچوں میں منتقل ہو گئی۔


غلام اکبر کے دو بیٹے صلاح الدین اور فہد ایک بیٹی جنت تھی جبکہ الیاس نواز کی دو بیٹیاں کہکشاں اور میراں ایک بیٹا زریاب تھے۔

ان کے بچے ہر لڑائی میں پیش پیش رہتے تھے سوائے صلاح الدین کے وہ پنجاب یونیورسٹی میں پڑھتا تھا اور وہیں ہوسٹل میں رہتا تھا اس کا چکر ہر پندرہ دن بعد لگتا تھا۔ اسے شرماتی گھبراتی دشمنوں کی بیٹی بھا گئی تھی اور وہ کسی کی بھی پرواہ کیے بغیر محبت کی انوکھی داستان کا آغاز کر گیا تھا۔

کہکشاں کی شادی ایک جاننے والے کے ہاں کر دی گئی تھی اور اس کی دو سالہ بیٹی صبا بھی تھی۔


 فہد اور زریاب کی گاڑھی چھنتی تھی وہ دونوں تقریباً ہم عمر ہی تھے۔ فہد اپنے باپ کے پیسے کا رعب دکھاتا کیونکہ وہ قریبی یونیورسٹی سے بی ایس اکنامکس کر رہا تھا جبکہ زریاب بیچارا پرائیویٹ بی اے کر رہا تھا۔


میراں اور جنت کی عمروں میں کچھ ماہ کا فرق تھا وہ دونوں ہی قریبی کالج سے بی ایس سی کر رہی تھیں۔ میراں اسے زچ کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہ دیتی تھی کیونکہ وہ اپنے باپ کی لاڈلہ بیٹی تھی ان کا دکھ اس سے سہا نہیں جاتا تھا۔


غلام اکبر نے اپنے بچوں کو اچھی تعلیم دلوانے کے لیے وہیں رہنے کو ترجیح دی بس گھر نیا بنوا لیا تھا لیکن الیاس تنگی کے باعث ایسا نہ کر پائے۔


غلام اکبر کے دل میں کہیں نہ کہیں گلٹ موجود تھا مگر وہ الیاس کی اکڑ کے ہاتھوں بے بس تھے۔


غلام اکبر کی دفتر میں اتنی آؤ بھگت دیکھتے الیاس کا دل کڑھتا رہتا تھا۔


ایسے میں بس میراں اور صلاح الدین ہی تھے جن کے دل ایک ہی لے پر دھڑکتے تھے وہ چاہ کر بھی اس سے نفرت نہیں کر پائی تھی۔


🄰🄳🄴🄴🄽🄰 🄺🄷🄰🄽


"میراں____او میراں اگر تانکا جھانکی کر لی ہو آس پڑوس میں تو اب کچھ ہانڈی روٹی بھی کر لے زری آتے ہی شور ڈالے گا۔"


اماں کی پاٹ دار آواز پر وہ گڑبڑا کر حواسوں میں لوٹتی نیچی بھاگی تھی اور اس کے جاتے ہی دینو کے لیے بھی ساری خوبصورتی ختم ہو گئی تھی وہ بھی گٹار وہیں رکھتا سیڑھیاں پھلانگتا نیچے چلا گیا۔


میراں نے توری دیکھتے ہی منہ بنایا آج برسات میں بھی ان کے گھر یہی کھانا پکا تھا جبکہ سامنے والوں کے گھر سے سات مسالوں والی بریانی کی خوشبو کی لپیٹیں اٹھ رہی تھیں۔ وہ اپنی قسمت پر ماتم کرتی ہوئی جلدی جلدی پیاز بھوننے لگی کیونکہ زری جتنا بھوک کا کچا تھا اتنا ہی غصے والا بھی اگر وقت پر کھانا نہ ملتا تو بھوک ہڑتال پر نکل جاتا تھا۔


ایک دفع پھر بریانی کی خوشبو پر اسے توری بنانا پہاڑ لگنے لگا۔


"کنجوسوں کو یہ نہیں کہ ایک پلیٹ یہاں بھی بھیج دیں، وہ بھیج بھی دیں تو ہم نے کونسا لینی ہے ہونہہ۔"


وہ خود ہی سوال جواب کرتی روٹیاں ڈالنے کے لیے آٹا گوندھنے لگی۔


جب بھی دینو کا آنا ہوتا تھا تبھی اس گھر میں نئے نئے پکوان تیار کیے جاتے تھے۔


دوسری طرف صلاح الدین نے جیسے ہی نیچے قدم رکھا اماں اس کی طرف لپکیں۔


"آ جا میرے شہزادے! میں نے اپنے پتر کے لیے اس کی پسند کی بریانی بنائی ہے۔ جلدی سے منہ ہاتھ دھو میں جنت کو کہہ کر لگواتی ہوں کھانا، شاباش۔"


انھوں نے جنت کو آواز دی اور سارے چھوٹی سی میز کے گرد آ بیٹھے۔


"اور صلاح الدین پتر کیسے جا رہی ہے تیری پڑھائی؟ کوئی مسئلہ در پیش ہو تو بتا۔"


غلام اکبر نے پلیٹ میں بریانی نکالتے ہوئے کہا۔


"ابا تو کہتا ایسے ہے صلاح الدین جیسے کسی شہزادہ کو مخاطب کر رہا ہو۔ تیرا نام بادشاہ والا تھا تو نے ہمارے نام شہزادوں جیسے رکھ دیے شاہ فہد، صلاح الدین ایوبی____"


فہد نے بریانی سے منہ بھرے بھرے ہی بات کرنا ضروری سمجھا۔


اس کی بات پر دینو اور ابا نے ناگواری سے اسے دیکھا۔


دینو نے فہد کو لاکھ تمیز سکھانے کی کوشش کی مگر وہ سدھرنے والا نہیں تھا۔ گلی محلے کے لڑکوں کے ساتھ رہ رہ کر وہ کافی حد تک بگڑ گیا تھا۔ غلام اکبر دفتری کاموں میں مصروف رہتے تھے اور صلاح الدین یہاں نہیں ہوتا تھا تبھی اسے کھلی چھوٹ ملی ہوئی تھی۔


"سیدھی طرح کھانا کھاؤ تم، ہر وقت فضول گوئی کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔"


دینو نے اسے لتاڑا تو وہ منہ بنا گیا۔


"اور یہ کیا تم ہر وقت زریاب سے الجھتے رہتے ہو؟

سدھر جاؤ ورنہ تمہیں میں کسی ہوسٹل میں ڈال دوں گا وہ بھی کسی دور دراز علاقے میں۔"


غلام اکبر نے تنبیہہ کی۔


"ابا وہ خود بھی کچھ کم نہیں ہے تو جانتا نہیں ہے اسے ہر وقت زبان کو تیز کیے گھومتا رہتا ہے۔"

فہد نے فوراً سے اپنے پسندیدہ موضوع چھڑتے ہی بریانی سے ہاتھ ہٹایا۔


"جی ابا فہد بالکل ٹھیک کہہ رہا ہے اس کی بہن بھی بالکل اسی جیسی ہے میری جان عذاب میں ڈالے رکھتی ہے کالج میں۔"

