Barkha By Sadaf Adnan Short Story برکھا صدف عدنان آج صبح سے موسم ابر آلود تھا کالے بادلوں نے تمام آسمان کو گھیر رکھا تھا۔ دن میں بھی را...
Barkha By Sadaf Adnan Short Story
برکھا
صدف عدنان
آج صبح سے موسم ابر آلود تھا کالے بادلوں نے تمام
آسمان کو گھیر رکھا تھا۔
دن میں بھی رات کا سماں تھا, فضا کی طرح دل کو بھی اداسی ایسے
موسم میں اپنی لپیٹ میں لے لیتی ہیے۔۔
تمام زخم
جو مندمل ہوچکے ہوتے ہیں وہ پھر سے ادھڑنے لگتے ہیں۔۔
گرم موسم کی بارش ہو تو برستی بوندوں میں تن من بگھو کر روح کو کسی حد تک قرار آ ہی جاتا
ہے ۔۔
مگر سرد بارشیں اندر سب منجمد سا کردیتی ہیں ۔ ٹھنڈی
چوٹوں کی طرح تکلیف دیتی ہیں۔۔
سارا
بھی آج صبح سے اسی احساس کی زد میں تھی ۔
کیا تھا جو
زندگی میں اس نے نہیں پایا تھا اور کیا تھا جو اس نے نہیں گنوایا تھا۔۔۔
سود و زیاں کا حساب خود سے لینا اتنا بھی کوئی سہل
کام بھی تو نہیں ۔۔
ہاتھ میں چائے کا کپ تھامے وہ کھڑکی کے پاس جا بیٹھی
اور یادوں کی سرد برستی برکھا میں وہ آنکھیں بند کیے ڈوبتی چلی گئی۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یونیورسٹی کا کیمپس اور وہ بارش کی تنی ہوئی چادر
سب سردی کی پہلی بارش کو دور کھڑے ہوکر اس
سےلطف اندوز ہورہے تھے ۔۔۔
"حد ہے ایسا موسم اور یوں ترس ترس کے دیکھنا" اس نے کتابیں اپنی
دوست کو تھمائیں اور چشم زدن میں وہ گراؤنڈ میں اکیلے بھیگ رہی تھی..
سب کے منہ کھلے رہ گئے تھے اسے اس طرح بھیگتے ہوئے دیکھ کے۔ حارث سرد موسم کی پروا کئے بغیر اس کی طرف لپکا اور اس کو بازو سے پکڑ کر شیڈ میں لے آیا ۔۔۔
دونوں کے چہرے اور بالوں سے پانی ٹپک رہا تھا وہ جو ڈانٹنے کے ارادے سے اس کے پاس آیا تھا اس کے
بھیگے حسن سے گھایل ہو کر خاموش تھا ۔۔۔
دونوں ایک دوسرے کے سامنے بت بنے کھڑے تھے۔ کیوپڈ
کا تیر دونوں کو ایک ساتھ گھائل کر گیا تھا۔۔۔
سارا سر کو جھٹک کے ہنس پڑی یادوں کا در کھلنے کی
دیر تھی بس پھر نا تھمنے والی ہاداشتیں تھیں
جو دل پہ رقم تھیں ۔۔
محبت کو پالینے کا نشہ دنیا کے کسی بھی خمر سے بڑھ
کے ہے اور وہ بھی مبتلاء عشق ہوچکے تھے ۔۔۔
گزرتے وقت کے ساتھ ان کی پسندیدگی چاہت اور چاہت
محبت میں بدل گئی لیکن باقاعدہ اظہار دونوں جانب سے نہیں ہوا تھا ۔دونوں ایک دوسرے
کے جذبات تک رسائی رکھنے کے باوجود خاموشی سے اس احساس کو دل میں چھپائے ہوئے تھے
۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ایک دن حارث اسانمنٹ بناتی سارا کو بغور دیکھ رہا
تھا۔اس کی نظروں کا ارتکاز محسوس کرکے اس نے مسکراتے ہوئے ابرو اچکا کے اس کے اسطرح
دیکھنے کی وجہ پوچھی
