یقین کامل اریج خان السلام علیکم!فاریہ کیا بات ہے پریشان لگ رہی ہو؟"شاہ میر نے پوچھا۔۔۔ "وعلیکم السلام!اماں کی طبعیت ٹھیک نہی...
یقین کامل
اریج خان
السلام علیکم!فاریہ کیا بات ہے پریشان لگ رہی ہو؟"شاہ میر نے پوچھا۔۔۔
"وعلیکم السلام!اماں کی طبعیت ٹھیک نہیں ہے"۔۔۔
"کیا ہوا خالہ کو سب خیریت ہے؟"۔۔۔
"کینسر کی تشخیص ہوئی ہے لیکن اللہ کا کرم ہے زیادہ مرض نہیں ہے
بروقت علاج سے صحت یاب ہو سکتی ہیں اماں"۔۔۔
"اللہ کا شکر ہے اتنا مہنگا علاج کیسے ہو گا؟"۔۔۔۔
"اسی سلسلے میں تم سے بات کرنی تھی کچھ پینٹنگ ہیں وہ سیل ہو جاے
اور کوشش کر رہی ہوں کہ کوئی سیکنڈ ٹائم جاب مل جاۓ کچھ مدد ہو جاے گی"۔۔۔۔
"میں کوشش کرتا ہوں جیسے ہی کچھ ہوتا ہے تمھیں بتاؤں گا"شاہ
میر کہتے بلیک پینٹ اور وائٹ سرٹ میں ملبوس بالوں کو جیل سے سیٹ کیے سامنے سے آتے لڑکے
کی طرف متوجہ ہوا جو کب سے بینج پر بیٹھے اسے اور ساتھ میں عبایا اور نقاب میں ملبوس
لڑکی کو دیکھ رہا اس کی سیاہ آنکھوں میں پریشانی واضح تھی کافی دیر بات ختم ہونے کا
انتظار کیا کہ کب بات ختم ہو اور وہ اپنی بات کرے اب انتظار نہیں ہو رہا تھا کلائی
میں بندھی گھڑی پر نظر ڈالے جو شام کے چار بجا رہی تھی ان کی طرف چل دیا۔۔۔
"السلام علیکم فاخر"شاہ میر نے کہا۔۔
فاریہ وہاں سے جا چکی تھی
"وعلیکم السلام کیا ہو رہا ہے؟"
"کچھ نہیں یار"کہتے ٹھنڈی آہ بھری فاریہ کس طرح سب ہینڈل
کرے گئ یہی بات اسے پریشان کر رہی تھی۔۔۔
"فاخر تو بتا رہا کہ ایک ٹیوٹر کی ضرورت ہے فرح کے لیے"شاہ
میر نے یاد کرتے ہوۓ کہا۔۔۔
"ہاں کوئی ہو تو بتانا مما بہت پریشان ہیں اس حوالے سے اور کوئی
فی میل بتاؤ جس سے فرح کی دوستی ہو سکے"۔۔۔۔
"ہے ایک"۔۔۔
"تم اس سے بات کرو پھر مما سے ملوا دیں گے"۔۔۔۔
"ٹھیک"۔۔۔
@@@@@@
یونی سے گھر آتے اماں کو سلام کیا
"وعلیکم السلام کیسی ہے میری بیٹی؟"۔۔۔
الحمدللہ اماں اپکی طبعیت کیسی ہے اب...اماں کو دیکھتے ہوۓ پریشانی سے کہا گیا جو دن بدن کمزور ہو رہی
تھی وہ جانتی تھی کہ یہ مرض بہت تیزی سے پھیلتا ہے۔۔۔
"آپی آگئی آپ" احمد نے کہا۔۔۔
"ہمممم" دونوں نے ایک دوسرے کو دیکھا ان کے پاس انکی ماں
کے سوا تھا ہی کون؟۔۔۔
"آپی اب کیسے علاج کروائے گئے ہم اماں کا میری چھوٹی سی نوکری
اور اپکی پینٹنگ کی آمدن سے گھر بہت مشکل سے چلتا ہے"۔۔۔
"آپی ایک مرتبہ پھر اس بارے میں سوچے پلیززز"۔۔۔
"نہیں احمد بکل نہیں تم بھول گئے وہ سب جو اسلام ہمیں سکھاتا ہے