جنت نے بھی اپنا حصہ ڈالا۔


دینو ان دونوں کو آنکھیں دکھاتا رہا تا کہ وہ اپنی گز بھر کی زبانیں بند کر لیں مگر نہیں سامنے والوں سے تو انھیں اپنی اماں کی طرح خدا واسطے کا بیر تھا۔


"تم سے زیادہ نمبر جو لے لیتی ہے اگر اتنا ہی غصہ چڑھتا ہے تو وہ پیپروں میں اتارا کرو ایسے باتیں بنانے میں ہی اپنی انرجی ضائع کرتی ہو تم۔"


اپنے باپ کی بات پر جہاں وہ شرمندگی کے احساس سے سرخ پڑی تھی وہیں دینو اور فہد کے چہرے پر دبی دبی ہنسی دیکھتی جھٹ سے اٹھی تھی۔


جنت سے جب مزید برداشت نہ ہوا تو پاؤں پٹختی وہاں سے چلی گئی۔


"ارے بریانی تو کھاتی جاؤ____"

اماں کی آواز ان سنی کرتی وہ اندر کی طرف بڑھ گئی۔


"دینو کے ابا تم بھی نا بس کیا ضرورت تھی دشمنوں کی طرف داری کرنے کی؟


انھوں نے غلام اکبر کو گھورا۔


"تم ہی اسے بگاڑ رہی ہو اکلوتی بیٹی ہے تو یہ مطلب نہیں ہر الٹی سیدھی بات کو ہاں بول دو۔

لڑکیوں کو دھیمے مزاج کا ہونا چاہیے تا کہ کہیں بھی بیاہ کر جائیں وہاں اپنے حسن سلوک سے سب کو گرویدہ بنا لیں۔"


وہ ان پر افسوس کرتے ہوئے بولے۔


پڑھائی تو ان کی بیوی کے اوپر سے ہی گزر گئی تھی کیونکہ وہ کوئی بھی عقل کی بات تو کرتی نہیں تھیں۔


"میں نے اپنی بیٹی کی بہت اچھی تربیت کی ہے۔ ان سامنے والوں کی بچیوں سے تو لاکھ گنا بہتر ہے۔"


وہ غصے سے اٹھ کر چلی گئیں۔


غلام اکبر سر پکڑ کر بیٹھ گئے۔


"ابا جی! کچھ نہیں ہوتا ابھی بچی ہے سنبھل جائے گی وقت آنے پر، آپ فکرمند نہ ہوں۔"


دینو نے ان کا کندھا تھپکا جبکہ فہد تو مزے سے بریانی کھانے میں مگن رہا۔


🄰🄳🄴🄴🄽🄰 🄺🄷🄰🄽


کل بارش ہونے کی وجہ سے سارا گھر کیچڑ سے تلپٹ گیا تھا۔ وہ آج کالج سے چھٹی کر کے سب کچھ صاف کرنے کا ارادہ رکھتی تھی تبھی جلدی جلدی سب کا ناشتہ بنایا۔ زری اور ابا کے جانے کے بعد وہ پائپ لگا کر فرش دھونے لگی، اس نے اماں کو پٹھوں کے کھچاؤ کی دوائی دے کر کچھ دیر کے لیے سلا دیا تھا۔


وہ دوپٹہ کمر کے گرد باندھے گنگناتی ہوئی صفائی کرنے لگی۔ سب کی غیر موجودگی میں ویسے بھی اس کے اندر کا فنکار باہر آ جاتا تھا تبھی وہ لہرا لہرا کر پانی مارتی جھاڑو سے کیچڑ صاف کرتی رہی۔ وہ اپنی دھن میں مگن تھی جب یک دم اس کا پاؤں پھسلا اور وہ دھڑام سے اسی کیچڑ میں جا گری۔ اسے لگا جیسے سارے جسم کی ہڈیاں کڑک گئی ہوں ابھی وہ درد محسوس کرنے ہی لگی تھی جب سامنے والے گھر کی تیسری منزل پر اس کی نظر پڑی جہاں دینو اپنے ہاتھ کی مٹھی بنائے منہ پر رکھ کر ہنسی دبانے کی کوشش کر رہا تھا۔ اب درد کی بجائے یک دم شرمندگی کا احساس غالب آ گیا تھا وہ خجالت سے سرخ پڑتی ہوئی اٹھی اور دینو کو آنکھیں دکھاتی اندر جانے کے لیے مڑی۔


اس سے چلنا دو بھر ہو رہا تھا شاید پاؤں میں موچ آ گئی تھی وہ زبردستی خود کو گھسیٹتی ہوئی اندر آ گئی ساتھ ساتھ اللہ تعالیٰ سے شکوے بھی جاری تھے۔


"یا اللہ! کیا ضرورت تھی ان کو اتنا دینے کی جو انھوں نے ہمارے بوسیدہ سے دو منزلہ مکان کے سامنے تین منزلہ عالیشان سا گھر بنا لیا۔ ہم تو کہیں چھپ کر رو بھی نہیں سکتے نا سکون سے کسی چیز کا لطف اٹھا سکتے ہیں۔"


پاؤں پر بام مسلتے ہوئے ہمیشہ کی طرح اس کے رونے دھونے جاری تھے۔


وہ ان لوگوں میں سے تھی جو اپنے سے اپر کلاس والوں کو دیکھ کر خود کی زندگی میں ہی زہر گھول لیتے ہیں۔ اگر عقل سے کام لیتی تو اپنے سے نیچے والوں کو دیکھتی جن کے سر پر عزت کی چھت نہیں ہوتی اور دو وقت کی روٹی کے لیے دوسروں کے سامنے ہاتھ پھیلانے پڑتے ہیں۔


اگر وہ یہ موازنہ کرتی تو دل سے شکوؤں کی بجائے بے اختیار شکر نکلتا۔


🄰🄳🄴🄴🄽🄰 🄺🄷🄰🄽


آج جنت کا دن پر سکون گزرا تھا کیونکہ اس کی دشمن اول آج چھٹی پر تھی۔ وہ تیز تیز قدموں سے چلتی اپنی گلی میں داخل ہوئی جب دیوار سے ٹیک لگائے زریاب کھڑا نظر آیا۔


اسے دیکھتے ہی جنت کا حلق تک کڑوا ہو گیا۔


"راستہ دو___"

اس کی کرخت آواز پر موبائل میں گم زریاب چونکا۔


"کیوں تم نے اپنی کرین لے کر گزرنا ہے؟؟؟؟

اتنا راستہ پڑا ہے گزر جاؤ، ہونہہ اٹینشن سیکر۔"


وہ سر جھٹکتا دوبارہ سے فون میں لگ گیا۔


"کیا کہا اٹینشن سیکر____تم میں ایسا ہے کیا جو میں تم سے اٹینشن چاہوں گی؟

تم اس گلی کے سب سے آوارہ شخص ہو اور جنت اکبر تم جیسوں سے بات کرنا بھی پسند نہ کرے۔

