Khula By Hamna Iram Short Story خلع حمنہ ارم باہر گھنٹوں سے موسلادھار بارش ہو رہی تھی۔اپنی ماں کے زانو پر سر رکھے لیٹی عذرا کی آنکھیں بند...
Khula By Hamna Iram Short Story
خلع
حمنہ ارم
باہر گھنٹوں سے موسلادھار بارش ہو رہی تھی۔اپنی
ماں کے زانو پر سر رکھے لیٹی عذرا کی آنکھیں بند تھیں۔اپنے بالوں میں پھسلتی ماں کی
انگلیاں اور برستی بارش کی تڑتڑاہٹ اسے ہم آہنگ معلوم ہو رہی تھیں۔ناک سے ٹکراتی گیلی
مٹی کی سوندھی خوشبو پورے وجود کو سکون بخش رہی تھی۔اسکے پہلو میں اسکی ڈیڑھ سالہ بیٹی
اس شور سے بے پروا سو رہی تھی۔
"عذرا! تمہیں ماں کی زرا سی بھی یاد نہیں
آتی؟"ماں نے شکایت آمیز لہجے میں کہا۔
"مصروفیت رہتی ہے اماں۔"اسنے آنکھوں
کو کھولے بغیر جواب دیا۔
"اس دفعہ چھ مہینوں کے بعد آئی ہے تو۔دو
گھنٹے کے فاصلے پر تیری سسرال ہے اور پھر بھی تیری شکل دیکھنے کو ترس جاتی ہوں۔"ماں
کی آواز میں دکھ تھا۔
"اس دفعہ جلدی آؤنگی۔"اسنے جھوٹے لہجے
میں تسلی دی۔
ماں نے ایک خاموش نگاہ اسکے چہرے پر ڈالی۔کبھی شاداب
رہنے والا چہرہ ان تین سالوں میں سوکھے پتے کی طرح مرجھا گیا تھا۔آنکھوں کے گرد سیاہ
حلقے،ہاتھوں اور پیروں پر موجود نشانات اپنی کہانی خود بیان کرتے تھے۔
"تم خوش تو رہتی ہو نا بیٹا؟"بوڑھی
ماں کی آنکھوں میں خدشہ تھا۔
"جی اماں!وہ میرا اور گڑیا کا بہت خیال رکھتے
ہیں۔"بارش کے بے ہنگم شور نے اسکے لہجے کی لرزش کو دبا دیا تھا۔اسکے ذہن کے پردے
پر روز ہونے والی تذلیل،بے حساب دی جانے والی گالیاں اور تھپڑ،لاتیں وغیرہ متحرک ہو
گئیں تھیں۔
"آپ میرے لئے فکرمند نہ ہوا کریں اماں۔میں
اپنی زندگی سے مطمئن ہوں۔"وہ اپنے کھلے بالوں کو سمیٹتی اٹھ کر بیٹھ گئی۔"میرے
سر پر چھت ہے،کبھی بھوکا نہیں سونا پڑا،خیال رکھنے والا شوہر ہے،پیاری سی گڑیا ہے۔اسکے
علاوہ میں کس چیز کی خواہش کروں؟"اسنے ماں سے نظریں ملائے بغیر کہا۔
"ٹھیک کہتی ہو بیٹا۔صبر و قناعت سے زندگی
آسان ہو جاتی ہے۔"اسنے اسکے بھرم کو قائم رکھنے میں اسکی مدد کی۔"شائد تمہارے
ابا آ گئے ہیں۔میں دروازہ کھول کر آتی ہوں۔"وہ باہر چلی گئی تھی۔تھوڑی دیر کے
بعد اسکا باپ تولیے سے اپنا بھیگا سر پونچھتا
کمرے میں داخل ہوا۔
"السلام علیکم ابا۔"عذرا نے اسے سلام
کیا۔
"لکیروں سے مزین چہرے والے باپ نے جواب دیتے
ہوئے اسکے سر پر اپنا بوڑھا مشفق ہاتھ رکھا۔
"ابھی رہوگی نا بیٹا؟"
"کل ہی واپسی ہے ابا۔اگلی دفعہ زیادہ دنوں
کے لئے آؤنگی۔"اسنے پھیکی مسکراہٹ کے ساتھ وعدہ کیا۔
باپ مزید بوڑھا دکھائی دینے لگا۔باہر اب بھی بارش
کا پر ہنگامی شور جاری تھا۔
--------------------
یہ اسکے سسرال واپس
