Hasyaat by Ayra farooqi Short Story Novel Name : Hasyaat Author Name: Ayra farooqi Category : Novel status : Short Story Novel descrip...
Hasyaat by Ayra farooqi Short Story
Novel Name : Hasyaat
Author Name: Ayra farooqi
Category :
Novel status : Short Story
Novel description :
Assalam o Alaikum
Here is an awesome opportunity for all social media writers. If anyone is interested and want to publish their writings on our web then He / She can approach us through Email or our social media page.
knofficial9@gmail.com
whatsapp _ 0335 7500595
حسیات
عائرہ فاروقی
"ما ر دیا ماں
تیری بے حسی نے تیری بیٹی کو مار دیا۔۔۔۔ختم کردیا اسکی عزت وقار سب کچھ۔۔۔۔کیا کوئی
ماں ایسی بھی ہوتی ہے؟؟۔۔۔۔۔میرا حساب لو ماں۔۔۔۔تیری بیٹی کی تڑپ کا حساب لو ماں جس
کی جان کے ساتھ ساتھ اسکی عزت کا بھی قتل کیا گیا ماں۔۔۔۔""
وہ نسوانی وجود کمرے کے ملگجے اندھیرے
میں کونے میں کھڑا اپنی ماں سے فریاد کررہا تھا ۔۔۔۔۔
اور اسکی ماں کمرے کے بیچ و بیچ کھڑی
اسکی آہ و بکا پہ تڑپ کر آگے بڑھی کہ اس بلکتے وجود میں اچانک ارتعاش پیدا ہوا اور
وہ بدک کے پیچھے ہٹی۔۔۔۔
""نہیں
قریب مت آنا۔۔۔۔میرا حساب لئے بغیر مجھے پکارنا مت ماں۔۔تم بھی میری گناھگار ہو۔۔۔۔میرا
حساب لو ماں۔۔۔میرا حساب لو۔۔۔۔""
""آہہہہہہہ۔۔۔۔نہیں
نہیں میں نے نہیں مارا تمہیں میری بچی۔۔۔میں بے حس نہیں ہوں۔۔۔میں تمہاری ماں ہوں۔۔۔میں
تمہاری جنت ہوں۔۔۔۔""
اچانک ہڑبڑا کے نیند سے وہ
اٹھ بیٹھیں۔۔۔۔قریب ہی نیم دراز ان کے شوہر جو غالباً کچھ دیر قبل ہی سوئے تھے اپنی
بیوی کی آواز سن کے اٹھ بیٹھے۔۔۔اور انکی طرف متوجہ ہوئے جو مسلسل "نہیں نہیں"
کی گردان کرتے نفی میں سر ہلاتیں اپنے بال اور چہرہ نوچ رہیں تھیں۔۔۔
""یہ کیا
پاگل پن ہے بیگم۔۔۔۔ہوش کریں سنبھالیں خود کو"
انکے شوہر انکے دونوں ہاتھ
تھامتے انہیں سنمبھالنے کی کوشش کرنے لگے۔۔۔۔لیکن ان کی حالت میں کوئی سدھار نہ آیا
اور وہ بدستور خود کو اذیت پہنچانے کی کوشش کررہیں تھیں۔۔۔۔۔
""اسٹوپ
اٹ۔۔۔۔کیا ہوگیا ہے آپکو کچھ بھی نہیں ہے۔۔۔۔آپ کیوں خود کو تکلیف پہنچا رہی ہیں۔۔۔۔""
اپنے شوہر کی دھاڑ میں غصہ
