Main Bhi Insan Hon By Ghulam Mustafa Shah Short Story Novel Name : Main Bhi Insan Hon Author Name: Ghulam Mustafa Shah Category : Short ...
Main Bhi Insan Hon By Ghulam Mustafa Shah Short Story
Novel Name : Main Bhi Insan Hon
Author Name: Ghulam Mustafa Shah
Category : Short Story
Novel status : Complete
Novel description :
Assalam o Alaikum
Here is an awesome opportunity for all social media writers. If anyone is interested and want to publish their writings on our web then He / She can approach us through Email or our social media page.
knofficial9@gmail.com
whatsapp _ 0335 7500595
میں بھی انسان ہوں
غلام مصطفیٰ شاہ
"میں ساحرہ بائی عرف ساحر"۔پیدا
ہوا تو دائی نے میری ماں کے کانوں میں سیسیہ انڈیل دیا یہ کہہ کر آپکے گھر ہیجڑا پیدا
ہوا ہے۔جسے دنیا والے کھسرا،ہیجڑا،تیسری جنس کے نام سے پکارتی ہے۔۔جسے دنیا والے انسان
نہیں سمجھتے۔۔۔جسے جینے کا کوئی حق نہیں ہوتا۔۔۔۔۔جسے ہر طرف سے دھتکار ملتی ہے۔۔۔۔جسے
ہر کوئی نالی کا کیڑا سمجھتا ہے۔۔۔۔جِسے سب لوگ دنیا کی سب سے گندی اور بڑی گالی بنا
کر مار دیتے ہیں۔۔انسان ہیں نہ خود کو بلکل پرفیکٹ سمجھتے ہیں۔۔۔اور اگلے بندے کو بندہ
ہی نہیں سمجھتے۔۔۔ میری ماں نے مجھے کلیجے سے لگایا۔۔۔۔
ماں تھی نہ.....""""؟؟؟
کیسے اپنی گود اپنے ہاتھوں
سے اُجاڑ دیتی۔؟؟؟
کیسے وہ ایک،ایک لمحہ بھول
جاتی جو اس نے اپنے اندر پلنے والے ایک جیتے جاگتے وجود کو نشوونما پاتے محسوس کیا۔۔۔۔ان
دیکھا من چاہا احساس محسوس کیا۔۔۔۔۔؟؟؟
کیسے وہ ماں پورے نو ماہ کی
مشقت بھول جاتی؟؟
اپنے کھانے،پینے اٹھنے،بیٹھنے،،سونے،جاگنے
کو قربان کرنے والی ماں کیسے بھول جاتی اسے؟؟؟؟
""ماں تو ماں ہوتی ہے""
کیسے وہ اپنے جگر کا ٹُکڑا
خود سے جدا کرکے دنیا کو خوش کرتی۔۔۔۔۔؟؟؟
دنیا والے بس جنس دیکھتے ہیں۔۔۔۔لیکن
کوئی ماں کو کیوں نہیں دیکھتا۔۔۔؟؟؟
کیوں ماں اپنے بچے کے ساتھ
جی نہیں سکتی۔۔۔؟؟
کیوں ماں کی گود ہر روز اسے
طعنے دے،دے کر پھلتے،پُھلتے ہوئے بھی اُجاڑ دی جاتی ہے۔۔۔؟؟
انسان اشرف المخلوقات ہیں۔۔۔
کہاں لکھا ہے کہ تیسری جنس
کو زندہ مت رہنے دو۔۔۔؟؟؟
کہاں لکھا ہے تیسری جنس کو
یوں ہمیشہ گالی دے کر مخاطب کرو؟؟؟
کہاں۔۔۔۔۔کہاں۔۔۔۔۔کہاں؟؟؟؟؟
ہر ساحر کا پوری دنیا سے یہی
سوال ہوگا۔۔۔کیا میں انسان نہیں ہوں؟؟؟