آیا بڑا____مطلب بھی پتا نہیں ہو گا اٹینشن سیکر کا۔"


وہ اسے اچھی طرح سناتی وہاں سے گزری۔


"منہ سنبھال کے بات کیا کرو یہ جو تمہاری آنکھیں آسمان میں لگی ہوئی ہیں نا ایسا نہ ہو کہیں ساری زندگی بات کرنے کے لیے صرف یہی آوارہ شخص رہ جائے تمہارے پاس۔"


وہ بھی زور سے کہتا اس سے حساب برابر کر گیا تھا۔


"تم اس دنیا میں واحد امیدوار بھی ہوئے نا مجھ سے شادی کرنے والے تب بھی ہاں نہ کروں میں____میں تو یہ سوچتی ہوں وہ بیچاری قسمت کی ماری کون ہو گی جو تمہارے متھے لگے گی؟"


وہ پلٹ کر ناک چڑھاتی ہوئی بولی۔


"تمہیں اتنی فکر کیوں ہو رہی ہے کہیں تمہارے دل میں تو لڈو نہیں پھوٹ رہے؟"

اس کے شوخ لہجے میں پوچھنے پر وہ سٹپٹا کر اس پر لعنت بھیجتی گھر میں داخل ہو گئی۔


زریاب قہقہ لگاتا ہوا خود بھی گھر چلا گیا جہاں میراں اس کے لیے پکوڑے بنائے انتظار کر رہی تھی۔ اس نے پاؤں کا درد بالکل بھلا دیا تھا۔


وہ دونوں بہن بھائی ایسے ہی تھے دوسروں کو آگ لگا کر خود مستی میں رہتے تھے۔


🄰🄳🄴🄴🄽🄰 🄺🄷🄰🄽


دینو اضطرابی کیفیت میں ٹیرس پر بیٹھا تھا مگر آج کھڑکی میں میراں کا نام و نشان تک نہیں تھا۔ اسے خود پر غصہ آ رہا تھا کیا ضرورت تھی ان کے صحن میں جھانکنے کی؟


کتنی غیر اخلاقی حرکت تھی مگر اس کی غیر ارادی طور پر نظر پڑ گئی تھی اور جہاں وہ موجود ہوتی تھی اس کا دل وہیں کھنچا جاتا تھا۔


وہ لگ بھی تو بہت دلفریب رہی تھی خود میں مگن سی گنگناتی ہوئی۔


اسے بس اس کے اچانک گرنے پر ہنسی آئی تھی مگر اس کے لنگڑا کر چلنے پر وہ مضطرب ہو گیا تھا۔


"بھیا یہ لیں آپ کی چائے اور کافی کا جار منگوانے کی ضرورت نہیں ہے۔

آپ جب آتے ہو تبھی استعمال کرتے ہو وہ جو آپ پچھلی بار لائے تھے ایکسپائر ہو گئی ہے۔ اماں تو غصہ کر رہی تھیں پیسا ضائع ہونے پر۔


میں اور فہد تو چائے کے شوقین ہیں۔"


جنت دو کپ چائے میز پر رکھتی اس کے ساتھ براجمان ہو گئی۔


"حکومت جو چائے کی پتی کے پیچھے پڑی ہوئی ہے اس کا کیا؟

تمہیں بھی لسی اور ستو پر ہی گزارا نہ کرنا پڑ جائے۔"


وہ بھی چائے کا کپ اٹھاتا ساری سوچوں کو جھٹکتا ہنس دیا۔


"ہم پہلے ہی انتظام کر لیں گے بھیا پتی لے لے کر سٹور روم میں ڈھیر لگا لیں گے پھر آرام سے پئیں گے، آہا____


~ تذکرے جب بھی ہوں گے چاۓ کے زمانوں میں

ہمارا نام بھی لیا جاۓ گا دیوانوں میں"


وہ چائے کی چسکیاں لیتے ہوئے لہلہا کر بولی۔


"توبہ توبہ توبہ___اتنی دیوانگی چائے سے۔"

دینو نفی میں سر ہلاتے ہوئے بولا۔


"دل کو بہلانے کے لیے کچھ تو چاہیے

چاہ نا سہی___تو چائے ہی سہی"


فہد کی آواز پر وہ دونوں مڑے جو چائے کا کپ تھامے کھڑا تھا۔


"لو ایک اور دیوانہ آ گیا___"

دینو نے دوبارہ سے کپ ہونٹوں سے لگایا۔


"ہاں بھئی آنا تو تھا ہی جب تم___آپ نے مجھے یاد نہیں رکھا، خود ہی بنا کر لایا ہوں۔


میرے ہاتھ میں تو ذائقہ بھی بہت ہے۔"


وہ فوراً سے تمیز کے دائرے میں آتا ہوا بولا۔


"ابا سے بھی تمیز سے بات کیا کرو، باپ ہیں وہ ہمارے کوئی دشمن نہیں اور یہ بگڑے ہوئے لڑکوں سے جو دوستیاں پال رکھی ہیں انھیں ختم کر دو اگر میں نے کسی دن دیکھ لیا نا تمہیں تو وہیں کھال ادھیڑ دوں گا۔"


دینو نے بڑے بھائی والا رعب دکھایا۔


"پھر ہم بقر عید پر اسی کی قربانی کر دیں گے بھیا۔"

جنت زور زور سے ہنستی ہوئی اس کا مزاق بنانے لگی جس پر وہ محض اسے گھور کر رہ گیا۔


"آج تو چاند نظر آئے گا نا____"

فہد نے خود سے ان کی توجہ ہٹا کر عید کے چاند پر کی۔


"ہممم چلو نماز پڑھ آتے ہیں مغرب کا وقت ہونے ہی والا ہے پھر چاند دیکھیں گے۔"

دینو کپ رکھتا اٹھ کھڑا ہوا تو ناچار فہد کو بھی اٹھنا پڑا۔


وہ نماز کے بعد چھت پر کھڑے چاند دیکھ رہے تھے جب چیخ سنتے سامنے والے گھر کی طرف مڑے۔


"زری وہ دیکھو چاند____"

میراں خوشی سے چہکی۔


"ہاں جی اس بار بھی تم جیت گئی، میرا پھر سے دو سو روپے کا نقصان ہو گیا۔"


زریاب اس کے پاؤں کی وجہ سے اسے بازو کے گھیرے میں لیے اوپر چھت پر لایا تھا۔


ان دونوں نے ہمیشہ کی طرح شرط لگائی تھی جو بھی ہارا وہ کل صبح لاہور کے مشہور حلوہ پوری کا ناشتہ کروائے گا اور میراں جیت گئی تھی۔


"کنجوس مکھی چوس دس دن بعد عید ہے اور تم مجھے چوڑیاں اور مہندی بھی دلواؤ گے ہاں___"

میراں اس کے سینے پر مکا مارتے ہوئے بولی جس پر وہ کھلکھلا اٹھا۔

 

"جو حکم میری میرو___"

اس نے محبت سے ساتھ لگایا۔


"دوسروں کا سکون برباد کر کے دونوں بہن بھائی چہکتے رہتے ہیں ہر وقت، ہونہہ۔"