اور بے بسی بیک وقت محسوس کرتیں وہ جہاں کی تہاں تھم گئی۔۔۔۔لیکن آنسوؤں کا ریلہ اب
بھی جاری تھا۔۔۔۔
""عازر
میں نے اسے نہیں مارا۔۔۔۔اسے کہیں اسکی ماں بے حس نہیں ہے عازر۔۔۔۔میری بچی کو بتائیے
کہ اسکی ماں کتنا چاہتی ہے اسے۔۔۔۔اے بتائیے کہ اسکی ماں نے کبھی اس سے نفرت نہیں کی۔۔۔۔میرے
وجود کا حصہ ہے میں کیسے اسے مار سکتی ہوں میری جان تھی وہ۔۔۔""
وہ زاروقطار روتی عازر صاحب
کے سینے سے لگیں اپنی ممتا کی دھائیاں دینے لگیں۔۔۔۔اور انکے الفاظ عازر صاحب کے دل
پر بھی نشتر چلاگئے تھے۔۔۔۔۔
بیٹی کا غم انہیں بھی بہت
گہرا پہنچا تھا اسی لئے انکی راتوں کی نیند اور چین و سکون سب برباد ہوگیا تھا۔۔۔
اپنی بیگم کی بھاری سانسیں
محسوس کرتے عازر صاحب کی انکی طرف دیکھا تو وہ نیند کی وادیوں کی گم تھیں۔۔لیکن ایک
آدھ ہچکی نیند میں بھی جاری تھی۔۔۔
انکو بیڈ پہ سیدھا لٹاتے وہ
بھی اپنی جگہ لیٹ گئے تھے لیکن نظریں چھت پر ہی جمیں تھیں اور دھیان,وہ تو ماضی کی
عمیق گہرائیوں میں ڈوبنے لگا۔۔۔۔۔
★✰✰✰✰✰✰✰✰✰✰✰✰★
""ہاہاہاہاہا۔۔۔۔ڈول
تمہیں پتا ہے بابا کہتے ہیں میں انکا شہزادہ بیٹا ہوں۔۔۔لیکن میں تو لڑکی ہوں نا تو
شہزادہ کیسے ہوا۔۔۔۔بابا بھی بلکل پاگل ہیں۔۔۔انہیں نہیں پتا کہ لڑکے شہزادے ہوتے ہیں
اور لڑکیاں شہزادی۔۔۔۔بلکل بدھو ہیں بابا۔۔۔""
وہ اٹھارہ سالہ بالغ لڑکی
اس چھوٹے دو منزلہ گھر کے صحن میں بیٹھی اپنی
گڑیا کو پکڑے اس سے راز و نیاز میں مشغول تھی اور اپنی ہی باتوں پہ زور زور سے قہقے
لگا کے ہنسنے لگتی۔۔۔جس پہ پاس چارپائی پر بیٹھی اسکی دادی تسبیح پڑھتے مسکرا پڑتیں۔۔۔۔
وہ لڑکی دکھنے میں تو ایک
مکمل لڑکی لگتی تھی لیکن اس کی حرکات و سکنات سے اندازہ لگایا جاسکتا تھا کہ اس کا
دماغی توازن دردست نہیں۔۔۔۔
عازر صاحب کی تو اپنی اس بیٹی
میں جان بستی تھی البتہ ان کی بیگم اپنی ہی اکلوتی اولاد سے خار کھاتی تھیں۔۔۔۔وجہ
شاید اسکا لڑکی ہونا تھا۔۔۔۔ایک تو صنف لڑکی اور اس پر داغ لگاتا اسکا پاگل پن۔۔۔جس
پر بیگمِ عازر اچھی خاصی ناشکری عورت ثابت ہوئیں تھیں۔۔۔۔
""لو جی
اب پاگل بھی دوسروں کو پاگل بولیں گے جس کا خود کا شعور بلکل ناقص ہے۔۔۔۔""
بیگمِ عازر استہزایہ انداز
اپناتے اس معصوم دماغ میں اپنے لفظوں کا زہر انڈیلنے لگیں اور دادی انکو تاسف سے دیکھتی