کیا یہ شناخت کافی نہیں ہم
جیتے جاگتے انسان ہیں۔۔۔
ہم بھی اللہ کی پیاری مخلوق
ہیں۔۔۔ہمیں بھی جینے کا پورا حق ہے۔۔۔۔ہم بھی دل رکھتے ہیں۔۔۔ہمیں بھی درد ہوتا ہے۔۔۔ہمیں
بھی عام انسانوں کی طرح بھوک لگتی ہے۔۔۔
خود کو ختم کرنا آسان حل ہوتا
تو آج ہر ساحر اس دنیا میں نہیں رہتا۔۔۔چھوڑ دیتا اس دنیا کو جو محض دھوکہ ہے مگر جینے
کسی کو نہیں دیتی۔۔۔سکون کا سانس لینا دوبھر کردیا جاتا ہے۔۔زندہ درگور کردیا جاتا
ہے۔۔۔جہالت میں جی رہے سب کے سب۔۔۔۔۔۔
میری نظر میں آجکل نامرد وہ
شخص ہے جو بیوی کو پاؤں کی جوتی سمجھتا ہے۔۔۔۔
نامرد وہ ہے جو گالی دے کر
بات کرتا ہے۔۔۔
نامرد وہ نہیں جو تیسری جنس
کے ادھورے لوگ ہیں۔۔۔
نامرد باقی لوگ ہیں جن کی
سطحی سوچ انہیں مرد نہیں بننے دیتی۔۔۔
میری ماں نے جہاں مجھے کلیجے
سے لگایا وہیں میرے باپ نے بھی مجھے ناز نم سے پالا۔۔۔جوں ،جوں میں بڑا ہوتا گیا۔مجھے
اپنے اندر کچھ تبدیلیاں محسوس ہونے لگیں۔۔۔مجھے لڑکیوں والے شوق تھے۔۔۔گڑیا سے کھیلتا۔۔۔۔۔ماں
کاآنچل تھام کر اسکا میک اپ اٹھا کر استعمال کرنے کا دل کرتا۔۔۔۔۔
ماں باپ نے تو ویسے ہی مجھے
قبول کرلیا تھا۔۔۔۔اب میں گھر میں ہی کبھی ،کبھی ماں کا کوئی سوٹ پہن کر خوب میک اپ
کرتا اور میرے ماں باپ مجھ پے صدقے واری جاتے۔۔۔ان کی نظر میں۔۔۔ میں ایک انسان اور انکی پیاری اکلوتی اولاد تھا۔۔۔وہ
مجھے کبھی نامکمل نہیں سمجھتے تھے۔۔۔۔۔
میری ماں نے مجھے پڑھا کر
دس پاس کروائیں۔۔۔جب پیپر دینے جاتے میری ماں میری ڈھال بن کر لوگوں کی نظروں اور انکی
باتوں سے میری حفاظت کرتی۔۔۔
یوں پتہ ہی نہ چلا کب میں
جوانی کے دور میں قدم رکھنے لگا۔۔۔۔خوبصورتی تو لگتا تھا صرف میرے لیے ہی بنی ہے۔۔۔۔۔اگر
اللہ نے نامکمل پیدا کیا تھا تو اسکے متبادل میں مجھے بے شمار خوبصورتی بھی دی تھی۔۔۔مدہوش
کرنے والا حسن دیکھ کر اکثر میری ماں اندر ہی اندر کانپ جاتی تھی۔۔۔آخر کب تک وہ میری
اس غلیظ دنیا سے حفاظت کرتیں۔۔۔وہ اندر ہی اندر گُھل رہی تھیں۔۔۔۔میرے باپ کا گلی میں
نکلنا محال تھا۔۔۔سب رشتہ داروں نے مجھے قبول کیا کرنا تھا الٹا میرے گھر والوں سے
ہی قطع تعلقی کرلی۔۔۔۔
میرے باپ کو کوئی دوکان والا
راشن نہیں دیتا تَھا۔ سبزی لینے جاتے تو سب کہتے ساحر کو بھیجا کرو کب تک چھپا کر رکھیں
گے۔۔۔(تحریر غلام مصطفی شاہ)۔
میں سمجھ چکا تھا۔۔۔۔۔میں