جو اللہ اور اس رسول نے ہمیں بتایا ہے میں مانتی ہم مشکل میں ہیں لیکن میں ہرگزز اس
مشکل میں کوئی غلط کام نہیں کروں گی۔۔۔تم جانتے ہو بابا اور اماں نے دن رات محنت کی
ہے ہمیں حلال کھلانے کے لیے اور مشکل کی گھڑی آن کھڑی ہے تم کہہ رہے ہو میں اپنے ماں
باپ کی برسوں کی محنت کو مٹی میں ملا دوں۔۔
حرام کا ایک لقمہ حلال کے رزق کو ختم کر سکتا ہے تم جانتے ہو کجھور
جس کو آج ہم شفا کے لیے کھاتے ہیں عرب میں اسی سے شراب بنائی جاتی تھی انگور کھجور
جو متبرک میوے ہیں جن کا ذکر قرآن میں بھی ہے وہ شفا تب تک دیں گے جب تک وہ حلال ذریعے
سے حاصل کیے جاۓ وہی حلال چیز حرام ہے جب وہ غلط ذریعے سے
حاصل کی جا رہی ہے اور تم کہہ رہے ہو میں اس راستے پر چلوں بلکل نہیں اللہ پر یقین
رکھو اماں کو کچھ نہیں ہو گا اماں جلد ٹھیک ہو جاے گئ اور احمد ایک بات یاد رکھوں آزمائش
اور تکلیف ہی مسلمان کے لیے امتحان ہوتا ہے اور اسے ہمیں صبر اور اللہ کے ساتھ اس پر یقین کے ساتھ گزارنا چاہیے یہی وہ وقت جب
ہمارا ایمان دیکھا جاتا ہے کہ کیا ہم مشکل میں اس رسی کو تھامے رکھتے ہیں یاں غفلت
برتتے ہیں"۔۔۔
موبائل کی ٹون پر وہ کال پک کرتی بات کرنے لگی۔۔۔۔
"شکر الحمد للہ اوکے میں کل پہنچ جاؤں گی وقت پر ان شاءاللہ"شاہ
میر نے اسے جاب کی خوشخبری سنائی تھی۔۔۔
"اللہ پر یقین رکھو سب بہتر ہوگا"
اگلے روز یونی کے بعد وہ شاہ میر کے ساتھ آئی وہ دونوں لاونج میں بیٹھے
فرح اسکی سٹوڈنٹ اود اسکی اماں سے ملاقات ہوئی فاریہ کو وہ دونوں فیشن ایبل اشخاص عجیب
سے لگے تھے اور انکی بناوٹی باتیں سن کر افسوس ہوا دل عجیب ہو رہا تھا وہ اسے کیسے
پڑھاۓ گی اور وہ بھی اسلامیات فرح کو دیکھ کر نہیں
لگتا تھا کہ وہ اسلام سے واقفیت رکھتی ہوگی خیر اللہ ہیں ساتھ سب بہتر یوگا دل نے یقین
کامل کی رسی تھامے قدم بڑھائے وہ بھی فرح کی ساتھ چل دی۔۔۔
فرح اور ازمت بیگم بھی فاریہ کو نقاب اور عبایا میں دیکھے بار بار پہلوں
بدل رہیں تھیں مانو سامنے کوئی بھوت یا ایلین آگیا ہو فاریہ یہ بات نوٹ کر چکی تھی
ہلکی سے مسکان لبوں پر بکھری دل نے شکر کا کلمہ پڑھا۔۔۔
فرح کے کمرے میں آتے اسے حیرت کا شدید جھٹکا لگا دیواروں پر بڑے بڑے
سنگرزز کے پوسٹر لگے تھے پورا کمرا سپیکرزز سنگرزز کی تصویروں اور سی ڈیزز سے بھرا
پڑا تھا۔۔۔۔
فرح کا مزاج بھی کچھ مغرورانہ اور ہر بات میں نخرے آج اس نے کچھ ابتدائی
