Doghle Rishte By tehmina Firdous Short Story غلے رشتے تہمینہ فردوس "پنکی جی آپ سے کوئی شخص ملنے آیا ہے اور اپنا نام اسلم بتاتا ہے۔&q...
Doghle Rishte By tehmina Firdous Short Story
غلے رشتے
تہمینہ فردوس
"پنکی جی آپ
سے کوئی شخص ملنے آیا ہے اور اپنا نام اسلم بتاتا ہے۔"عقب سے آئی ملازم کی آواز
نے اس کے تھرکتے پیروں کو جھٹکے سے رکنے پر مجبور کیا۔
"کیا ا ا نام
بتایا اس نے؟" پسینے سے شرابور وجود لئے اس نے مڑ کر تحیر سے استفسار کیا۔
"جی اسلم۔"پیغام
دینے والے ملازم نے مؤدبانہ انداز میں دہرایا۔
"ا آ اسلم۔"اس
نے کپکپاتے خشک لبوں کو زبان
سے تر کرتے ہوئے زیر لب کہا۔
"آپ کہاں کھو
گئیں پنکی جی؟ وہ شخص آپ کا انتظار کررہا ہے، میں نے اسے ڈرائنگ روم میں نہیں بٹھایا،
گھر کے باہر ہی کھڑا ہے۔
آپ اگر کہتی ہیں تو اسے کہہ
دوں کہ آپ مصروف ہیں ابھی نہیں مل سکتیں
پھر کبھی آجائے!
ویسے عجیب میلا کچیلا شخص
ہے
مجھے تو بڑی حیرانی ہوئی جی
اس کو دیکھ
کر جب اس نے کہا کہ پنکی جی
کو میرا نام بتاو وہ مجھ سے ضرور ملنا چاہیں گی۔
لو بھلا بتاؤ پنکی جی جو بڑے
بڑے امراء کو
انتظار کی سولی پر لٹکائے
رکھتی ہیں اس عجیب شخص سے ملیں گی!
اس نے اپنی ہی بات سے محظوظ
ہوتے ہوئے قہقہہ لگایا۔
"ان کو عزت
سے ڈرائنگ روم میں بٹھاؤ اور کچھ ٹھنڈا پیش کرو
جب تک میں چینج کرلوں۔"پنکی
نے سنجیدگی سے کہا اور اپنے گھنگھرو کھول کر ایک طرف اچھالتی ہال سے نکل گئی۔
ملازم بھی اس کے چہرے کی مسلسل
بدلتی رنگت پر جی بھر کے حیران ہوتا باہر کی جانب بڑھ گیا۔
اپنے کمرے میں جاتے ہی اس
نے اپنا چہرہ دھویا ، چست لباس تبدیل کرکے سادہ جوڑا زیب تن کیا پھر لڑکھڑاتے قدموں
اور کپکپاتا وجود لئے ڈرائنگ روم کی جانب بڑھ گئی۔
"میں کہتا ہوں
نکالو اس گندگی کو گھر سے ورنہ جان سے مار ڈالوں گا میں اسے۔
کیا چاہتی ہیں آپ کہ اس کا
وجود ہمارے لئے جگ ہنسائی کا باعث بنے؟"اس کی سماعتوں سے اس کے بڑے بھائی کی کرخت
آواز ٹکرائی تو وہ تیرہ سالہ ننھا وجود تھر تھر کانپنے لگا۔
"ارے غضب خدا
کا ہمیں تو تب ہی سمجھ جانا چاہیے تھا کہ یہ تیسری جنس ہے
جب پہلی بار اس نے میرے کمرے
سے لپ سٹک چرا کر لگائی تھی۔
ٹھیک کہتا ہے اسلم نکال باہر
کرو گھر سے اس
*** کو۔" اس
کی تائی کے انتہائی نازیبا الفاظ اس کی سماعتوں
میں زہر گھول گئے۔
"لیکن یہ اتنا
چھوٹا ہے کہاں جائے گا؟"اس کی بیوہ بیمار ماں کی نحیف آواز بھی اس کی سماعتوں
سے ٹکرائی جس میں زمانے بھر کی بے بسی پنہاں تھی۔
" اور کہاں
جانا ہے !