عام انساں کی طرح زندگی نہیں گزار سکتا۔۔۔۔میں بظاہر لڑکوں جیسا تھا مگر میرے اندر
بلکل لڑکیوں والے شوق اور انداز تھے۔۔۔۔اب یہ قدرت دنیا والے سمجھ نہیں سکتے تھے۔۔۔انہیں
بس تنقید کرنا تھی۔۔۔میرے جسم کو گھورنا تھا۔۔۔مجھے چھو کر بے مول کرنا تھا۔۔۔مجھے رُلا کر زہنی تسکین حاصل کرنی تھی۔۔۔
میرے جسم کے چِتھڑے اُڑانے
تھے۔۔۔اپنی جسمانی تسکین کی خاطر مجھے نوچنا،گسوٹنا تھا۔۔۔۔
مگر کہتے ہیں نہ جن کی قسمت
ادھوری ہو وہ مکمل کیسے ہوسکتے ہیں۔۔۔۔؟؟؟؟
میرا نام میرے باپ نے بڑے
پیار سے ساحر رکھا تھا۔مگر پھر بھی سب مجھے کبھی گندی نالی کا کیڑا،،،،ساحرہ بائی،،سحر
بائی یا چھمک چھلو کہہ کر بلاتے۔۔۔سکول جاتا تو سب مزاق اڑاتے یوں میری ماں میری استاد
بن گئی اور گھر میں پڑھانے لگی۔گھر والے لاکھ پیار سے دیکھتے دنیا والے مجھے وحشت سے
دیکھتے جیسے میں انسان نہیں ہوں۔
قیامت اس دن آئی جب میرا باپ
اس دنیا سے رخصت ہوا۔۔۔
اس دن میں بہت رویا تھا۔۔۔اتنا
رویا کہ میرے آنسوؤں سے ایک چشمہ بن جاتا۔۔۔
میرے اندر کوئی چیخ. چیخ کر
کہہ رہا تھا ساحر تمہارے جینے کا مقصد یہیں تک تھا تم اب روز مرو گے۔۔۔
ایک سائباں بچھڑ چکا تھا۔۔۔
جو شخص مجھے دنیا کی سرد،گرم
ہوا سے بچا کر رکھتا تھا آج مجھے تنہا کر گیا تھا۔۔
میں پھوٹ ،پھوٹ کر رو رہا
تھا۔۔
اگر لفظ قیامت کوئی پوچھے
تو اس وقت میں اس شخص کو باآسانی بتا سکتا تھا۔۔۔یہ ہوتی ہے قیامت جب کسی کا باپ اس
دنیا سے رخصت ہوتا ہے تب ہوتی ہے قیامت۔۔۔۔۔دنیا کی نظریں یک دم بدلی تھیں۔۔۔
میں باپ کی چارپائی سے سر
ٹکائے ویراں آنکھوں سے انہیں یک ٹک دیکھتا رہ گیا۔۔۔۔کتنا سفر کیا تھا۔۔۔کتنی مشقت
میرے باپ کے چہرے سے عیاں تھی۔۔۔ایسے لگتا تھا وہ بہت سالوں سے تھکے ہوئے تھے اور اب
وہ ابدی سکون کی نیند سونا چاہتے تھے۔۔۔ ایسے لگ رہا تھا وہ بہت گہری نیند کو محسوس
کررہے تھے نیند کیسی ہوتی ہے۔۔۔۔میں ہار چکا تھا۔۔۔میں ٹوٹ گیا۔۔۔ہاں میں ٹوٹ رہا تھا۔۔۔۔میرے
اندر سے جینے کا حوصلہ ٹوٹ رہا تھا۔۔۔
جب میرے باپ کو کندھا دینے
کی باری آئی مجھے کسی نے ہاتھ بھی نہیں لگانے دیا۔۔۔
میرے نازک کندھے زیادہ وزن
برداشت نہیں کررہے تھے۔۔۔
آخر انہیں منوں مٹی تلے دبا
کر میں گھر آگیا جہاں میری ماں بہت بدحال تھیں۔۔۔
ہمارا اللہ کے بعد واحد سہارا
چِھن چکا تھا۔۔۔
کچھ دن لوگوں نے کھانا وغیرہ
دیا آہستہ،آہستہ سب دور ہوتے چلے گئے۔۔۔۔کچھ لوگ آتے اور میری ماں اور مجھے غلط راہ