ٹاپک پڑھاے تھے۔۔۔۔
واپسی پر اپنا سامان سمیٹے کمرے سے جاتے ہوۓ سلام کیا تھا لیکن اسکا کوئی جواب نہ دیا
مقابل نے مانو اسنے سنا ہی نہ ہو فاریہ کو بہت افسوس ہوا۔۔۔۔
اگلے روز یونی میں شاہ میر سے ملاقات ہوئی۔۔۔
"کیسا رہا پہلا دن؟"۔۔۔
"الحمد للہ ٹھیک تھا دعا کرنا باقی سب بھی بہتر رہے"
"ان شاءاللہ سب ٹھیک ہو گا پریشان مت ہو"۔۔۔۔
کچھ دن یونہی چلتے رہے۔۔۔
کچھ دنوں میں فاریہ کی فرح سے دوستی ہوگئ تھی۔۔
"آپ یہ سب کیسے کر لیتی ہیں؟" پردے کا ٹاپک پڑھتے ہوۓ فرح نے سوال کیا۔۔
"کیا؟"
"یہ عبایا یہ نقاب اپکو گھٹن نہیں ہوتی اپکا سانس بند نہیں ہوتا"۔۔۔
نہیں اس نے نفی میں سر ہلایا۔۔۔
"آپ اس دنیا سے ہی نہیں ہیں"فرح نے کہا۔۔
"میں اسی دنیا سے ہوں جس دنیا سے آپ ہو"یہ کہتے اسکے لبوں
پر مسکان آئی اور اساتذہ کی بات اسکے سماعتوں میں گونجی
"جس راہ پر آپ لوگ ہو یہ راہ راہ کامل ہے اور ایک دن آئے گا کہ
اپکو اپکی نیکی کا بدل ملے گا" آج وہ دن تھا جب اسے اس بات پر فخر محسوس ہوا تھا۔۔۔
"پھر بھی بتاۓ یہ
سب کیسے کر لیتی ہیں آپ"فرح نے دوبارہ سوال کیا۔۔۔۔
"مجھے تو حجاب میں بھی الجھن ہوتی ہے اپکا دل نہیں چاہتا آپ روز
تیار ہوں ایک الگ سٹائل میں آپ روز اس سٹائل سے بور نہیں ہوجاتیں میں تو کچھ دن ایک
سٹائل کپڑے پہنے سے بور ہو جاتی ہوں"۔۔۔
اسکے حجاب کے لٹکے کنارے کو پکڑے دوسری طرف حجاب کے حالے میں اٹکایا
"ایسے" کہتے وہ مسکائی تھی فرح حق دق اسے دیکھ رہی تھی سانس
ویسے ہی چل رہا تھا سب کچھ ویسا ہی تھا کوئی گھٹن نہیں تھی۔۔
"میں روز ہی تیار ہوتی ہوں لیکن الگ سٹائل میں نہیں اس سٹائل میں
جو مسلمان کا سٹائل ہے جو ہمارا سٹائل ہے جس سے ہم پہچانے جاتے ہیں اور عورت کا سٹائل
تو باپردہ رہنا ہے اور یقین جانو فرح جب اللہ کا بتایا یہ سٹائل اپناؤ گے ناں جو آپکو
عزت و احترام دیتا ہے بشرط اسکے کہ اپکے دل نے بھی اس پر گواہی دی ہو آپ اسکو دل سے
کرو دیکھاوۓ کے لیے نہیں"فرح نے اثبات میں سر ہلایا۔۔۔
@@@@@@@@
آج اماں کو ہسپٹل لے جانا تھا چیک آپ کے لیے ڈاکٹر نے چیک آپ کے بعد
ٹیسٹ کروانے کا کہا وہ بھی ایک دن میں کیونکہ اماں کی حالت بہتر نہ تھی ٹیسٹ کافی مہنگے
تھے فاریہ کے پاس اس وقت دوا خریدنے کے پیسے تھے وہ بھی پوری سیلری میں آنی تھی ٹیسٹ
کروانے کا سوال پیدا نہیں ہو رہا تھا دوا لینے کے بعد وہ اماں کے ساتھ گھر آگی تھی
احمد گھر ہی تھا۔۔۔
ساری بات احمد کو بتائی...