رہ گئیں۔۔۔۔
اہانہ اپنے لئے پاگل لفظ سنتے
زور زور سے رونے لگی اور اونچا چلاتے بیگمِ عازر کی بات کا تردد کرنے لگی۔۔۔
""نہیں
ہوں میں پاگل۔۔۔۔میں اچھی بچی ہوں۔۔میں آپ سے کبھی بات نہیں کرونگی۔۔۔۔آپ مجھے ہرٹ
کرتی ہیں۔۔۔آپ بیڈ ہیں۔۔۔۔آپ بلکل اچھی نہیں ہیں۔۔۔آپ ہانی بےبی کو تنگ کرتیں ہیں۔۔۔""
اہانہ کو روتے اور چلاتے ہوئے
دیکھ دادی اور بیگمِ عازر دونوں بوکھلا گئیں۔۔۔دادی تو جھٹ سے اسکی طرف لپکیں صرف بیگمِ
عازر کی بوکھلاہٹ چند لمحوں کی تھی وہ واپس اپنے خول میں مقید ہوگئیں تھیں۔۔۔۔اور طنزیہ
ہنسی ہنستے اس معصوم کو مزید زہنی اذیت دینے کی کوشش کرنے لگیں۔۔۔۔بلآخر دادی نے ہی
ہاتھ جوڑتے انکو خاموش رہنے کی تلقین کی جس پہ وہ صرف ہنکار بھرتی رہ گئیں۔۔۔۔
اہانہ کو بھی دادی نے اپنے
دپٹے سے پیسے نکال کے تھمائے اور اسے بچوں کی طرح بہلانے لگیں۔۔۔۔اہانہ بھی وقتی غصے
کے بعد قدرے پرسکون ہوگئی تھیں لیکن دل میں عازر صاحب کو شکایت لگانے کا عہد باندھ
چکی تھی۔۔۔۔۔۔
شام کو عازر صاحب تھکے ہارے
لوٹے تو انکے ساتھ انکا چھوٹا بھائی نظیر بھی ساتھ تھا۔۔۔۔جو انکے گھر کے پاس ہی اپنے
تین بچوں اور بیوی پر مشتمل خاندان کے ساتھ رہتا تھا۔۔۔۔۔
عازر صاحب کو دیکھتے اہانہ
چہکی اور فوراً بھاگتی ہوئی انکے سینے سے لپٹ گئی۔۔۔۔۔دادی،بیگم عازر اور نظیر نے یہ
منظر دیکھا۔۔۔۔ایک آنکھ میں دونوں کے لئے پیار تو ایک آنکھ میں صاف تنفر تھا۔۔۔لیکن
ان میں ایک آنکھ ایسی بھی تھی جس میں حوس بخوبی دیکھی جاسکتی تھی۔۔۔۔
عازر صاحب نے اہانہ کا ماتھا
چومتے اسے اپنے ساتھ چارپائی پر بٹھا لیا۔۔۔اور دادی کے ساتھ دن بھر کی باتوں میں مشغول
ہوگئے۔۔۔۔نظیر بھی انکے ساتھ ہی بیٹھ چکا تھا اور وقتاً فوقتاً اپنی غلیظ نظریں اہانہ
کے کمسن سراپے پر بھی ڈال رہا تھا۔۔۔۔۔
اگر وہ ایک مکمل انسان ہوتی
تو ان نظروں کا مطلب سمجھ جاتی لیکن شاید اس کا شعور اسے اس بات کی بھی اجازت نہیں
دیتا تھا کہ وہ اپنے بھلے کا بھی کچھ سوچ سکے۔۔۔۔
بیگمِ عازر دونوں باپ بیٹیوں
کیو دیکھتی ناک بھنوؤں چڑھا گئیں جہاں اہانہ بیٹھی اپنے باپ سے ماں کی شکایت کررہی
تھی اور وہیں عازر صاحب کی پیشانی پر اس کی شکایات سن کے گہرے بل پڑگئے۔۔۔۔
کھانا کھانے کے بعد نظیر اپنے