آنے کے ہفتہ بھر کے بعد کی بات تھی۔وہ برآمدے میں پونچھا لگا رہی تھی جب اسکا شوہر
انتہائی غصے کی حالت میں کمرے سے باہر آیا۔
"میرے جوتے تیرا باپ پالش کریگا؟"وہ
اسے گالی دیتا ہوا بولا۔
"میں کر دیتی ہوں۔گڑیا کی طبیعت کی وجہ سے
پریشان تھی اسلئے ذہن سے نکل گیا۔"وہ پونچھے والا کپڑا فرش پر ڈالتی کھڑی ہو گئی۔
"جاہل عورت!اب تیری وجہ سے مجھے دکان جانے
میں دیر ہو جائیگی اور وہ خبیث مالک مجھے باتیں سنائیگا۔اب اسے کیا معلوم کہ کیسی بد
سلیقہ عورت سے میرا پالا پڑا ہے۔کتنی دفعہ کہا ہے کہ کام پر دھیان دیا کر۔مگر تجھے
تو بات ماننا ہی نہیں ہے۔"وہ غصے سے چلانے لگا۔
"پلیز آہستہ بولیں۔گڑیا کی نیند خراب ہو
جائیگی۔"اسنے گھبرا کر کہا۔وہ بڑی مشکل سے اسے سلا کر آئی تھی۔
"منحوس عورت!ایک تو بیٹی پیدا کر کے میرے
سینے پر رکھ دی اور پھر زبان درازی کرتی ہے۔"اسکے شوہر کا پارہ آسمان پر چڑھا
اور اسنے اسکے کمر پر ایک زوردار ٹھوکر رسید کی۔وہ لڑکھڑاتی لوہے کی بالٹی سے ٹکرائی
اور اسی لمحے اسکا باپ داخلی دروازے سے اندر داخل ہوا۔بیٹی کی پیشانی سے بہتے خون نے
اسے حواس باختہ کر دیا۔وہ دوڑتا اس تک آیا اور اپنے کرتے کے دامن سے اسکا خون روکنے
کی کوشش کرنے لگا۔
"ابا آپ؟"اہانت کے احساس نے اسے اسکی
تکلیف بھلا دی۔
"عذرا!پنا اور گڑیا کا سامان باندھو۔"اسنے
ایک ملامتی نظر داماد کے اوپر ڈالتے ہوئے کہا جسکے چہرے پر تھوڑی سی بھی شرمندگی نہیں
تھی۔
--------------------
آزاد گنج محلے میں یہ بات جنگل کی آگ کی طرح پھیل
گئی کہ مجاہد علی نے اپنی بیٹی کو گھر بٹھا لیا ہے اور اب اسے طلاق دلانے کی تیاری
کر رہا ہے۔محلے کے سرکردہ لوگ اسکے گھر کے دروازے پر جمع ہونے لگے۔
اندر عذرا نے رو رو کر اپنی آنکھیں سجا لی تھیں۔"ابا!میری
وجہ سے محلے میں آپ کی عزت پر حرف آئیگا۔لوگ کہینگے کہ مجاہد کی بیٹی اپنا گھر نہیں
بسا سکی۔وہ آپ اور اماں کی تربیت پر انگلیاں اٹھائینگے۔میری بیٹی کی بھی کوئی عزت نہیں
کریگا۔"اسے اس طرح بلکتا دیکھ کر والدین کا دل کٹ کر رہ گیا۔
"عزت و ذلت تو اللہ کے ہاتھ میں ہے۔اور لوگوں
کے کہنے کی مزید پروا میں نہیں کرونگا۔اسی عزت کی خاطر تین سالوں سے خاموش رہا۔تمہیں
کیا لگتا تھا کہ ہم تمہارے جھوٹ پر مطمئن ہو جاتے ہیں؟ہمیں تمہاری اداسی اور غم کا
احساس نہیں ہوتا؟نہیں عذرا۔۔۔بس مصلحت اور معاشرہ ہمارے لب سی دیتا تھا۔مگر اب اپنی
آنکھوں سے تمہارے ساتھ ہونے والی زیادتی دیکھ کر میں اندھا نہیں بنا رہ سکتا۔"وہ
اسکے سر کو تھپکتا باہر نکل گیا۔
اسکے باہر آتے ہی چہ میگوئیاں کرتے لوگ خاموش ہو
گئے۔
"خلع کا مطلب سمجھتے ہو مجاہد؟اگر تمہاری
بیٹی بیوہ ہو کر آتی تو ہم سب اسکے سر پر اپنا ہاتھ رکھ دیتے۔مگر خلع یا طلاق لی ہوئی