اپنے جیسوں میں جائے یا ہماری
بلا سے بھاڑ میں چلا جائے
بس ہماری جان چھوڑ دے ورنہ
ہم کو لوگوں کا طعنے ہی مار ڈالیں گے۔" تائی نے ناک بھوں چڑھائی۔
اور اس کے بعد ماں کی لاکھ
منتوں اور اس ننھے وجود کی سسکیوں کا اسلم پر کوئی اثر نہیں ہوا اور اسے گھر سے نکال
دیا گیا۔
اسے آج بھی یاد تھا کہ موسم
سرما کی یخ بستہ رات اس نے سڑک پر ٹھٹھرتے گزاری تھی۔
اس کے بعد کئی راتیں جس میں
اس نے کبھی بھوک کاٹی اور کبھی جنسی درندوں کی حوس کا نشانہ بنا۔
اس دوران اس نے کئی بار درد
کی شدت میں ماں کو پکارا اور کئی بار موت کی تمنا کی
مگر نہ تو ماں آسکی اور نہ
موت مہربان ہوئی
اسی دوران ایک روز سڑک کنارے
اس کے سسکتے وجود پر کسی کی نظر پڑی تو اسے اپنے ساتھ اپنے گھر لے آیا۔
جب بخار اور درد کی شدت میں
کمی آئی تو اس انسان کی پہنچان اسے گرو کے نام سے کروائی گئی۔
گرو ایک نیک دل انسان تھا
جس نے نہ صرف اس کے زخموں پر مرہم رکھا بلکہ اسے دو وقت کے اچھے کھانے کے ساتھ ساتھ
سر چھپانے کو چھت بھی دی۔
اور اسے نام بھی دیا 'پنکی'
وہ جوں جوں بڑا ہوتا گیا گرو
نے اسے سمجھایا کہ پیٹ کا دوزخ بھرنے کے لئے
اسے اپنے جیسے باقی افراد
کی طرح محفلوں میں ناچ گانا کرنا ہی پڑے گا ورنہ بھوک اس کی جان کی دشمن بن جائے گی
گرو سے متفق ہونے کے باوجود
اسے ناچ گانے میں ہچکچاہٹ اورفطری شرم محسوس ہوتی تھی ، مگر وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ وہ ہچکچاہٹ بھی بھوک
اور غربت کے خوف تلے کہیں دب گئی اور چند ہی سالوں میں وہ پنکی سے میڈم اور پنکی جی
کے نام پہچانا سے جانے لگا۔
کبھی کبھی وہ سوچتا پرویز
سے پنکی اور پنکی سے پنکی جی کے سفر میں اس نے کیا کھویا اور کیا پایا!
بہرحال وہ قلیل وقت میں محفلوں
کی جان ہوگیا صورت تو یوں بھی حسین تھی
پھر اس کے فن سے متاثر ہونے
والوں کی کمی بھی نہ تھی۔
یوں چند ہی سالوں میں وہ عروج
کی بلندیوں پر پہنچ گیا اور بڑے بڑے امراء کو اس سے ملنے اور اپنی محفل میں مدعو کرنے
کے لئے کئی کئی ہفتے تک انتظار کرنا پڑتا۔
یوں زندگی دھیرے دھیرے آگے
بڑھتی گئی
کبھی کبھی ماں اور چھوٹی بہن
کی یاد شدت سے آتی پھر وہ دل کو یہ کہہ کر سمجھا لیتا کہ ماں اور بہن سے دوری میں ہی
ان کی بہتری ہے۔
وہ ہر گز نہیں چاہتا تھا کہ
اس کی بیمار بیوہ ماں اور بہن
بڑے بھائی اور تائی کے عتاب کا شکار
ہوں۔
اس کا بڑا بھائی اسلم چونکہ
اپنی تایا زاد میں دلچسپی رکھتا تھا اور دونوں جانب کی باہمی رضامندی سے ان کی باقاعدہ
منگنی بھی ہوچکی تھی اس لئے وہ تائی کی ہر بات کو حرف آخر تصور کرتا تھا۔
پہلی اور آخری بار تائی کے
ہی بھڑکانے پر اسلم نے اسے نہ صرف پیٹا تھا بلکہ ماں کی لاکھ منت سماجت کے باوجود اسے
گھر سے بے دخل بھی کردیا تھا اور آج وہی اسلم اس کے دروازے پر آیا تھا،
وہ بھائی جو چند سال پہلے
اس کی شکل تک دیکھنا نہیں چاہتا تھا آخر ایسی کیا وجہ تھی جو اسی بھائی کو اس کے دروازے
تک لے آئی!