پر چلنے کا کہتے ہمیں برائی پر اُکساتے ۔۔۔۔۔میری ماں چھ ماہ تک روتی تڑپتی رہی۔۔۔۔وہ
اکیلے خود کی اور میری حفاظت کرتے تھک چکی تھیں۔۔۔۔پھر ایک دن میں ناشتہ لیے ان کی
چارپائی کے پاس گیا اور انہیں زور زور سے ہلایا۔۔۔۔مگر وہ تو جا چکی تھیں۔۔۔۔۔کتنے
لمحے تو میں یقین ہی نہ کرسکا۔۔۔۔۔۔اتنا بڑا غم میں برداشت کرنا ہی نہیں چاہتا تھا۔۔۔
میں اس بار بلکل بھی نہیں
رویا۔۔۔۔میرے آنسو تھم گئے۔۔۔لبوں کو سی لیا۔۔۔دل کو پتھر کرلیا۔۔۔۔چپ کا روزہ رکھ
لیا۔۔۔کب میری ماں کو دفنایا گیا کب لوگ آئے اور گئے مجھے کوئی ہوش نہیں تھا۔۔۔آخر
یہ معاملہ بھی ٹھنڈا ہوا۔۔۔
پھر وہی لوگوں کی ہوس زدہ
نظریں۔۔۔
پھر وہی واہیات۔۔۔۔۔ماں باپ
سر پر تھے نہیں۔۔۔۔لوگوں نے مجھے اس گھر سے بھی نکال دیا۔۔۔۔
سب کو اپنی عزت کی فکر تھی۔۔۔انہیں
لگتا تھا میں کالک ہوں جو ان کے محلے کے لیے بدنامی کا باعث ہے۔۔۔۔
لوگوں نے میرا ذاتی گھر ہتھیا
لیا۔۔۔میں دربدر ہوگیا۔۔۔
جہاں نوکری کے لیے جاتا سب
آفر کرتے ہمارے ساتھ جسمانی تعلق بناؤ۔۔۔۔کب تک بھاگتا۔۔۔۔؟؟؟
کب تک نصیب سے لڑتا؟؟؟
یہاں چاروں طرف درندے ہی درندے
تھے۔۔۔۔۔۔میں اکیلا کب تک بوجھ اُٹھاتا؟؟
پیٹ پر پتھر باندھ کر روڈ
پر بیٹھ گیا۔۔۔بھیک مانگنے لگا۔۔۔
ایک صاحب گاڑی کا شیشہ نیچے
کرتے ہوئے پاس آئے اور منہ شیشے سے باہر نکال کر میرے پھیلے ہاتھ پر تھوک دیا۔۔۔۔
آہ۔۔۔۔۔۔یہ تکلیف۔۔۔۔یہ زلت
میری آنکھوں سے آنسو ٹِپ ،ٹِپ بہنے لگے۔۔۔۔(تحریر غلام مصطفی شاہ) میں صبر کر گیا گاڑی
اگے بڑھ گئی۔۔۔۔۔پورے دن کی زلت اُٹھانے کے بعد صرف بیس روپے میرے پاس تھے۔۔۔۔پاس کی
دوکان سے ڈبل روٹی خریدی اور وہیں فٹ پاتھ پر بیٹھ گیا۔۔۔۔
میرا رنگ کافی گورا تھا میں
نے خود اپنے ہاتھوں سے اپنے منہ پر کالک ملی تاکہ لوگ میری طرف متوجہ نہ ہوں۔۔۔۔مگر
کچھ لوگ تو بس ہوس زدہ ہوتے ہیں انہیں رنگ،نسل،جنس،کپڑے،بدبو سے کوئی سروکار نہیں ہوتا۔۔۔۔
میرا دل چاہا اب بس بہت جی
لیا آخر ہمت کرتے ہوئے میں اُٹھا اور بیچ روڈ پر جا کر کھڑا ہوگیا۔۔۔چلتی گاڑیوں کی
زِد میں آکر آج مجھے مرجانا تھا.۔۔۔
پر قسمت میں درد ابھی باقی
تھے۔۔۔۔بند آنکھوں سے میں موت کا انتظار کرنے لگا۔۔۔۔۔کسی نے پکڑا کر مجھے زور سے پرے
دھکیلا میں نے آنکھیں کھولیں۔۔
لگ،بھگ میری ہی عمر کا ایک
لڑکا مجھے گھور رہا تھا۔۔۔
کیوں بچایا مجھے؟؟؟
کس رشتے سے بچایا؟؟؟
مر جانے دیا ہوتا...