جنت نے تنفر سے کہتے دینو کو دیکھا تبھی فہد کی بھی اس پر نظر پڑی جو آنکھوں میں نرم جذبات لیے انھیں دیکھ رہا تھا۔


"تیرے بغیر سب ہوتا ہے

 بس گزارہ نہیں ہوتا"


فہد کے حسب عادت شعر پڑھنے پر وہ چونک گیا تھا پھر بات سمجھ آنے پر خجالت سے سرخ پڑ گیا۔


🄰🄳🄴🄴🄽🄰 🄺🄷🄰🄽


"زری___کہکشاں آ پا کو بھی لے آنا مجھے صبا کی بہت  یاد آ رہی ہے۔"

اس نے لاڈ سے کہا تو زریاب نے آنکھیں دکھائیں۔


وہ ہر ہفتے کہکشاں کو بلوا لیتی تھی کیونکہ اسے صبا کے ساتھ کھیلنا ہوتا تھا۔


"یہ لوگ ہمیں ایسے کیوں دیکھ رہے ہیں جیسے ہم خلائی مخلوق ہوں۔"

زریاب کی جیسے ہی ان تینوں بہن بھائیوں پر نظر پڑی وہ بولے بنا نہ رہ سکا۔


"کون____اوہ یہ ان کے تو چوبیس گھنٹے پیٹ میں درد رہتا ہے ہماری فکر میں، ان کا بس چلے تو ہماری قبروں میں بھی ہمارے ساتھ جائیں۔"

میراں کی بات پر زریاب کا دل اچھل کر حلق میں آ گیا۔


"توبہ ہےمیرو پھر تو ان کے حصے کے کیڑے بھی ہمیں سہنے پڑیں گے۔"

وہ خود کو نیک تصور کرتا ان کو گناہ گار بنا گیا۔


"زری ہم کب ان سے بڑا گھر بنا پائیں گے؟"

وہ مایوسی سے بولی۔


"گھر نہیں دل بڑا ہونا چاہیے۔

ہمارا چھوٹا سا گھر ہی جنت ہے جہاں ہم محبت سے رہتے ہیں۔ ابا کے لیے کسی اور نوکری میں ایڈجسٹ ہونا مشکل تھا وہ دنیا کے ہیر پھیر نہیں سمجھ پاتے اس لیے ہم ایسے ہی رہ گئے۔"

زریاب نے اس کو ساتھ لگائے ہوئے سمجھایا۔


"چلو زری نیچے چلتے ہیں لعنت بھیجو ان پر۔۔۔"

وہ ناک بھوں چڑھاتی وہاں سے چلی گئی۔


"پرائیویسی نام کی بھی چیز نہیں ہے، اپنے ہی گھر میں بندہ سکون سے نہیں رہ سکتا۔"

زریاب زور سے انھیں سناتا وہاں سے کھسک گیا۔


ان کے جانے پر دینو سر کھجا کر رہ گیا۔


"آئے بڑے پرائویسی کے کچھ لگتے، پرائم منسٹر ہو جیسے کہیں کا۔"

جنت بڑبڑاتی ہوئی نیچے چلی گئی۔


🄰🄳🄴🄴🄽🄰 🄺🄷🄰🄽


"ٹک نہیں سکی گھر یہ لڑکی، ٹوٹے ہوئے پاؤں کے ساتھ بھی یہاں آ ٹپکی ہے۔"

جنت لنگڑا کر چلتی میراں کو دیکھ کر بڑبڑائی۔


زیادہ غصہ تو اسے اپنے بھائی کی وجہ سے آ رہا تھا جو اس لڑکی کے پیچھے اتنا پاگل تھا کہ کل سے جلے پیر کی بلی کی طرح یہاں وہاں چکراتا پھر رہا تھا۔


"میراں تم نے میرے نوٹس واپس نہیں کیے۔"

ان کی کلاس کی ایک پڑھاکو لڑکی نے کہا۔

 

"ہاں وہ میں جلدی میں لانا بھول گئی ان شاءاللہ کل لازمی لے آؤں گی۔"

میراں اپنی دوست سے بات کرتی ہوئی چونکی۔


"میں نے بہت محنت سے بنائے ہیں تم صرف آئیڈیا ہی لینا وہیں کاپی پیسٹ نہ کر دینا۔"


اس لڑکی نے وارن کیا۔


"ارے میں نے تو انھیں دیکھا بھی نہیں ہے کل ویسے کے ویسے لا دوں گی۔"

میراں نے اس چپکو کو سختی سے کہا۔


"ٹھیک ہے۔۔۔۔"

وہ منمنائی۔

 

"انھیں تو بھئی لوگوں کو یوں ہی ٹریپ کرنے کی عادت ہے کبھی غصہ دکھا کر اور کبھی چکنی چپڑی باتوں سے۔"


جنت نے وار کرنا ضروری سمجھا۔


اچانک کلاس میں خاموشی چھا گئی اور سب ان کی طرف متوجہ ہو گئے۔ ان دونوں کی لڑائی سے ہمیشہ ہی سارے محظوظ ہوتے تھے۔


"میراں کو کسی کو ٹریپ کرنے کی ضرورت ہی نہیں پڑتی اس کی ذات میں سحر ہی ایسا ہے کہ لوگ خود ہی کھنچے چلے آتے ہیں۔"


وہ کہاں ادھار رکھنے والوں میں سے تھی۔

 

"تم خود کو میراں کی بجائے فلم سٹار میرا سمجھنے لگی ہو حالانکہ اس بیچاری کی بھی جگ ہنسائی ہی ہوتی ہے۔"


اس نے استہزائیہ ہنس کر کہا۔


"اپنی نام نہاد نفرت نکالنے کے لیے تمہیں ایسے اوچھے ہتھکنڈے استعمال کرنے کی بجائے تھوڑا پڑھ لینا چاہیے پھر غرور کرنے کے لیے تمہاری کوئی نہ کوئی پوزیشن بھی آ سکتی ہے۔"


میراں نے بتیسی دکھائی جس پر ساری کلاس میں ہنسی کا طوفان اٹھ گیا۔


جلتی کڑھتی جنت کرسی پر جا بیٹھی۔

 

🄰🄳🄴🄴🄽🄰 🄺🄷🄰🄽


اسے لگ رہا تھا وہ آج بھی نہیں آئے گی کل اس نے واپس جانا تھا وہ روہانسی شکل بنائے بیٹھا تھا جب خوشگوار ہوا کا جھونکا اس کے چہرے سے ٹکرایا تھا اور پل میں میراں وہاں آن پہنچی۔


دینو ایک دم سے الرٹ ہوتا گٹار سنبھال گیا۔


"شاید کبھی نہ کہہ سکوں میں تم کو


کہے بنا سمجھ لو تم شاید


شاید میرے خیال میں تم اک دن


ملو مجھے کہیں پہ گم شاید


جو تم نہ ہو___رہیں گے ہم نہیں


جو تم نہ ہو___رہیں گے ہم نہیں


نہ چاہیے کچھ تم سے زیادہ تم سے کم نہیں"