"کچھ نہیں تم اپنی ناک میں کچھ پہنتی کیوں
نہیں؟؟ وہ نظروں کی چوری پکڑے جانے پہ چھینپتے ہوئے بولا
"مطلب ؟؟ اس نے پوچھا
" وہ جو لڑکیاں پہنتی ہیں کوکا یا نوز پن۔
پسند نہیں کیا تمھیں؟؟" اس نے اپنی بات وضاحت کی ۔۔
" اوہ!! وہ تو بہت پسند ہے لیکن
۔۔۔" اس نے سر نیچے کرتے ہوئے بات ادھوری چھوڑ دی
" لیکن کیا؟؟ اس نے اپنی بے تابی چھپاتے
ہوئے پوچھا
"وہ ...شادی... کے بعد پہنتے ہیں" اس
نے اٹکتے ہوئے کہا
حارث اس کے چہرے پہ اترتی ست رنگی دھنک کو دیکھ
کر مسکرانے بغیر نا رہ سکا۔
سمسٹر کے آخر میں ہونے والی چھٹیوں پہ گھر گئے حارث نے اپنی اماں کا اچھا موڈ
دیکھ کر ان کو اپنی پسندیدگی سے آگاہ کردیا ۔۔۔
روایتی ماؤں کی طرح تھوڑے پس وپیش کے بعد انہوں
نے اپنی رضامندی دے دی ۔۔
وہ سارے خواب جو اس نے بعد کے لیے بچا رکھے تھے
اب وہ ان کا ریشم بننے لگا تھا ۔ اپنے ہر احساس سے سارا کو آگاہ کرنے کے لیے اس نے
بے چینی سے باقی ماندہ چھٹیاں گزاریں ۔۔۔
وقت کو پر لگ جائیں اور وہ اس کے روبرو ہو جائے
ہر گزرتا دن اس کی بے کلی میں اضافہ ہی کر رہا تھا۔۔۔
اس دن بازار سے گزرتے ہوئے سارا کے لیے کسی تحفہ
لینے کے خیال نے اس کے قدم ایک سنار کی دکان کے سامنے روک لیے ۔۔۔
اس نے سنار سے ایک ناک کی لونگ خریدی ۔سونے کی بڑھی
ہوئی قیمت کی وجہ سے وہ زرہ برابر تحفہ اس کی جیب پہ کافی بھاری تھا مگر دل کا ارمان پورا کرنے کا احساس
ہر شے پہ حاوی تھا۔۔۔
آج وہ یونیورسٹی جانے کے لیے تیار تھا ۔بیگ میں
تحفے کی چھوٹی سی ڈبیا کی موجودگی کو یقینی بنانے کے لیے بار بار دیکھ رہا تھا ۔
آج صبح سے ہی آسمان کو بادلوں نے گھیر رکھا تھا۔۔وہ
موسم کی ادا کو یاد کر کے مسکرا رہا تھا۔۔
سارا کے پسندیدہ موسم میں اس کو اپنے حال دل سے
واقف کرنے کی خوشی اس کے حواسوں کو مختل کررہی تھی۔۔
کیمپس پہنچتے پہنچتے موسم اپنے جوبن پہ تھا ۔اس
کی نظریں بےقراری سے سارا کو ڈھونڈ رہی تھیں۔۔
آخر انتظار
کی اذیت ختم ہوئی اور وہ دشمن جاں سامنے روش پہ چلتی ہوئی دکھائی دی ۔۔
بارش کی پروا کیے بغیر وہ اس کے پاس پہنچا ۔ ۔حارث
نے ڈبیا جیب سے نکال کر اپنی مٹھی میں قید کرلی تھی ۔۔۔
وہ دونوں
برستی بارش میں ایک دوسرے کے مقابل تھے۔سارا نے خلاف توقع اس کی موجودگی کو اپنے پاس
محسوس کرکے بھی اپنی نظریں نا اٹھائیں ۔۔
حارث نے کچھ کہنے کے لیے لب کھولے ہی تھے کہ اس
کی نظر اس کے حنائی ہاتھوں سے ہوتی ہوئی اس کی ناک کی لونگ پہ رک گئی ۔۔۔۔
حارث اس گمان
میں ہی رہا کہ برستی بارش کی چادر میں اس کے ہاتھ سے گرنے والی تحفہ کی ڈبیا سارا کی نظروں سے اوجھل رہی ہوگی۔۔۔
۔۔۔اختتام۔۔۔
COMMENTS