اس کے ذہن میں ماضی کی تلخیوں
سمیت نیا سوال ابھرا جسے بظاہر جھٹکتے ہوئے وہ اپنی لرزش پر قابو پاتا ڈرائنگ روم میں
داخل ہوا۔
"کیسے ہو میرے
بھائی۔"جوں ہی وہ ڈرائنگ روم میں داخل ہوا اسلم والہانہ انداز میں اس کی جانب
لپکا۔
"جی میں ٹھیک
الحمداللہ۔" اس نے تحیر سے اپنے اس بھائی کا انداز دیکھا جو چند سال پہلے اسے
گالی تصور کرتا تھا اور آج اسے
اس انداز میں مل رہا تھا جیسے
چھوٹے بھائی
کے بغیر ایک لمحہ نہ رہ سکتا
ہو۔
"خ خیریت سے
آنا ہوا؟" اس نے اپنے ٹوٹے پھوٹے الفاظ کو جوڑ کر اپنے جملہ ترتیب دیا، آج بھی
اس میں کہیں نہ کہیں وہ ننھا بچہ زندہ تھا جسے اسی سگے بھائی نے زدو کوب کرکے گھر سے
بے دخل کیا تھا۔
وہ اتنا دولت مند ہونے کے
باوجود آج بھی اس میلے کچیلے اسلم سے گھبرا رہا تھا۔
"وہ دراصل پرویز
بات کچھ یوں ہے کہ اماں کی وفات کے بعد میرے
مالی حالات بہت خراب ہوگئے ہیں۔
پہلے تو اماں کے علاج پر ہی
پیسے خرچ ہوتے تھے اب ان کے بعد اور بہت سے مسائل نے جنم لے لیا ہے جن سے میں اکیلا
نمٹ نہیں پارہا،
دراصل چھوٹی کی شادی تائی
کے چھوٹے بیٹے عمران سے کردی تھی اس ذلیل کو نشے کی لت لگی ہے یہ تو بہت بعد میں علم
ہوا
بہر حال اب وہ تو کمانے کے
قابل بھی نہیں رہا اس لئے
مجھے ہی چھوٹی اور اس کے بچوں
کا خرچ اٹھانا پڑرہا ہے،
سیدھی سی بات ہے میرے اپنے
بچے بھی ہیں
اوپر سے تائی کو بھی کینسر
جیسے مرض نے آ لیا ہے بس ان کی دوائی بھی مجھے ہی لانی پڑ رہی ہے کیونکہ ان کا اپنا
بیٹا تو کسی کام کا نہیں رہا نشے کی عادت نے اسے بالکل ہی نکمہ کردیا ہے۔
سننے میں آیا تم بڑے امیر ہوگئے ہو
یار
اکیلے اتنے پیسے کا کیا کرو
گے !
اپنوں کی امداد کردیا کرو
بڑا ثواب ملے گا اور یقین
کرو امی کی روح بھی تم سے بڑی خوش ہوجائے گی،
ماں کی تو یوں بھی یہی چاہت ہوتی ہے کہ اس کی اولاد ہمیشہ ایک ساتھ رہے تو ان کی خواہش سمجھ کر ہی کچھ
خیال کرو ہمارا
آخر ہم تمہارے خون کے رشتے
ہیں یار
تمہارے اپنے۔"وہ جو اپنے
بھائی کی موجودگی سے گھبراہٹ کا شکار تھا عرصے بعد ملے بڑے بھائی کے منہ سے ادا ہونے
والے الفاظ سن کر
کتنی ہی دیر پتھر کا بت بنا
کھڑا رہا۔
یہ وہی بھائی تھا جس نے باپ
کے بعد باپ کا کردار ادا کرنا تھا مگر تائی کے بھڑکانے پر لمحہ لگا تھا اسے غیر ہونے
میں
آج وہی بھائی اسے خون کے رشتوں
کی اہمیت بتارہا تھا جسے رشتوں کی اہمیت کی ا،ب تک معلوم نہ تھی۔
اسی بڑے بھائی نے اس کی ماں
کو اس سے دور رکھا اور آج وہی اسے ماں کی روح کے نام پر ایموشنل بلیک میل کررہا تھا۔
بڑا ہی خود غرض انسان تھا
جس نے اپنی محبت پانے کے لئے بہن کو اس بگڑے ہوئے تایا زاد سے بیاہ دیا۔
سب جانتے تھے وہ لڑکا لڑکپن
سے ہی آوارہ لڑکوں میں اٹھتا بیٹھتا ہے مگر اس پر اپنی محبت پانے کا جنون سوار تھا
جبھی پرویز کو تو چھوٹی عمر میں زمانے کے سرد و گرم سہنے کے لئے گھر سے بے دخل کیا
ہی، ساتھ ہی تائی کے ایک بار کہنے پر چھوٹی بہن کو بھی آوارہ تایا زاد کے ساتھ بیاہ
دیا جو وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ نشے کا عادی بھی ہوگیا۔
اولاد کو ماں سے دور کرکے
بہن کی زندگی برباد کرکے آخر
وہ کس منہ سے اسے خون کے رشتوں کی اہمیت بتارہا ہے!