دلفریب موسم میں اس خوبصورت آواز میں وہ گویا ڈوب سی گئی تھی۔ گاتا تو وہ شوقیہ تھا مگر آواز لاجواب تھی۔


اس کو خود کی طرف ٹکٹکی باندھے دیکھتا پا کر وہ مسرور ہوا ابھی وہ پوری طرح خوشی سے جھوما بھی نہیں تھا کہ جنت وہاں چلی آئی۔


جنت کو صلاح الدین کے پاس کھڑا دیکھ کر وہ جلدی سے کھڑکی سے ہٹ گئی۔


"دینو بھیا! یہ بہت دوغلی لڑکی ہے آپ اس کی باتوں میں مت آئیں، صرف آپ کو اچھا بن کر دکھاتی ہے حقیقت میں یہ ہم سے حسد کرتی ہے بالکل اپنے گھر والوں کی طرح___"


جنت نے اپنے خوبرو سے بھائی کو سمجھانا چاہا جو اب بھی وہیں دیکھ رہا تھا جہاں سے میراں ہٹی تھی۔


"بس کر دو جنت تم کیوں اس بیچاری کے پیچھے پڑی رہتی ہو وہ کہکشاں آپا جیسی بالکل نہیں ہے۔ میں نے کبھی بھی اسے کسی سے بدتمیزی کرتے نہیں دیکھا۔"


صلاح الدین نے ہمیشہ کی طرح جنت کو ڈپٹا۔


"یہی تو بات ہے جو میں آپ کو سمجھانا چاہ رہی ہوں دینو بھیا وہ صرف آپ کے سامنے بہانہ کرتی ہے کیونکہ آپ کی پرسنلٹی سے مرعوب ہے سارے محلے کی لڑکیوں کی طرح اور ہمارے سٹیٹس سے بھی وہ____"


اس کی بات ادھوری رہ گئی تھی۔


"بس___بہت ہو گیا جنت میں اور ایک لفظ بھی برداشت نہیں کروں گا تم دونوں کلاس فیلو ہو اور پڑھائی میں اگر مقابلہ کرتی ہو تو اس کا یہ مطلب ہر گز نہیں ہے گھر میں بھی مقابلہ بازی کرنا شروع کر دو۔ منفی باتوں سے دور رہا کرو تم___"


وہ اسے آنکھیں دکھاتا اپنا گٹار اٹھائے وہاں سے چلا گیا جبکہ اس کے کھڑکی سے ہٹتے ہی میراں فوراً سے وہاں آ کھڑی ہوئی۔


جنت کی اڑی رنگت دیکھتے اس نے دائیں آنکھ دباتے قہقہ لگایا تھا۔


جنت جلتی کڑھتی پاؤں پٹختی ہوئی وہاں سے چلی گئی وہ صرف اپنے بھائی کی عقل پر ماتم ہی کر سکتی تھی۔


"شریکاں نوں اگ لگدی___"


وہ مزے سے گنگنانے لگی تبھی فلائنگ چپل نے اس کے سر کو سلامی پیش کی تھی۔


"اماں____"


وہ چیختی ہوئی نیچے بھاگی تھی جہاں ابا کی محفوظ پناہ گاہ موجود تھی۔


🄰🄳🄴🄴🄽🄰 🄺🄷🄰🄽


"فہد! یار تم لوگ اس بار کس جانور کی قربانی کرو گے؟"

محلے کے ایک لڑکے نے پوچھا۔


"ہم تو اس بار بیل کی قربانی کریں گے سامنے والوں کی طرح غریب غرباء تھوڑی ہی ہیں ہم۔"

فہد نے پاس سے گزرتے زریاب کو سنانے کے لیے زور سے کہا۔


"ہم لوگ چار بکروں کی قربانی کریں گے، سمجھ آئی میری بات؟"

زریاب نے دانت پیستے ہوئے اس فسادی کو دیکھا۔


"چار____بکرے____"

فہد کے ساتھ ساتھ اس کے دوست بھی قہقہ لگا اٹھے۔


"میں بھی دیکھتا ہوں تم لوگ کیسے چار چار بکرے خریدتے ہو؟ آج کل اتنی مہنگائی ہے کہ ایک جانور ہی سونے کے بھاؤ مل رہا ہے اور تیرا ابا اپنی اخبار پھینکنے کی نوکری سے چار بکرے خریدے گا، سبحان اللہ۔۔۔"


فہد کی طنزیہ ہنسی نے زریاب کو آگ لگا دی تھی۔


"تم تو ایسے بول رہے ہو جیسے تمہارا باپ اخبار کا ایڈیٹر ہو وہ بھی وہاں پی اے ہی ہے۔"


اس نے بھی حساب برابر کیا۔


اس کی بات پر بھی فہد کو کوئی فرق نہیں پڑا تھا وہ ہنوز دل جلانے والی مسکراہٹ لیے اسے تکتا رہا جس پر زریاب تن فن کرتا گھر پہنچا مگر سامنے ہی گھر جنگ کا میدان بنا ہوا تھا۔


"او ابا میری بات سن اس بار ہم قربانی کے لیے کیا لیں گے؟"


اس نے میراں اور اماں کے درمیان سے ابا کو بازو پکڑ کر اپنی طرف متوجہ کیا۔


"ہائیں یہاں اتنا اہم مسئلہ چل رہا ہے اور تجھے قربانی کی پڑی ہے۔"


اماں کو اس پر تپ چڑھی جبکہ میراں نے اپنے بھائی کو پیار بھری نگاہوں سے دیکھا۔


"او اماں دو منٹ صبر کر اور مجھے ابا سے پوچھنے دے۔"


اس نے ماں کو تھوڑی دیر چپ کروایا۔


"ہم اس بار کوئی جانور نہیں لے رہے بلکہ میں اس بار جلال کی گائے میں حصہ رکھواؤں گا۔


جانوروں کی قیمتیں آسمان سے باتیں کر رہی ہیں۔"


ان کی بات پر وہ زرد رنگ لیے سر جھٹکتا اندر بڑھ گیا جبکہ سب پیچھے سے اسے پکارتے رہ گئے۔


وہ جانتا تھا آج بھی اماں کے پاس یہی مسئلہ موجود ہو گا کہ میراں کھڑکی میں بیٹھی تھی تبھی دینو بھی اپنا گٹار لیے اپنی کھڑکی میں آ بیٹھا۔


وہ کیا بتاتا اس کا اپنا دماغ خراب کرنے والا بھی دینو کا چھوٹا بھائی ہی تھا۔


سامنے والے گھر کے لوگ بچپن سے ہی ان کے لیے جان کا عذاب بنے ہوئے تھے۔


🄰🄳🄴🄴🄽🄰 🄺🄷🄰🄽


صلاح الدین کے ہوسٹل جانے کے بعد جنت نے غصے میں اپنے گھر کا سارا صحن دھو ڈالا۔


اب اسے بس میراں کے چیخنے چلانے کا انتظار تھا اور کچھ دیر بعد ہی وہ تن فن کرتی آن وارد ہوئی۔


