Allah Na Kare By Zaid Zulifqar اللّٰہ تم سب کا حامی و ناصر ہو " اسلم صاحب نے بیگ کندھے پہ ڈالا، دعا دی اور نکل گئے۔ ایک چھ سال کا بیٹ...
Allah Na Kare By Zaid Zulifqar
اللّٰہ تم سب کا حامی و ناصر ہو "
اسلم صاحب نے بیگ کندھے پہ ڈالا، دعا دی اور نکل گئے۔ ایک چھ سال کا بیٹا، ایک چار سال کی بیٹی اور آٹھ ماہ کی پریگننٹ بیوی۔
" امی کا خیال رکھنا "
جاتے جاتے چھ سالہ بیٹے کو ہدایت کر گۓ۔ اس رات جب ماں درد سے چلا رہی تھی تو وہ ماں کے بازو سہلاتا رہا تھا۔
" آپکو کیا ہوا ماما ؟ آپ کا خیال رکھوں ؟ مجھے بتائیں میں کیا کروں ؟؟؟ "
وہ کچھ بھی نہیں کر سکتا تھا۔ پوری رات ایسے ہی گزری۔ اگلی صبح دائ ماں آئی تو وہ مردہ بچے کو جنم دے چکی تھیں۔ درد سے بے حال، تکلیف سے نڈھال
" ہاۓ اللّٰہ۔۔۔ اسلم ایسے حالوں میں چھوڑ کر چلا گیا ؟؟ تو نے روکا بھی نہیں ؟؟؟ "
انہوں نے روکا تھا ایک بار، بہت پہلے جب بیٹی ہونے والی تھی۔ وہ اس پہ لاحول پڑھ کر پھونک گۓ تھے۔
" اللّٰہ کی راہ سے روکو گی تو فلاح پاؤ گی ؟؟؟ دین کے پرچار کا معاملہ ہے اور تمہیں اپنی پڑی ہوئی ہے۔ تبھی جہنم میں عورتیں زیادہ ہوں گی "
اب کی بار وہ چِلے پہ جانے کے لئیے نکلے تو انہوں نے کچھ بھی نہیں کہا۔
" اللّٰہ میرا اور میرے بچوں کا نگہبان ہے "
" اسے فون کر "
وہ پہلے ہی کر چکی تھیں۔ انہوں نے خاموشی سے سنا، انا للّٰہ وانا الیہ راجعون پڑھا اور کہا میرے نوافل کا وقت ہے، خدا حافظ۔
خیر۔۔۔۔ دو ہفتے بعد ہی وہ کام پر چلی گئیں۔ پڑوس کے دو گھروں میں صاف صفائی اور برتن دھونے کا کام تھا۔ مالکن دیکھ کر حیران
" دو دن آرام تو کر لیتی "
وہ دو دن آرام کرتیں تو بچے دو دن فاقہ کرتے ؟؟؟؟
اسلم صاحب تو جاتے ہوۓ جو چار لال نوٹ انہیں تھما گۓ تھے، وہ کب کے خرچ ہو چکے تھے۔ انہیں ویسے بھی مال و دولت، روپے پیسے سے نفرت تھی۔ دنیوی چیزیں۔ ہونہہ۔ انہیں نا پسند کیا گیا تھا۔ جو دنیا کا مال اسباب جمع کرنے میں لگے رہتے ہیں، وہ بس انہی کے ہو کر رہ جاتے ہیں۔ انہیں تو آخرت کمانا تھی۔ تبھی تو سال کے بارہ مہینوں میں سے دس وہ اللہ کی راہ میں گزارتے تھے۔ اسکے دین کی تبلیغ۔ اسکی تعلیمات کا پرچار۔
ایک بار انکے سسر نے کہا
" میاں ویرانے میں کٹیا بسا لینے سے، اللّٰہ اللّٰہ کرنے سے وہ مل نہیں جاۓ گا، کچھ گھر بار کی بھی پرواہ کرو، اب خاندان والے ہو "