عورتوں کی معاشرے میں کوئی جگہ نہیں ہوتی۔"ایک بوڑھے آدمی نے آواز بلند کی۔
"بڑھاپے نے تمہارا دماغ سٹھیا دیا ہے۔کہاں
تو اپنی بیٹی کو یہ تعلیم دیتے کہ وہ صبر و شکر کے ساتھ اپنے شوہر کے گھر رہے۔الٹا
تم نے اسے گھر بٹھا لیا۔"پڑوسی نے بھی اپنا حصہ ڈالنا ضروری سمجھا۔
پھر تو سب ہی بولنے لگے تھے۔وہ خاموشی سے انکی باتیں
سننے لگا۔
"بھلے مارتا پیٹتا ہو مگر کھانا کپڑا تو
دیتا تھا نا۔مرد تو ایسے ہی ہوتے ہیں۔عورت کو تحمل و برداشت سے کام لینا چاہئے۔"
"طلاق مانگنے والی عورتوں کو سخت عذاب کی
وعید سنائی گئی ہے۔"
"ارے کچھ تو اپنی اور محلے کی عزت کا خیال
کر لیا ہوتا۔"
اسی طرح کی مزید باتیں کر کے وہ لوگ چپ ہوئے تو
اسنے بولنا شروع کیا۔
"خلع کا مطلب مجھے اچھی طرح معلوم ہے ابراہیم
بھائی۔اللہ نے بے شک طلاق کو ایک نا پسدیدہ فعل قرار دیا ہے اور یہ بھی درست ہے کہ
طلاق مانگنے والی عورتیں عذاب کی حقدار ہیں مگر بے وجہ طلاق مانگنے والی عورتیں!اللہ
کا دین صرف مردوں کے لئے نہیں ہے جس میں عورت کی سرکشی و نا فرمانی کی بنا پر اس پر
ہاتھ اٹھانے کی اجازت اور طلاق کاحق دیا گیا ہے۔بلکہ خلع کی شکل میں عورت کو بھی یہ اختیار دیا ہے وہ
گھٹن بھرے رشتے سے آزادی حاصل کر سکتی ہے۔"
"میں اپنی بیٹی کو اس ظالم انسان کے جوتے
کھانے کے لئے مزید اسکے پاس نہیں بھیج سکتا۔ایک جیتے جاگتے انسان کو زندہ رہنے کے لئے
صرف کھانا کپڑا نہیں بلکہ عزت و محبت کی بھی ضرورت ہوتی ہے۔"
"اور آپکی یہ بات درست ہے کہ خلع یا طلاق
یافتہ عورتوں کی معاشرے میں کوئی عزت نہیں ہوتی ہے۔مگر یہ معاشرہ بناتا کون ہے؟آخر
ہم اور آپ جیسی سوچ کے لوگ ہی تو اس معاشرے کی تعمیر کرتے ہیں۔اللہ کے لئے اپنی اس
سوچ کو بدلیں۔آپ جیسے لوگوں اور معاشرے میں نام و نہاد عزت گنوانے کے خوف سے بیٹیاں
ظلم سہتی رہتی ہیں،خاموشی سے لب سیے برداشت کرتی رہتی ہیں اور کسی دن ایک باپ کی شہزادی،اپنی
ماں کی آنکھوں کی ٹھنڈک معاشرے کے بنائے عزت کے پیمانے کی نذر ہو جاتی ہے۔"
"ایک لمحے کے لئے سوچیں کہ اگر عذرا کی جگہ
آپ کی بیٹی ہوتی تو کیا تب بھی اسکے زخم،اسکے آنسو آپ کو نظر نہیں آتے؟دوسروں کی بیٹیوں
کے لئے ہم اتنے بے حس کیوں ہو جاتے ہیں؟میں گھر اور رشتوں کو توڑنے کی حمایت نہیں کر
رہا ہوں۔مگر جس چیز کو اللہ نے جائز قرار دیا ہے اسے مشکل نہ بنائیں۔طلاق یافتہ عورت
معاشرے کے لئے گالی نہیں ہوتی ورنہ اللہ کے رسولۖ نے حضرت
زینب بنت جحش رضی اللہ عنھا سے نکاح نہ کیا ہوتا۔"وہ اپنی بات ختم کر کے پلٹ گیا
تھا۔لوگ اسکے پیچھے خاموشی سے تتر بتر ہونے لگے۔شائد بات انکی سمجھ میں آ گئی تھی۔
---------ختم شد---------
COMMENTS