"شرم آنی چاہیے تمہیں تو ہمسائیوں کے حقوق کا ذرا بھی معلوم نہیں ہے۔ میں اچھی طرح جانتی ہوں تم نے جان بوجھ کر صحن دھویا ہے تا کہ سارا پانی ہمارے گھر آ جائے۔ ہم سے اونچا گھر بنا کر تم خود کو ملکہ عالیہ سمجھنے لگی ہو تو تمہیں بتا دوں یہ ٹھاٹ باٹ زیادہ دیر نہیں رہنے والا تمہارے پاس۔۔۔"


اس کی تیز آواز پر جنت کی ماں جلدی سے کمرے سے نکل آئیں۔


"ہمسائیوں کے حقوق تم مجھے بتا رہی ہو جو خود ہمسائے کو اپنے جال میں پھانسنے کی کوشش کر رہی ہے۔


تم اچھی طرح سمجھ لو یہ بات، میں تمہیں تمہارے گھٹیا مقصد میں کامیاب نہیں ہونے دوں گی۔ یہ جو تم دن رات خواب دیکھتی ہو نا انھیں نوچ کر پھینک دوں گی پر تمہیں راج نہیں کرنے دوں گی۔ تم میرے بھائی کو تو پاگل بنا سکتی ہو ہر مجھے نہیں____"


جنت نے تنفر سے اس کو خوب سنائی۔


اس کی ماں جو اتنی دیر سے بات سمجھنے کی کوشش کر رہی تھی یک دم آنکھیں پھیلائے میراں کو دیکھنے لگی۔


میراں تو جنت کے سر عام سب کہہ دینے پر شرمندگی سے سرخ پڑ گئی تھی۔


"میں تو تمہیں اتنی گری ہوئی نہیں سمجھتی تھی تو تم صلاح الدین کے آنے پر اسی لیے اپنی کھڑکی پر لٹکی رہتی ہو۔


تمہاری ماں نے یہی طور طریقے سکھائے ہیں تمہیں کہ کیسے دوسروں کے لڑکوں پر ڈورے ڈالتے ہیں؟"


ان کی کرخت آواز پر وہ احساس توہین سے مٹھیاں بھینچ گئی۔


"خبردار جو میری ماں کے بارے میں کچھ کہا تو مجھ سے برا کوئی نہیں ہو گا۔


اور تم___ہاں پھنسایا ہے میں نے تمہارے بھائی کو اب بتاؤ کیا اکھاڑ لو گی؟"


وہ اپنی ماں کی ذات پر ایک لفظ بھی برداشت نہیں کر سکتی تھی تبھی جذبات میں بپھر گئی۔


"میں کیوں؟؟؟

اب اکھاڑیں گے تو بھیا____"


جنت چالاکی سے ہنستی ہوئی اس کی توجہ پیچھے کی طرف مبذول کروا گئی۔


میراں کو یکدم کسی انہونی کا احساس ہوا تھا وہ جھٹکے سے مڑی اور وہیں پتھر کی ہو گئی۔

 

دینو بے یقینی سے اسے دیکھ رہا تھا وہ کہاں سوچ سکتا تھا میراں کو ایسا؟


وہ ابھی بھی ساکت تھی اس کی زبان  بولنے سے انکاری تھی جب کچھ نہ سوجھا تو وہ سیدھا اپنے گھر کی طرف دوڑی۔


گھر آ کر اپنے کمرے میں گھستے وہ زور زور سے رونے لگی تھی۔ وہ جو سمجھتی تھی دینو کے ہونے نہ ہونے سے کوئی فرق نہیں پڑے گا اب خالی پن محسوس کر رہی تھی جیسے کچھ بہت قیمتی کھو گیا ہو۔


شام کو وہ زری کے بار بار بلانے پر منہ پر پانی کے چھپاکے مارتی باہر نکلی تھی اور بنا کسی کو دیکھے سیدھی چھت پر جا پہنچی۔ اس نے کھڑکی میں کھڑے ہو کر کافی دیر انتظار کیا مگر دینو وہاں نہ آیا۔


اس کے پیچھے پیچھے زریاب بھی اوپر آ گیا۔

وہ میراں کا رویا رویا چہرہ دیکھتے کچھ سمجھنے کی کوششوں میں تھا۔


دوسری طرف دینو جنت کے سامنے شرمندگی محسوس کر رہا تھا اس نے کیا سوچا تھا اور کیا نکلا تھا؟ وہ تو اپنی ہی بہن کو جھٹلاتا رہا تھا مگر اب بھی اس کا دل ماننے سے انکاری تھا۔


وہ تو بس اڈے سے اس لیے لوٹ آیا تھا کہ آج کسانوں کی ہڑتال کی وجہ سے راستے بند تھے اور اس کا آنا عذاب ٹھہرا تھا۔ کاش! وہ نہ آتا اور میراں کی ذات پردے میں رہتی۔

 

وہ بنا کسی کو کچھ بتائے سیدھا کمرے میں آ گیا تھا اور بیڈ پر شام تک اوندھے منہ پڑا رہا۔

 

آگہی اس کے لیے واقعی عذاب ٹھہری تھی۔

 

رات کو کھانے پر اپنے باپ کو اس نے طبیعت خرابی کا کہہ کر مطمئن کر دیا لیکن باقی گھر والے اس کے مرجھائے چہرے کی وجہ سے بخوبی آگاہ تھے۔

 

اگلے دن صبح صبح وہ سب سے مل کر روانہ ہو گیا تھا، جنت کو اس کے سپاٹ تاثرات دیکھتے اب پچھتاوا ہو رہا تھا کہ کاش! وہ اپنی ضد اور آنا میں سب خراب نہ کرتی کیونکہ میراں بھی کالج سے غیر حاضر تھی۔

 

وہ یہ بات تو مانتی تھی میراں کا رویہ ان کے ساتھ جیسا مرضی سہی مگر وہ اس کے بھائی کے معاملے میں سنجیدہ تھی۔

 

🄰🄳🄴🄴🄽🄰 🄺🄷🄰🄽

 

زریاب میراں کی طبیعت خرابی کی وجہ سے پریشان تھا وہ اس کے لیے سٹور سے کچھ ادویات لیتے واپس لوٹ رہا تھا جب اس نے فہد کو دس بارہ لڑکوں کے شکنجے میں دیکھا۔ پہلے پہل اس کے دل میں آیا وہ آگے بڑھ جائے مگر وہ اتنا بے حس نہیں ہو سکتا تھا تبھی اس کے دماغ میں آئیڈیا آیا اس نے جلدی سے فون نکالتے پولیس کو کال کی۔ وہ وہیں کھڑا ہو کر پولیس کا انتظار کرنے کی بیوقوفی نہیں کر سکتا تھا تبھی آگے بڑھ کر فہد کو چھڑوانے لگا۔ ہاتھا پائی کے دوران لڑکوں نے زریاب کو بھی کافی زخمی کر دیا تھا اچانک پولیس کا سائرن بجتے ہی سب لڑکے بھاگ کھڑے ہوئے۔ زریاب اور فہد کو ہسپتال لے جایا گیا۔