گھر چلاگیا اور عازر صاحب نماز پڑھنے کے بعد دادی اور اہانہ کے مشترکہ کمرے میں بیٹھے
اہانہ کو سلانے کی کوشش کررہے تھے۔۔۔جب اہانہ سوگئی تو دادی سے اجازت لیتے انہوں نے
بھی اپنے کمرے کی جانب رخ کیا۔۔۔۔جہاں بیگمِ عازر تپی بیٹھیں تھیں۔۔۔انہیں باپ بیٹی
کا یہ ملاپ ایک آنکھ نا بھاتا تھا۔۔۔۔
عازر صاحب کمرے میں داخل ہوئے
تو وہ ان پر چڑھ دوری۔۔۔۔حسبِ معمول موضوعِ گفتگو اہانہ کی ذات تھی۔۔۔۔بیگمِ عازر کا
کہنا تھا کہ اسے مینٹل ازائلم بھیج دیا جائے۔۔۔
اور عازر صاحب کا ہمیشہ کی
طرح ایک ہی جواب۔۔""وہ میری بیٹی ہے۔۔۔میرے وجود کا حصہ جسے میں کبھی ایسے
تمہاری بے حسی میں زمانے کی سرد گرم کے حوالے نہیں کرسکتا۔۔۔""
انکا جواب سن کے بیگمِ عازر
کی تیوری چڑھ گئی۔۔۔۔اس سے پہلے بحث مذید طول پکڑتی عازر صاحب چادر اوڑھتے سونے کے
لئے لیٹ گئے۔۔۔انکی لاپرواہی کو دیکھتے بیگمِ عازر اندر ہی اندر تلملا کر رہ گئیں۔۔۔
★✰✰✰✰✰✰✰✰✰✰✰✰★
""بسسس
بہت ہوگیا۔۔۔اب میں مذید یہاں ایک پاگل کے ساتھ ایک چھت کے تلے نہیں رہ سکتی۔۔۔۔أج
فیصلہ ہوکر رہے گا۔۔۔۔یا تو یہ یہاں رہے گی یا پھر میں۔۔۔۔""
عازر صاحب انکی یہ بیزاری،بے
حسی دیکھتے رہ گئے۔۔۔اسی لئے ان سے منہ موڑتے گھر سے باہر چلے گئے۔۔۔
بیگمِ عازر ایک کٹیلی نگاہ
اپنے ہی خون پر ڈالتی میکے سدھار گئیں۔۔۔اور اہانہ،وہ معصوم تو دادی کے گلے لگی اس
صورتِ حال پر ڈر کر کھڑی کانپتی رہ گئی۔۔۔دادی اسکو سنبھالنے میں ہلکان ہوئے جارہی
تھیں۔۔۔۔
★✰✰✰✰✰✰✰✰✰✰✰✰★
دن گزرتے گئے اور بیگمِ عازر
کو گئے آج تین مہینے ہوگئے تھے۔۔۔۔۔لیکن نا عازر صاحب انہیں لینے گئے اور نا ہی وہاں
سے کوئی خیر خبر آئی۔۔۔
نظیر بھی وقتاً فوقتاً بمعہ اہل خانہ آتا رہتا تھا۔۔۔۔۔اور اسکی بیگم جو
اسی کی طرح عظیم سوچ کے مالک تھیں۔۔۔عازر صاحب کے گھر آکے اپنی ساس سے مصنوعی ہمدردی
کا اظہار کرتی رہتی۔۔۔
ان سب کے بیچ اگر کوئی پریشان
تھا تو وہ اہانہ تھی۔۔۔جو لاشعوری میں اپنی بے حس ماں کو یاد کرتی رہتی۔۔۔۔۔لیکن کسی
سے اظہار نہ کرتی۔۔۔
آخر کار دادی نے اسکی حالت
کے پیشِ نظر عازر صاحب سے بیگمِ عازر کو واپس گھر لانے کی درخواست کر ہی ڈالی۔۔۔
عازر صاحب خود بھی بیٹی کی
حالت سے نا آشنا نہیں تھے۔۔۔انہیں بھی نظر آرہا تھا کہ اہانہ اپنی ماں کو باوجود اسکے