مجھے نہیں جینا۔۔۔۔
انسانیت کے ناتے بچایا ہے۔۔۔
انسانیت ہاہاہاہاہا لگتا ہے
آپ بھی میری طرح ادھورے ہیں جبہی انسانیت کا لفظ بولا۔۔میں نے چبا،چبا کر بولا۔۔۔۔
جو مرضی کہہ لو مجھے اپنا
دوست سمجھو۔۔۔۔میں تمہیں کوئی نقصان نہیں پہنچاؤں گا۔۔۔
تم اپنی حالت درست کرو اور
چلومیں تمہیں کھانا کھلاتا ہوں۔۔وہ لڑکا مجھے ساتھ لے گیا۔۔۔مجھے کھانا کھلایا۔۔۔میرا
منہ دُھلایا۔۔۔اور ہم نے بہت باتیں کی۔۔۔وہ چلا گیا۔۔۔روز ہم ملنے لگے۔۔۔۔میری اس سے
اچھی دوستی ہوگئی۔۔۔ایک دن اس نے کہا وہ مجھے
اپنا گھر دکھانا چاہتا ہے۔۔۔۔میں نے اسکی بات پر یقین کرتے ہوئے ساتھ چلنے کی حامی
بھرلی۔۔۔۔ہم لوگ ساتھ،ساتھ ایک بلڈنگ میں داخل ہوئے آج اس لڑکے کے لائے کپڑوں کی بدولت
میرا جسم ڈھکا ہوا تھا۔۔۔۔میں قدرے بہتر حالت میں تھا۔۔۔۔۔گھر میں داخل ہونے کے بعد
میں نے بہت تعریف کی۔۔۔وہ گھر نہیں کوئی محل تھا۔۔۔۔شدت سے دل چاہا کاش میرا بھی ایسا
گھر ہوتا اگلے لمحے خود کو سرزنش کرتے میں نے خیال جھٹکا۔۔۔۔۔
وہ لڑکا میرے لیے چائے لے
آیا۔۔۔ہم ادھر اُدھر کی باتیں بھی کررہے تھے اور چائے بھی پی رہے تھے۔۔۔۔اچانک گھر
میں چار لڑکے داخل ہوئے تھے۔۔۔جنہیں دیکھ کر مجھے سخت برا لگا۔۔۔۔اپنے ساتھ کچھ غلط
ہونے کے ڈر سے میں اٹھ کر چلنے ہی والا تھا اُٹھتے ہی لڑکھڑا گیا۔۔۔۔چائےمیں کچھ ادوا
ملائی گئی تھی۔۔۔۔
انسانیت۔۔۔۔۔۔دوست۔۔۔۔۔میں
دوسروں جیسا نہیں ہوں۔۔۔۔۔میں تمہیں نقصان نہیں پہنچاؤں گا۔۔۔۔۔مجھ پر بھروسہ کرو۔۔۔۔۔آؤ
تمہیں کھانا کھلاؤں۔۔۔۔یہ کپڑے بدل لو۔۔۔۔۔یہ چائے پی لو۔۔۔۔۔آؤ میرے گھر آؤ تمہیں
اپنا گھر دکھاتا ہوں۔۔۔۔۔۔بہت سارے الفاظ گڈ مڈ ہوئے میرے زہن کی سکرین پر ابھر کر
مدھم ہورہے تھے۔۔۔۔۔۔کیسا دھوکہ ہوا تھا۔۔۔۔
بے ہوش ہونے سے پہلے میں نے
ان پانچوں کے قہقہے سنے تھے۔۔۔اور وہیں گر گیا۔۔۔۔۔۔
آہ۔۔۔۔۔۔۔انسان انسانیت کے
نام پر لوٹنے والے۔۔۔۔۔
آہ۔۔۔۔۔۔انسان تیرے کتنے چہرے
ہیں۔۔۔
آہ۔۔۔۔۔۔انسان تجھے مکمل اس
لیے نہیں بنایا تو دوسروں کو لُوٹے۔۔۔۔
آہ۔۔۔۔۔۔۔انسان تیرے ہر وار
پر رونا آیا۔۔۔۔
آہ۔۔۔۔۔۔انسان تو ہر وقت بھوکا
بھیڑیا کیوں بنا رہتا ہے۔۔؟
آہ۔۔۔۔۔۔انسان تو انسان کہلانے
کے لائق نہیں ہے۔۔۔
مجھے جب ہوش آیا میں کچرے کے ڈھیر پر بے ہوش زخموں سے چُور پڑا
تھا۔۔۔
ہائے۔۔۔۔۔ہائے۔۔۔۔۔ہائے۔۔۔۔۔۔
میں جو ماں کے مرنے پر بھی
نہیں رویا تھا۔۔۔۔آج ماں،باپ اور اپنے غم پر اتنا رویا کہ عرش بھی کانپ اُٹھا۔۔۔
میری چیخیوں سے کسی کو کوئی
سروکار نہیں تھا۔۔۔
میں بمشکل لڑکھڑا کر چلتا