ان کے بارے میں سنتے ہی دونوں گھروں کے سب افراد بھاگے آئے تھے۔


تمام صورتحال جاننے کے لیے وہ ان دونوں کے پٹیوں سے فارغ ہونے کا انتظار کر رہے تھے۔ غلام اکبر نے دینو کو کچھ بھی بتانے سے منع کیا تھا۔


فہد نے تمام معاملہ بتایا تو غلام اکبر نے پہلے تو اسے بے نقط سنائیں پھر زریاب کا شکریہ ادا کیا۔


ان کے درمیان جیسی بھی لڑائیاں سہی مگر وہ لوگ ایک دوسرے کو زندہ سلامت دیکھنا چاہتے تھے۔


دن گزرنے کے ساتھ ساتھ ان کی چوٹیں بھی ٹھیک ہو گئیں تھیں۔


الیاس نواز نے اخبار میں اشتہار کے لیے آنے والی ایک نوکری میں زریاب کا نام بھی دے دیا تھا اور غلام اکبر نے درپردہ سفارش کر کے پرنٹنگ پریس کلب میں اس کی نوکری لگوا دی تھی۔ انھوں نے کسی کو کچھ نہیں بتایا تھا وہ بس اپنا گلٹ ختم کرنا چاہتے تھے۔


غلام اکبر بے انتہا خوش تھے اسی لیے وہ چار تو نہیں البتہ زری کی خواہش پوری کرنے کے لیے دو بکرے ضرور لے آئے تھے قربانی کے لیے اور ان کے ہاتھ میں مٹھائی کا ڈبہ بھی تھا جو گھر داخل ہوتے ہی میراں نے اپنے قبضے میں کر لیا تھا۔


اس رات ان کے گھر میں خوب ہلا گلا کیا گیا جو سامنے والوں کو بخوبی سنائی دے رہا تھا باقی تو نہیں البتہ غلام اکبر کو مطمئن اور پر سکون نیند آئی تھی۔


🄰🄳🄴🄴🄽🄰 🄺🄷🄰🄽


ان کچھ دنوں میں ہی جہاں گھر کے باقی لوگوں نے آپسی رنجشیں بھلائی تھیں وہیں جنت اور میراں کی بھی کافی دوستی ہو گئی تھی۔ جنت کے لاکھ بلانے پر بھی وہ مہندی لگوانے نہیں گئی تھی اس کا دل ہر چیز سے اچاٹ ہو چکا تھا وہ چھت پر کھڑی چاند کی روشنی میں اپنے ہاتھوں کی لکیریں دیکھ رہی تھی۔


جنت سے نمبر لے کر اس نے اپنے دل کا حال دینو کو ایک لمبے چوڑے میسج میں لکھ بھیجا تھا۔ جنت نے اسے بتایا تھا دینو عید کی چھٹیاں ملنے کے باوجود گھر نہیں آیا تھا۔


میراں خود کو سب کا قصوروار سمجھ رہی تھی تبھی اس نے دینو کو بتا دیا تھا کہ وہ بچپن سے اپنے باپ کو حالات کی چکی میں پستے دیکھتی آئی تھی۔ اتنی محنت مشقت کے بعد بھی وہ کسی کو خوش نہیں کر پائے تبھی اس کے کچے ذہن میں ہی یہ بات پکی ہو گئی تھی کہ اس سب کے زمہ دار سامنے والے گھر کے لوگ ہیں اسی وجہ سے وہ سب سے نفرت کرتی تھی مگر چاہنے کے باوجود اس سے نفرت نہیں کر پائی تھی۔ وہ اپنے ابا کی لاڈلی تھی دینو چاہے تو اسے معاف کر دے یا پھر سزا دے۔ اس کا کوئی جواب نہیں آیا تھا وہ سب کہہ کر اب خود ہی بے چین تھی تبھی اس کے بٹنوں والے موبائل پر میسج ٹون بجی تھی اس نے جھٹ سے اٹھا کر پیغام کھولا تو آنکھیں چمک اٹھیں۔


"خوشیوں کی شام اور یادوں کا یہ سماں


اپنی پلکوں پر ہر گز ستارے نہ لائیں گے


رکھنا سنبھال کر چند خوشیاں میرے لیے


میں لوٹ آؤں گا تو عید منائیں گے"


اس نے پھر دوسرا پیغام کھولا۔


"مہندی اچھی لگتی ہے مجھے____"


اگلا میسج پڑھتے وہ نم آنکھوں سے مسکراتی اٹھ کر نیچے بھاگی اتنا کہنا ہی کافی تھا اس کا اب تو اسے مہندی لازمی لگوانی تھی۔


🄰🄳🄴🄴🄽🄰 🄺🄷🄰🄽


اگلے دن اسے خبر مل گئی تھی دینو لوٹ آیا ہے سب عید کی خوشی میں مصروف تھے وہ حیرانی سے اپنے گھر میں ہوتی تیاریاں ملاحظہ کر رہی تھی۔ ان کا چھوٹا سا گھر برقی قمقموں سے سجایا گیا تھا کہکشاں آپا صبا کو اس کے گود میں ڈالتے خود چہکتی پھر رہیں تھیں۔


اسے جلد ہی سب سمجھ آ گیا تھا جب اسے سفید فراک پہناتے صحن میں لگے جھولے پر بٹھا دیا تو اپنے گھر والوں کے ساتھ سفید کڑکڑاتے شلوار قمیض میں دینو اندر داخل ہوا۔ سب سے ملتے ملاتے وہ خود ہی اس کے ساتھ جھولے پر آ بیٹھا سب کے سامنے اس کی یہ حرکت اسے بوکھلاہٹ میں مبتلا کر گئی۔ وہ جلدی سے ایک طرف ہوئی تو دینو زیر لب مسکرا دیا۔ مولوی صاحب کے آنے پر تو وہ گویا جم کر رہ گئی اتنا سب کچھ طے کر دیا گیا اور اسے پتا ہی نہیں وہ رو رو کر خود کو ہلکان کیے ہوئے تھی۔ اسے زری اور جنت پر سخت تاؤ آیا جو سامنے کھڑے دانت نکال رہے تھے۔


"ان کو کچا چبانے کی پلاننگ مت کرو انھوں نے جو بھی کیا میرے کہنے پر کیا۔"

دینو کی گھمبیر لہجے میں کی گئی سرگوشی پر وہ خود میں سمٹ کر رہ گئی۔


دینو کی نگاہیں اس سے ہٹنے سے انکاری تھیں جس کا سوگوار سا روپ بہت دلفریب لگ رہا تھا۔ وہ اسے معاف کر گیا تھا کیونکہ وہ اسے سب کچھ سچ سچ کہہ گئی تھی تو وہ اپنی محبت کو سزا کیسے دے سکتا تھا؟


زریاب خاموش کھڑی جنت کی طرف سرکا۔


"میں نے تمہاری اس دن والی بات کو بہت سنجیدگی سے لیا ہے اسی لیے یہ سوچا ہے کیوں نا اب کسی دوسری کی زندگی ویران کرنے کی بجائے تمہارے متھے لگ جاؤں۔"