بیزار اور بیگانہ رویے کے یاد کررہی ہے۔۔۔۔
لہٰذا انہوں نے بیگمِ عازر
کو واپس لانے کا فیصلہ کرلیا۔۔۔۔
اگلا دن اپنے ساتھ کئی پراسراریت
لے کے طلوع ہوا۔۔۔آج کسی پہ آگاہی کھلنے والے تھے تو کسی کی سانسوں کی ڈور چھننے والی
تھی۔۔۔۔
عازر صاحب اہانہ کو ناشتہ
کروانے کے بعد اپنے سسرال کی راہ چل دیئے۔۔۔۔اپنی شریکِ حیات کو ایک بار پھر سے اپنے
آنگن لے کے آنے کے لئے انہوں نے اپنی انا کا گلہ گھونٹ دیا۔۔۔۔۔۔
کئی بحث و مباحثے کے بعد عازر
صاحب بمعہ شریکِ حیات کے واپس آگئے۔۔۔لیکن نہیں جانتے تھے کہ ایک قیامت گھر پر ان کی
منتظر کھڑی ہے۔۔۔۔۔
★✰✰✰✰✰✰✰✰✰✰✰✰★
""مجھے
گندا مت کرو۔۔۔انکل مجھے اچھا فیل نہیں ہورہا مجھے آپ گندا نہ کرو۔۔۔۔مجھے درد ہوتا
ہے۔۔۔۔نہ کریں۔۔۔۔آہہہہہہہہہہہہہ""
چھوٹے دو منزلہ گھر میں اس
وقت کسی معصوم کی دلخراش چیخیں عرشِ الٰہی کو ہلانے کا سبب بن رہیں تھیں۔۔۔
لیکن وہ وحشی تو جانور بنا
اسے نوچ رہا تھا۔۔۔۔اس پر اس معصوم کی دلدوز چیخوں اور آہ و بکا کا کوئی اثر نہ ہورہا
تھا۔۔۔۔وہ تو بس نشے کی حالت میں جھولتے ہوئے اپنے نفس کو تسکین پہنچا رہا تھا۔۔۔۔۔
بنا یہ جانے کہ اس معصوم کی
کیا حالت ہورہی ہے۔۔۔وہ اس وقت کیا گناہ کررہا ہے۔۔۔۔اسے کچھ معلوم نہ پڑرہا تھا۔۔۔۔وہ
تو بس بے دردی سے جانوروں کی مانند اسکے جسم کو نوچ رہا تھا۔۔۔۔۔۔
کچھ دیر بعد جب وہ اپنے نفس
کو قابو کرچکا تو اسے حالات کی سنگینی کا احساس ہوا۔۔۔۔اسے اب اپنے انجام کی فکر ہونے
لگی۔۔۔۔۔اچانک اس کے خبطی دماغ میں ایک شیطانی خیال کوندا تو ہیبت ناک آنکھوں میں ایک
چمک سی ابھری۔۔۔۔۔۔
اس نے ایک نظر اسے دیکھا جو
ندہال سی پڑی تھی۔۔۔۔۔اور بے رونق آنکھیں چھت پہ ٹکیں تھیں۔۔۔۔۔جن میں کچھ دیر پہلے
چمک تھی اب وہ بلکل زندگی سے خالی ماند پڑ چکیں تھیں۔۔۔۔۔۔
وہ درندہ اٹھا اور کمرے سے
باہر نکل کے کچن کی طرف جانے لگا۔۔۔۔۔راستے میں ایک دروازے پہ رک کے اس نے آہستہ سے
کھولا تو اندر چارپائی پر ایک ضعیف وجود دنیا و مافیہا سے بیگانہ بےہوشی کی دنیا میں
گم تھا۔۔۔۔۔۔
ایک تمسخراتی نظر اس وجود
پر ڈالنے کے بعد وہ واپس مڑتے کچن کی طرف چلا گیا وہاں سے اپنی مطلوبہ چیز لیتے واپس
پہلے کمرے میں آکے اپنا کام مکمل کرکے وہ پرسکون سانس فضا میں خارج کرتا چلا گیا۔۔۔۔۔پیچھے