"آپی میں اپکو کہہ رہا ہوں ہم بینک سے قرضہ لے لیتے ہیں اماں کے
لیے پلیززز میری بات مان لیں"احمد نے کہا۔۔۔
"نہیں احمد تم جانتے ہو بینکنگ نظام سود پر چلتا ہے اور ہم اتنی
رقم لے کر وقت پر ادا نہیں کر پاۓ گے
اور سود کے اس گناہ میں پھس جاۓ گے
ویسے بھی اماں کا علاج ہو رہا ہے تم اللہ پر یقین رکھو سب بہتر ہو جائے گا"۔۔۔
"کیسے بہتر ہوگا کل اماں کے ٹیسٹ کروانے ہیں اور ہمارے پاس ایک
ٹیسٹ کے بھی پیسے نہیں ہیں باقی کیسے کرواۓ گے آپ خود بتاۓ بابا
کو ہم کھو چکے ہیں لیکن اماں کو نہیں اگر اماں کو کچھ ہوا تو اسکی ذمہ دار آپ ہو گی"۔۔۔
ساری رات پریشانی سے سو نہ پائی تہجد پڑتے اپنے رب سے مدد کی طلب کی
کہ وہ اس آزمائش میں انہیں کامیاب کرے۔۔۔
صبح یونی کہ بعد فرح کو پڑھانے گی۔۔۔
کتاب کھولے جو آیت اسکے سامنے آئی فاریہ اس آیت کو دیکھ رہی تھی دل
کل سے ایک کشمکش میں تھا اماں کی زندگی سب سے پیاری تھی اور کوئی اثار بھی نہیں تھے
کہ کیسے اماں کا علاج ہو گا جس رفتار سے وہ علاج کروا رہے تھے مرض کے بڑھنے کا خطرہ
بھڑتا جا رہا تھا۔۔۔۔۔
اَلَّذِیۡنَ یَاۡکُلُوۡنَ الرِّبٰوا لَا یَقُوۡمُوۡنَ اِلَّا
کَمَا یَقُوۡمُ الَّذِیۡ یَتَخَبَّطُہُ الشَّیۡطٰنُ مِنَ الۡمَسِّ
ترجمہ :
"سود خور
لوگ نہ کھڑے ہونگے مگر اسی طرح وہ کھڑا ہوتا ہے جسے شیطان چھو کر خبطی بنا دے"
(سورة البقرہ
275 )
فاریہ نے رب کا
شکر ادا کیا اور حسب معمول اونچی آواز میں آیت اور ترجمہ پڑھ رہی تھی۔۔۔۔
یہ الفاظ
اَلَّذِیۡنَ یَاۡکُلُوۡنَ الرِّبٰوا لَا یَقُوۡمُوۡنَ اِلَّا
کَمَا یَقُوۡمُ الَّذِیۡ یَتَخَبَّطُہُ الشَّیۡطٰنُ مِنَ الۡمَسِّ
ؕ ذٰلِکَ بِاَنَّہُمۡ قَالُوۡۤا اِنَّمَا الۡبَیۡعُ مِثۡلُ الرِّبٰوا ۘ وَ
اَحَلَّ اللّٰہُ الۡبَیۡعَ وَ حَرَّمَ الرِّبٰوا ؕ فَمَنۡ جَآءَہٗ مَوۡعِظَۃٌ
مِّنۡ رَّبِّہٖ فَانۡتَہٰی فَلَہٗ مَا سَلَفَ ؕ وَ اَمۡرُہٗۤ
اِلَی اللّٰہِ ؕ وَ مَنۡ عَادَ فَاُولٰٓئِکَ اَصۡحٰبُ النَّارِ ۚ ہُمۡ فِیۡہَا خٰلِدُوۡنَ
﴿۲۷۵﴾
ترجمہ" سود خور لوگ نہ
کھڑے ہونگے مگر اسی طرح جس طرح وہ کھڑا ہوتا ہے جسے شیطان چھو کر خبطی بنا دے ، یہ اس لئے کہ یہ کہا کرتے تھے کہ تجارت بھی تو
سود ہی کی طرح ہے حالانکہ اللہ تعالٰی نے تجارت
کو حلال کیا اور سود کو حرام ، جو شخص اپنے
پاس آئی ہوئی اللہ تعالٰی کی نصیحت سُن کر رُک گیا اس کے لئے وہ ہے جو گزرا اور اس کا معاملہ اللہ تعالٰی کی طرف ہے اور جو پھر دوبارہ ( حرام کی طرف ) لوٹا وہ جہنمی ہے ، ایسے لوگ ہمیشہ ہی اس میں رہیں گے ۔ "
دروازے پر آتے کسی کے قدم رک سے گے تھے وہ حشمت صاحب اس گھر کے سربراہ
اور بہت مشہور بزنس مین انکا شہر میں ایک نام تھا دولت شہرت انکے پاس تھی لیکن سکون