جنت زریاب کی بات کا مطلب سمجھتی تند و تیز نگاہوں سے اسے گھورنے لگی۔


"ہائے قاتل نینوں نے مار ڈالا___"


وہ سینے پر ہاتھ رکھتے ہلکا سا جھکا مگر فہد کے آنے پر شرافت سے کھڑا ہو گیا۔


"آہم آہم____تم لوگ تو بڑے چالاک نکلے بھئی____اپنے بکروں کا گوشت اپنی بہن کے نکاح پر مہمانوں کو کھلا دیا ہے۔ پیسہ اور وقت دونوں بچا لیے___"


فہد کی زبان میں کھجلی ہوئی تھی۔


"تو تم بھی حساب برابر کر دو کل ہی___"


اس نے معنی خیزی سے جنت کو دیکھا جس پر وہ گڑبڑاتی ہوئی وہاں سے کھسک لی کیونکہ اس احمق سے کچھ بعید نہ تھا۔


"کیا مطلب____؟؟؟؟"

فہد نے ہونقوں کی طرح دیکھا۔


"مطلب نوں گولی مار یارررر___"

وہ گنگنایا جس پر فہد کو اس کی دماغی حالت پر شبہ ہونے لگا۔


کھانا لگنے کے بعد ہی اچانک جنت اور زریاب کی بھی منگنی کا شور اٹھا تھا۔ گھر کے بڑوں نے بالا ہی بالا سب طے کر لیا تھا۔


جہاں جنت بے یقین تھی وہیں زری کے دانت ہی اندر نہیں جا رہے تھے۔


سب کے خوشی سے بھرپور قہقہے گونج رہے تھے۔


ٹھیک کہتے ہیں سب اتفاق میں برکت ہے بلکہ خوشی اور مسرت بھی ہے۔


🄰🄳🄴🄴🄽🄰 🄺🄷🄰🄽


آج وہ دونوں پورے استحقاق سے آمنے سامنے اپنی اپنی چھتوں پر بیٹھے ایک دوسرے کو دیکھ رہے تھے۔


انھیں اب کسی روک ٹوک کا ڈر نہیں تھا۔


میراں جھینپی جھینپی سی آج براہ راست اسے تک رہی تھی تبھی اس نے گٹار اٹھایا تھا۔


 آج وہ چاہتا تھا میراں بولے اور وہ اس کی مرضی کا گیت گائے۔

میراں نے کچھ دیر سوچا پھر نازیہ حسن کا گانا بتا دیا۔


"دل میں میٹھی میٹھی۔۔۔


مچتی ہے ہلچل


ہلچل_____


دیکھوں تجھ کو


ہو جاؤں پاگل


پاگل____


تو ملا


ملا سہارا


بن تیرے نہیں گزارا


روز نئے سپنے دکھانے والے


ہاں بوم بوم"


اس کی دھیمی آواز ارد گرد گونجتی سحر طاری کر رہی تھی میراں مکمل ڈوب ہی جاتی اس سے پہلے ہی سب نے مل کر دھاوا بول دیا۔


زریاب میراں کے ساتھ جبکہ جنت اور فہد صلاح الدین کو گھیر بیٹھے تھے۔


اس کی آواز پھر سے گونجنے لگی تھی:


بوم بوم___

 

جب بھی ملتے ہیں ہم اور تم____


اب سب کی آوازیں اس کے ساتھ شامل ہو چکیں تھیں۔ سب بزرگ انھیں سنتے خوش بھی تھے اور پچھتاوے میں بھی، انھوں نے خوامخواہ لڑائی جھگڑوں میں اتنا خوبصورت وقت ضائع کر دیا تھا۔


ختم شد۔۔۔۔



COMMENTS

Name

After Marriage Based,1,Age Difference Based,1,Armed Forces Based,1,Article,7,complete,2,Complete Novel,634,Contract Marriage,1,Doctor’s Based,1,Ebooks,10,Episodic,278,Feudal System Based,1,Forced Marriage Based Novels,5,Funny Romantic Based,1,Gangster Based,2,HeeR Zadi,1,Hero Boss Based,1,Hero Driver Based,1,Hero Police Officer,1,Horror Novel,2,Hostel Based Romantic,1,Isha Gill,1,Khoon Bha Based,2,Poetry,13,Rayeha Maryam,1,Razia Ahmad,1,Revenge Based,1,Romantic Novel,22,Rude Hero Base,4,Second Marriage Based,2,Short Story,68,youtube,34,
ltr
item
Urdu Novel Links: Khayal E Eid By Adeena Khan Short Story
Khayal E Eid By Adeena Khan Short Story
https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEguMvrQCZMpXmul3F_oiESx-O5ekgLJD0-Aa3bNaXzedecjrfhVXbj1G0kfhZ0EyL2hz4mZEo_kg4L-kUHCYkktbj-a0t8V-uLMXJGFiZDXaX2rCtw5iRAIxJ-8QogNxz1SziyguVI6eE8CvZuevMO4_i247QCAAZkp7sPqtJYLj9RBuh9AqPy_HiCb/w400-h400/289528747_522644879615029_4545418129252525494_n.jpg
https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEguMvrQCZMpXmul3F_oiESx-O5ekgLJD0-Aa3bNaXzedecjrfhVXbj1G0kfhZ0EyL2hz4mZEo_kg4L-kUHCYkktbj-a0t8V-uLMXJGFiZDXaX2rCtw5iRAIxJ-8QogNxz1SziyguVI6eE8CvZuevMO4_i247QCAAZkp7sPqtJYLj9RBuh9AqPy_HiCb/s72-w400-c-h400/289528747_522644879615029_4545418129252525494_n.jpg
Urdu Novel Links
https://www.urdunovellinks.com/2022/07/khayal-e-eid-by-adeena-khan-short-story.html
https://www.urdunovellinks.com/
https://www.urdunovellinks.com/
https://www.urdunovellinks.com/2022/07/khayal-e-eid-by-adeena-khan-short-story.html
true
392429665364731745
UTF-8
Loaded All Posts Not found any posts VIEW ALL Readmore Reply Cancel reply Delete By Home PAGES POSTS View All RECOMMENDED FOR YOU LABEL ARCHIVE SEARCH ALL POSTS Not found any post match with your request Back Home Sunday Monday Tuesday Wednesday Thursday Friday Saturday Sun Mon Tue Wed Thu Fri Sat January February March April May June July August September October November December Jan Feb Mar Apr May Jun Jul Aug Sep Oct Nov Dec just now 1 minute ago $$1$$ minutes ago 1 hour ago $$1$$ hours ago Yesterday $$1$$ days ago $$1$$ weeks ago more than 5 weeks ago Followers Follow THIS PREMIUM CONTENT IS LOCKED STEP 1: Share to a social network STEP 2: Click the link on your social network Copy All Code Select All Code All codes were copied to your clipboard Can not copy the codes / texts, please press [CTRL]+[C] (or CMD+C with Mac) to copy Table of Content