دو منزلہ گھر میں بس ایک ساکن سا ماحول چھا گیا۔۔۔۔۔
★✰✰✰✰✰✰✰✰✰✰✰✰★
چھوٹے دو منزلہ گھر میں اس
وقت صفِ ماتم بچھی ہوئی تھی۔۔۔۔
وجہ۔۔۔؟؟
وجہ کچھ خاص نہیں،بس دنیا
سے ایک بے ضرر سے وجود کا خاتمہ ہوگیا تھا۔۔۔۔جس کو اسکی ماں کی نااہلی کھا گئی۔۔۔۔
آج اہانہ کو گزرے تین دن ہوگئے
تھے۔۔۔۔سب کچھ ظاہر تھا۔۔۔
پہلے زیادتی پھر قتل۔۔۔۔۔پولیس
کی تفتیش سے ہر چیز منظرِ عام پر آگئی تھی سوائے مجرم کے۔۔۔
پولیس کے ساتھ ساتھ عازر صاحب
اپنے بھائی نظیر سمیت لُور لُور مجرم کو تلاش کررہے تھے۔۔۔
دادی تو اپنے حواس کھو چکیں
تھی پوتی کی اس حالت کے بعداور بیگمِ عازر، وہ تو خود کو پچھتاوؤں کی عمیق گہرائی میں
ڈوبتا محسوس کررہیں تھیں۔۔۔
انکا تو اتنا دماغی توازن
بگڑ گیا تھا کہ اپنی نیندیں تک حرام کرلیں تھیں۔۔۔۔۔
بلآخر ایک دن یہ معمہ حل ہو
ہی گیا جس نے اس چھوٹے دو منزلہ گھر کی درودیوار تک ہلا ڈالیں تھیں۔۔۔
پوسٹ مارٹم کی رپورٹ سے ملے
ڈی این اے سیمپل اور محلے داروں کی گواہی کے ساتھ ساتھ سی سی ٹی وی کیمرہ کی فوٹیج
میں اس درندے کو اس گھر میں جاتے ہوئے دیکھا گیا تھا۔۔۔۔
جب مجرم کا نام عازر صاحب
اور گھر والوں کے کانوں میں پڑا تو وہ حواس باختہ ہوگئے۔۔۔۔کیونکہ مقابل اپنا خون ہی
تو تھا
اور اب سامنے کھڑے مجرم سے
اس کے گناہ کی وجہ کو رنجیدگی سے دریافت کررہے تھے۔۔۔
""چٹاخخخخ۔۔۔۔۔بتاؤ
نظیر ایسا کیوں کیا؟؟؟۔۔۔۔اپنے ہی گھر کی عزت کو کھا گئے تم؟؟۔۔۔کیا بگاڑہ تھا میری
بچی نے تمہارا۔۔۔۔ایک بار بھی تمہارا دل نا کانپا اسکی عزت لوٹتے جس کو تم اپنی بچی
کہتے تھے۔۔۔جس کو اس دنیا کی اچھائی برائی کسی چیز کا ہوش نہیں تھا کیوں کیا تم نے
ایسا۔۔۔۔؟؟
عازر صاحب اس درندے کا کالر
پکڑے اپنی عزت کو نوچنے کا سوال کررہے تھے۔۔۔۔دادی تو نڈھال سے خالی خالی آنکھوں سے
اپنے گھر کا بکھرا شیرازہ دیکھ رہیں تھیں۔۔۔۔۔
انہیں یاد آیا کہ اس دن نظیر
کا چھوٹا صاحبزادہ نیاز کی بریانی لے کے آیا تھا۔۔۔۔جس کو کھانے کے بعد وہ خود تو بے
ہوش ہوگئیں تھیں لیکن اہانہ نیند کے باعث وہ بریانی نہ کھا سکی۔۔۔
جب دادی کو ہوش آیا تو کچھ
دیر تک تو غائب دماغی سے وہ صورتِ حال کو سمجھنے کی کوشش کرتیں رہیں۔۔۔
لیکن جیسے ہی حواسوں نے ساتھ