نہیں تھا گھر کا سکون نہیں تھا وہ کسی ٹرانس کی کیفیت میں یہ الفاظ سن رہے تھے سود
کیا ہوتا ہے اس سے باخوبی واقف تھے کسی بھی جیز سے بڑھ کر معاوضہ دینا اصل قیمت سے
ذیادہ دینا جیسے آج کل ہم کرپشن بھی کہہ سکتے ہیں
فاریہ اب اسکی تفسیر بیان کر رہی تھی کہ سود کیا ہے؟
کیسے ہے؟ سود کا معنی ہے ذیادتی اضافہ اور سود اصل قیمت سے ذائد لی
گی رقم ہے اب فاریہ اسکے اور اشکال بتا رہی تھی جیسے کہ کرپشن کرپشن بھی سود کی ایک
شکل ہے جس میں انسان اپنا کام نکالنے کے لیے سامنے والے کو رشوت دیتا ہے یعنی اسکے
کام کے اصل قیمت سے زیادہ دینا اور جیسے ہم عام زبان میں پروفٹ کہتے ہیں پروفٹ کیا
ہے سود کی ایک شکل جیسے آجکل ہم حاصل کر کے فخر محسوس کرتے ہیں یہ نہیں سمجھتے کہ یہ
کیا ہے؟ کیسے ہے؟کیوں ہیں؟ وہ کہتے ہیں نہ آم کھاؤ گٹلیاں کیوں گنتے ہو اور ہم اپنی
اولاد سے حسن سلوک کی توقع کرتے ہیں لیکن وہ ہم سے حسن سلوک کیسے کرے گے وہ اسلامک
کیسے بنے گے ہم تو انہیں حرام کھلا رہے ہیں جب وہ کھاۓ گے حرام تو اچھا کیسے بولیں گے اچھا کیسے بنے گے اسے اب اس موڈرن دور
نے یہ بتا دیا ہے پرافٹ لو چاہے جیسے بھی آے حرام ذریعہ سے کیوں نہ ہو بینکنگ نظام
جس پر ہم آنکھ موند کر بھروسہ کرتے یہ نہیں سمجھتے کہ وہ کیا ہے؟ وہ ہے ہی سودی نظام
کیا کبھی سوچا ہے بینک ہمیں ہمارے رکھی ہوئی رقم کے ذائد رقم کیوں دیتا ہے؟ وہ وہ رقم
کہاں سے آتی ہے؟ وہ ہوتا ہے سود جو ہم خوشی خوشی لیتے ہیں اور کھاتے ہیں بنا یہ جانے
کہ وہ حلال ہے یہ حرام ہم یہ کیوں نہیں سوچتے؟"۔۔۔۔
"کیوں نہیں؟" فرح نے کہا۔۔۔۔
"کیونکہ ہماری عقل پر خواہشات نفس کی پٹی بندھی ہوتی ہے ہمیں یہ
چاہیے برانڈڈ کپڑے برانڈڈ کار اود شہرت کامیابی جو اب پیسے سے خریدی جا سکتی ہے یہ
خواہش کی لسٹ دن بدن بھڑتی جاتی ہے اور ہمیں اس گناہوں کے دلدل میں دن بدن دھستی جاتی
ہے
احادیث مبارکہ میں ہے
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
" رات ( خواب میں )
میں نے دو آدمی دیکھے، وہ دونوں میرے پاس آئے اور مجھے بیت المقدس میں لے گئے،
پھر ہم سب وہاں سے چلے یہاں تک کہ ہم ایک خون کی نہر پر آئے، وہاں ( نہر کے کنارے ) ایک شخص کھڑا ہوا تھا، اور نہر کے بیچ میں بھی ایک
شخص کھڑا تھا۔ ( نہر کے کنارے پر ) کھڑے ہونے والے کے سامنے پتھر پڑے ہوئے تھے۔ بیچ
نہر والا آدمی آتا اور جونہی وہ چاہتا کہ باہر نکل جائے فوراً ہی باہر والا شخص اس
کے منہ پر پتھر کھینچ کر مارتا جو اسے وہیں لوٹا دیتا تھا جہاں وہ پہلے تھا۔ اسی طرح
جب بھی وہ نکلنا چاہتا کنارے پر کھڑا ہوا شخص اس کے منہ پر پتھر کھینچ مارتا اور وہ