ہوا اُٹھا دیوار میں سر مار،مار کر رونے لگا۔۔۔
ہائے دنیا تو اتنی ظالم ہے
میں کسی کو معاف نہیں کروں گا۔۔۔
میں اللہ سے جا کر کہوں گا
دیکھ تیری دنیا میں تیرے بندے کیسے ،کیسے برباد کرتے ہیں۔۔۔
میں ٹوٹ چکا تھا۔۔۔۔
کوئی درد باقی نہیں رہا تھا۔۔۔سارے
درد میں نے خود میں سمو کر آج اتنی گریہ زری کی۔۔ اب میری بس ہوچکی تھی۔۔۔ میں وہاں
سے بھاگتا بھاگتا ایک سنسان جگہ پر پہنچ گیا۔۔۔۔
ہانپ ہانپ کر میں تھک گیا
تھا۔۔
پورے جسم پر کسی کی حیوانیت
کے نشان چیخ ،چیخ کر چِلا رہے تھے۔۔۔ہونٹ سوج کر کُپا بن چکے تھے۔۔۔
گردن پر پڑے نشان میری عصمت
دری کا ثبوت پیش کررہے تھے۔۔۔
کہاں جاتا کس سے انصاف مانگتا۔۔۔۔صرف
اللہ سے دعا کی تھی۔۔۔۔یااللہ اب اور نہیں اب بس اب مجھے موت دے دے۔۔۔۔۔ کچھ دور مجھے
اپنے جیسا ایک ہیجڑا کھڑا دکھائی دیا تو اسکے پاس جا کر کھڑا ہوگیا۔۔
مجھے بھی اپنے ساتھ لے چلو۔۔۔
مجھے اس دنیا کے لوگوں سے
دور لے چلو۔۔۔۔نیم بے ہوش حالت میں اسکی بانہوں میں جھول گیا۔۔۔وہ مجھے اپنے گھر لے
گیا۔۔۔(تحریر غلام مصطفی شاہ)
یہاں سب لوگ میرے جیسے تھے۔۔۔سب
آپس میں بہت پیار سے رہتے۔۔۔میرا بہت خیال رکھتے۔۔۔۔ اور میرے پیروں میں گھنگھرو پہنا
کر مجھے رقص سیکھایا گیا۔۔۔۔ہیرا تراشنے کے بعد اصل سے دوگنا ہوگیا تھا۔۔۔یوں میں ساحر
سے ساحرہ بائی بن گیا۔یہاں مجھے جو لوگ دھتکارتے تھے وہی انسان مکمل انسان میری ایک
ادا پر اپنی جان تک وارنے کو تیار ہوجاتے تھے۔وہ پانچوں بھی اس جگہ پر آئے تھے۔مجھے
پہچان نہ سکے مگر میں نے پہچان لیا۔گرو سے کہہ کر سب کو الگ الگ کمرے میں لے جا کر
میں نے انکو باندھا اور انہیں بھی نامرد بنا دیا۔اس سے بہتر بدلہ میں ان سے نہیں لے
سکتا تھا۔میں بھی انسان ہوں یہ کوئی نہیں مانتا
سب نوچتے ہیں اور چلے جاتے ہیں۔جب تک میں زندہ ہوں میں اپنے حق کے لیے سب سے بدلہ لونگا۔مجھے
اچھی زندگی مل سکتی تھی مگر دنیا والوں نے مجھے کیا سے کیا بنا دیا میں سب کو یہی کہوں
گا۔سب لوگ مردہ ہیں۔۔۔سب نامرد ہیں۔۔
زندہ صرف طوائفوں کے کوٹھے
ہیں۔اگر کوئی ظلم کرے تو اسے بھی ویسا بنا دو جیسے تم ادھورے ہو۔اس کوٹھے پر جو بھی
آتا ہے اسے میں نامرد بنا دیتا ہوں۔اگر یونہی کوٹھے آباد رہے تو سب لوگ نامردوں میں
شمار ہونگے۔اور پھر سب یہی کہیں گے میں بھی انسان ہوں شاید تب سب کو احساس ہو ہم بھی
انسان ہیں۔۔۔۔ہزاروں ساحر روز اُجڑتے ہیں۔۔۔۔روز بکتے ہیں۔روز کسی کی درندگی کا نشانہ
بنتے ہیں۔۔۔۔۔۔یہ کب رُکے گا۔۔؟؟
آخر کب تک؟؟؟؟؟
لمحہ فکریہ......
________________ختم شد_________
COMMENTS