دینا شروع کیا تو وہ جھٹ سے اٹھ بیٹھیں اور اہانہ کو ڈھونڈنے نکل پڑیں جو اپنے والدین
کے کمرے میں تھی شاید۔۔۔دادی جیسے ہی کمرے میں داخل ہوئیں تو اپنی لاڈلی پوتی کو اس
خون سے لت پت حالت میں دیکھتے اپنے ہوش گنوانے لگیں۔۔۔لیکن پھر دیوار کا سہارہ لیتے
اس تک پہنچیں جو زمین پر گری اپنی ساکت آنکھیں چھت پر ٹکائے ہوئی تھی۔۔۔۔
دادی اسکا سر اپنی گود میں
رکھے اسے جھنجھورنے لگیں۔۔۔لیکن اسکے ساکت وجود میں کوئی ہلچل محسوس نہ کرکے دادی دھاریں
دھاریں مار مار کر وہ روئیں کہ عرشِ الٰہی تک کو ہلا ڈالا۔۔۔۔
اب ان کو احساس ہورہا تھا
کہ انہوں نے ایک سانپ کو اپنی آستینوں میں پال رکھا تھا۔۔۔۔
عازر صاحب اب بھی نظیر کے
پاس کھڑے اسے اپنی ٹھوکروں سے ماررہے تھے۔۔۔پاس ہی نظیر کی بیگم کھڑیں اپنے سہاگ کو
بچانے کے لئے فریادیں کررہی تھی۔۔۔۔۔۔ساتھ میں اس معصوم کو کوسنے بھی جاری تھے جو اس بیوفا دنیا کی حقیقتوں
سے کہیں دور منوں مٹی تلے دفن تھی۔۔۔۔۔
بیگمِ عازر تو بلکل خاموش
آنسوؤں بہا رہی تھیں ۔۔۔
""آفیسر
اس شخص کو یہاں سے لے جائیے۔۔۔۔اور نظیر اس امید پر کبھی کبھی مڑ کے مت دیکھنا کہ تمہارا
کوئی بھائی یا ماں بھی اس دنیا میں رہتی ہے۔۔۔۔تم ہمارے لئے آج سے مردہ ثابت ہوئے۔۔۔""
پہلے پولیس پھر نظیر سے مخاطب
ہوکے اپنی بات مکمل کرتے عازر صاحب اپنا رخ موڑ گئے۔۔۔۔
""نہیں
بھائی مجھے معاف کردیں۔۔۔۔۔بخش دیں مجھے وہ سب غلطی سے ہوا۔۔۔میں اس وقت اپنے ہوش میں
نہیں تھا۔۔۔۔خدا کے لئے اپنے بھائی کو معاف کردیں۔۔۔""
نظیر پولیس کی گرفت میں جھٹپٹاتا
اپنی غلطیوں کی معاف مانگ رہا تھا۔۔۔لیکن کچھ گناہوں کی معافی نہیں ہوتی۔۔۔انکی صرف
سزا ہوتی ہے۔۔۔
نظیر کی دنیاوی سزا تو شروع
ہوچکی تھی۔۔۔۔اور آخرت کی سزا، وہ تو اہانہ خود اپنے رب کے سامنے اس سے سوال کرے گی۔۔۔۔
نظیر کی بیوی بچے بھی روتے
ہوئے اس گھر سے نکلتے چلے گئے۔۔۔۔عازر صاحب نے بس ایک خاموش نظر اپنی بیگم پر ڈالی
جو آج اپنی بیٹی کے قاتل کو سزا دینے کے بعد مطمئن تو تھی لیکن ایک پچھتاوؤں کا ناگ
تھا جو شاید زندگی بھر انہیں کچوکے لگاتا رہے۔۔۔۔۔۔۔
سب کے نکل جانے کے بعد اس
چھوٹے دو منزلہ گھر میں دھرام کی آواز کے ساتھ ایک ضعیف مہربان وجود کا خاتمہ بھی ہوگیا۔۔۔۔۔۔
COMMENTS