جہاں تھا وہیں پھر لوٹ جاتا۔ میں نے ( اپنے
ساتھیوں سے جو فرشتے تھے ) پوچھا کہ یہ کیا
ہے، تو انہوں نے اس کا جواب یہ دیا کہ نہر میں تم نے جس شخص کو دیکھا وہ سود کھانے
والا انسان ہے"(البخاری 2085)
ایک اور حدیث میں ہے
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے
" سود لینے والے اور دینے والے( پر لعنت بھیجی )" (البخاری
5945)
اس حدیث میں دیکھے کیا فرمایا گیا ہے کہ سود لینے اور دینے والے پر
لعنت بھیجی جس پر اللہ اور اسکا رسول لعنت بھیج وہ بھلا کیسے خوش رہ سکتا ہے وہ اس
جہان میں تو شہرت حاصل کر لے گا لیکن اس جہان میں اسکے پاس کچھ نہ ہو گا۔۔۔۔
اسکے بعد آیت میں تجارت کہ بارے میں یہودیوں کو جواب دیا گیا جو کہتے
کہ تجارت حرام ہے اللہ نے تجارت کو حلال قرار دیا ہے اور سود کو حرام
آیت کے آخر میں
اللہ فرماتا ہے
فَمَنۡ جَآءَہٗ
مَوۡعِظَۃٌ مِّنۡ رَّبِّہٖ فَانۡتَہٰی
فَلَہٗ مَا سَلَفَ ؕ وَ
اَمۡرُہٗۤ اِلَی اللّٰہِ ؕ وَ مَنۡ عَادَ فَاُولٰٓئِکَ اَصۡحٰبُ النَّارِ ۚ ہُمۡ فِیۡہَا خٰلِدُوۡنَ
﴿۲۷۵﴾
ترجمہ :
"جو شخص اپنے پاس آئی ہوئی اللہ کی نصیحت سن کر رک گیا اس کے لیے
وہ ہے جو گزرا اور اسکا معاملہ اللہ کی طرف ہے اور جو پھر دوبارہ حرام کی طرف لوٹا
وہ جہنمی ہے, ایسے لوگ ہمیشہ اسی میں رہیں گے"(سورہ البقرہ 275)
آخر میں ان لوگوں کو اللہ کی رحمت کا پروانہ دیا گیا کہ وہ توبہ کر
لیتے ہیں اللہ انکا معاملہ اپنی طرف لے لے گا اور اگر وہ واپس اس طرف آتے ہیں تو سخت
عذاب ہے انکے لیے
حشمت صاحب کا چہرا آنسوؤں سے بھیگا ہوا تھا ندامت کے آنسو کمرے میں
آے دو رکت نماز پڑھی اور اللہ سے توبہ کی اور اس راستے کو چھوڑنے کا فیصلہ کیا سالوں
سے بے چین دل اب سکون کا دامن پکڑے بیٹھا تھا۔۔۔۔
"بے شک سکون رب کی رضا میں ہے"
(القرآن)
رب کی رضا پر یقین کامل کرتے وہ گھر آئی تو شاہ میر اور احمد وہیں موجود
تھے پینٹنگز سیل ہو گی تھیں اور بہت ہی اچھے داموں میں چونکہ وہ رب کا کلام تھا اور
اماں کی ٹیسٹ بھی ہو چکے رزلٹ اچھے آۓ تھے۔۔۔
اب اسے ایک فرم کے لیے قرآنی آیات پر مبنی پینٹنگز بنانے کا آڈر بھی
ملا تھا اس سے انکے حالات بہتر ہو سکتے تھے۔۔۔۔
"آپی آپ بلکل ٹھیک کہتی ہیں یقین کامل ہی وہ سیدھی راہ ہے ہاں
مشکل ضرور آتی ہے لیکن آسانی بھی جیساکہ میرا رب فرماتا ہے
"بے شک ہر مشکل کے ساتھ آسانی ہے "(القرآن)
احمد نے کہا....
فاریہ نے اپنے رب کا شکر ادا کیا کہ اس نے اس مشکل کی گھڑی میں انہیں
بھٹکنے نہیں دیا۔۔۔۔
حشمت صاحب بھی اب اپنا کام ایمانداری سے کر رہے تھے اور اللہ کی راہ
کو چنتے ایک ایک کر کے انکی سب مشکلیں حل ہو رہیں تھیں
ختم شد
COMMENTS