پرویز اس کا گریبان پکڑ کے
سب کچھ پوچھنا چاہتا تھا
اور اب تو وہ جس مقام پر تھا
چاہتا تو اسلم کا منہ توڑ دیتا
ذلیل کرکے گھر سے نکالتا
یا جو دل چاہے کرلیتا
اب اسلم اس کا کچھ بھی بگاڑنے
کے قابل نہیں تھا۔
مگر جب پرویز بولا تو فقط
اتنا کہ ...
"ٹھیک ہے بھائی
جان
چھوٹی اور اس کے بچوں کو ماہانہ
ضرورت کی ہر چیز اور خرچ مل جایا کرے گا،
تائی جان کی دوائیاں بھی پہنچ
جایا کریں گی
بس کوشش کیجئے آئندہ آپ میرے
دروازے پر نہ آئیں کیونکہ میں نہیں چاہتا کہ آپ جیسے انسان کی معاشرے میں میرے باعث
تضحیک ہو
یا آپ جیسے شرفاء کا میرے
جیسی گندگی سے میل ملاپ آپ کی جگ ہنسائی کا باعث بنے۔"بظاہر سپاٹ لہجے میں کہتا
وہ اندر سے کس ٹوٹ پھوٹ کا شکار تھا یہ تو وہی جانتا تھا۔
بھائی اور تائی کے دیے سب
زخم تازہ ہوگئے
تھے ،
پرویز نے آج انہیں کے الفاظ
اپنے لئے دہرائے تو اس کا دل چھلنی ہوگیا۔
"یہ کیسے دوغلے
رشتے تھے!
جب وہ کمزور و مجبور تھا تو انہیں رشتوں نے دھتکار دیا
حتی کہ کبھی ماں کی صورت تک نہ دیکھنے دی،
اس وقت انہیں رشتوں کا کہنا
تھا تم ہمارے لئے باعث شرمندگی ہو اور آج جب وہ طاقتور ہے
پیسے کی ریل پیل ہے تو کسی
کو اس کے خواجہ سرا ہونے پر اعتراض نہیں تھا،
ساری بات پیسے کی تھی
انسان کی اہمیت کچھ بھی نہیں
اگر جیب خالی ہو اور وہ کمزور ہو تو
برے وقت میں یہی رشتے مڑ کر
بھی نہیں دیکھتے اور
پیسہ آتے ہی سب رشتے شکر سے
میٹھے ہوجاتے ہیں۔"
وہ سوچ رہا تھا اور آنسو بہنے کو بے
تاب تھے مگر وہ اس انسان کے سامنے کمزور نہیں پڑنا چاہتا تھا جسے رشتوں کی قدر نہیں
تھی۔
وہی اسلم جو چند برس قبل اس
پر شیر کی طرح دھاڑا تھا
آج اس کے دھتکار دینے پر بھی ڈھیٹ بنا کھسیانی سی ہنسی ہنس کر چلتا بنا،
آخر اس نے بڑا معرکہ مارا
تھا بہن کی ذمہ داری سے جان چھڑا کے
اور آج وہ تائی بھی اسے بوجھ
لگ رہی تھی چند سال پہلے جس کے کہنے پر اس نے
ننھے پرویز کو گھر سے نکال
کر در بدر کی ٹھوکریں کھانے کے لئے چھوڑ دیا تھا۔
مگر سلام تھا اس انسان پر
جس نے اتنا ظلم سہنے کے باوجود بھی ان دوغلے رشتوں کی کفالت کا بیڑا اٹھایا تھا۔
ختم شد
COMMENTS