وہ بہت دیر تک استغفار کرتے رہے۔ بعد میں وہ کبھی سسرال نہیں گۓ۔
" ارے انہوں نے کہا کیسے یہ سب۔ خود تو دن کی پانچ نمازیں پوری نا پڑھیں کبھی اور دوسروں کو۔۔۔۔ توبہ توبہ "
ایک بار گھر آۓ تو بچوں نے لاڈ سے کہا۔
" اب آپ بس ہمارے پاس رہیں۔ اچھا چلیں چالیس دن باہر رہے ہیں، اب چالیس دن ہمارے "
وہ مسکرا دئیے
" دین اور دنیا کو برابری نہیں دیتے بچو۔ یہ دو تیرے اور دو تیرے والی بات نہیں۔ اصل زندگی تو بس وہی ہے جو اسکے راستے میں گزار دی "
بڑے بیٹے کی طبیعت بہت خراب ہوگئی تھی۔ بخار۔ ٹائفائیڈ۔ آرام ہی نہیں آرہا تھا۔ وہ چالیس دن کے لئیے جماعت کے ساتھ گۓ تھے۔ بیوی نے رو رو کر واپس بلوایا۔ وہ بہت ناراض ہوۓ۔
" علاج کروا لیتی کم بخت۔ میں طبیب تھوڑی نا ہوں۔ اب سارا اسکی پٹی سے لگا بیٹھا رہوں ؟؟؟ "
اگلی بار وہ گۓ تو فون گھر ہی چھوڑ گۓ۔
" میری راہ کھوٹی نا کرو۔ مجھے اسے پالینے دو۔ "
وہ اسکی کھوج میں لگے رہے۔ وقت اپنے مدار میں گھومتا رہا۔
کسی کسی دن تو گھر میں روٹی بھی نہیں ہوتی تھی۔ عید شب رات پہ وہی سالوں پرانے کپڑے۔ انہی حالوں میں وہ بیٹا نجانے کیسے پڑھ لکھ گیا۔ بہن بیاہ دی۔ ماں بوڑھی لاچار بستر سے جالگی۔ اب کی بار وہ گھر سے نکلے تو بیوی بسترِ مرگ پہ تھی۔
" ابو کچھ دن رک جائیں۔ انہیں آپکی ضرورت ہے "
" اللّٰہ اسکی مشکل آسان کرے "
انہوں نے دعا دی، بیوی کا ماتھا تھپتھپایا
" میں جا رہا ہوں، اللّٰہ تمہارا حامی و ناصر ہو "
وہ چلے گۓ۔
پیچھے پیچھے وہ بھی چلی گئیں۔
ان سے رابطہ نہیں ہو پایا۔ وہ فون لیکر ہی نہیں جاتے تھے کہ پیچھے والے پیروں کی بیڑیاں نا بن جائیں۔ ویسے بھی وہ اب کیا کر لیتے۔ وہ رکعت نماز۔ وہ کئی رکعات پڑھ سکتے تھے۔
خیر۔۔۔۔
وہ آتے جاتے رہے۔ ایک بار بیٹے کی شادی کر کے گۓ۔ اگلی بار آۓ تو بہو امید سے تھی۔ اگلی بار آۓ تو بیٹے کے پاس وہ ننھا سا بیٹا تھا۔ انہوں نے گود میں بھرا۔ پیار کیا
" ما شا اللّٰہ۔ میرا بیٹا اپنے دادا جیسا ہے۔ اپنے دادا جیسا ہی بنے گا "
پاس کھڑا بیٹا دہل گیا۔ یوں لگا گویا باپ نے اسکی اولاد کو بد دعا دے ڈالی ہو۔ اسے جلدی سے لیا اور اپنے سینے سے لگا لیا۔
" اللّٰہ نا کرے۔۔۔۔۔ اللّٰہ نا کرے۔۔۔۔۔۔ "
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دین میں ترکِ دنیا نہیں ہے
( سورت الحدید آیت نمبر 27 )
COMMENTS