--> Teri Meri Eid By Ayesha Asghar Short Story | Urdu Novel Links

Teri Meri Eid By Ayesha Asghar Short Story

Teri Meri Eid By Ayesha Asghar Short Story تیری میری عید عائشہ اصغر   خوبصورت سے  ہرے بھ رے لان کے ایک سائیڈ پر کچھ کرسیاں اور بیج  میں ٹ...

Teri Meri Eid By Ayesha Asghar Short Story


تیری میری عید

عائشہ اصغر

 

خوبصورت سے  ہرے بھ رے لان کے ایک سائیڈ پر کچھ کرسیاں اور بیج  میں ٹیبل رکھا ہوا تھا اور ان میں سے دو کرسی پہ نانو اور نواسی براجمان تھی۔

"نانو یار جانے دیں نہ یہ قریبی ہی تو مال ہے اور کون سا میں چھوٹی بچی ہوں جو گم ہوجاؤنگی"؟.......علایا کب سے اپنی نانو کی منتیں کررہی تھی۔

ٹیبل پر پکوڑے اور آلو چاپ رکھے اور ساتھ ہی چائے کے کپ بھی،نانو اور علایا اس خوبصورت موسم میں پکوڑے اور چائے سے لطف اندوز ہورہی تھی،،تیز بارش کے بعد اب ہلکی ہلکی بارش ہورہی تھی۔وہ لوگ اسوقت شیڈ کے نیچے تھی۔

"موسم دیکھ رہی ہو ابھی بارش ہلکی ہوئی اور دوبارہ تیز ہوگئی تو کیا کروگی جب تیرے بابا آجائیں تو کرتی رہنا اپنے شوق پورے".........نانو کو دیکھ کر لگ رہا تھا وہ ماننے والی نہیں ہیں۔

"اور اگر انکے آنے کے بعد بارش ہی نہیں ہوئی،،دیکھیں نہ کتنا حسین موسم ہے"......وہ سارے جہاں کی معصومیت چہرے پر لاتے آنکھیں پٹپٹاتے بولی۔

"پچھلے ایک ہفتے سے لگاتار بارش ہورہی ہے اور ابھی بھی رکنے کے امکان نہیں تو پریشان نہ ہو چپ کر کے یہ پکوڑے کھا"........

"نانو یہ کراچی ہے کراچی اگر پچھلے ایک ہفتے سے بارش ہورہی ہے تو کچھ پتہ نہیں آدھے گھنٹے کے اندر اندر رک جائے"......وہ پوری کی پوری جھنجھلا گئی تھی۔

افتخار صاحب بزنس کے سلسلے میں شہر سے باہر گئے ہوئے تھے اور گھر پر یہ دونوں نانو نواسی تھی۔علایا کی والدہ دو سال پہلے وفات پاگئی تھی۔اور علایا کو باہر جانا ہوتا تو افتخار صاحب لیکر جاتے یا ڈرائیور اور صبح ہی ڈرائیور اپنی بیٹی کے بیماری کے باعث رقیہ بیگم(نانو)سے چھٹی لیکر گھر گیا تھا۔

"علایا تنگ نہ کر".......وہ ہاتھ جھلاتے بولی۔

"اب اسے کون بلا لیا"؟......مین گیٹ سے آتے حدید پر نظر پڑتے ہی اسکے منہ کے زاویے بگڑے تھے۔

"میں بلائی ہوں اپنے بچے کو تجھے کوئی مسئلہ ہے".......نانو اسکی بڑابڑاہٹ سنتے ایک زبردست قسم کی گھوری اسے نوازی۔

"نہیں مجھے کیا ہونا"...….وہ زبردستی کی مسکراہٹ سجائے انہیں دیکھی۔

"اسلام علیکم نانو کیسی ہیں".......حدید انکے آگے سر جھکاتے سلام کیا۔

"وعلیکم السلام میرا بچہ میں بلکل ٹھیک"......نانو نے اسکے سر پر ہاتھ رکھا۔

"علایا کیسی ہو تم"؟......اب وہ کرسی پر بیٹھتا اسے دیکھا جو گرین کلر کے سوٹ پہنے لائٹ سے میک اپ میں خفا خفا سی لگ رہی تھی۔

"ٹھیک ہوں مجھے کیا ہونا ہے"......کرسی کی پشت سے ٹیک لگائے وہ پیر جھلاتے بولی

اسکے جواب پر وہ مسکرایا۔

"یہ لے میرا بچہ یہ گرم گرم پکوڑے کھا".....نانو سے آگے پلیٹ رکھی جو ابھی ملازمہ رکھ کر گئی۔

"میں تو کب سے بیٹھی مجھے تو پوچھ رہی اور اسے تو پلیٹ ہاتھ میں پکڑایا جارہا ہے".......وہ خفگی سے ہونٹ دبائے نانو کو دیکھتے بولی۔

"ہاں تو تیری ایک ہی رٹ ختم نہیں ہورہی باہر جانے کی"....... نانو بھی کہاں حساب رکھتی تھی فوراً برابر کی۔

حدید ابراہیم ان دونوں کی تکرار پر ہنسا۔۔

"ہنس لو ہنس لو تم ہی  پورے کرلو شوق اپنے"......وہ ناراضگی سے دیکھی۔

"کہاں جانا ہے علایا حدید کو"؟......وہ براہ راست اسکو دیکھتا ہوچھا۔

"ارے وہی بازار جانا ہے دس چیزیں رکھی ہیں پھر بھی بارش میں گھومنا ہے پتہ نہیں اس نسل کے کونسے نئے نئے چونچلے ہیں"........

"نانو بازار نہیں مال،،مال جانا ہے میں نے آپکی وہ سبزی کی مارکیٹ نہیں اور بارش میں لانگ ڈرائیو کا مزہ آپ کیا جانے"........وہ آخر میں بےنیازی سے بولی

"ہاں ہمیں پالنے بھی نہیں ایسے چونچلے".......

"بس آپ کے اس شریف بچے کے کوئی چونچلے نہیں ہونگے،ہیں نہ؟".......وہ منہ بناتے حدید کو دیکھی۔

جو انکی تکرار پر ہمیشہ کی طرح مسکرا رہا تھا۔۔

"تمیز سے لڑکی شوہر ہے تیرا ذرا جو تجھے تمیز چھو کر گزری ہو اور ہاں  تیرے جیسا تھوڑی ہے میرا بچہ،،فرمانبردار اور شریف ہے"......نانواسے لتاڑتے ہوئے فوراً ہی حدید کی بلائیں لینے لگی۔

"نانو شوہر نہیں منکوح کریکٹ اٹ پلیز (وہ آنکھیں گھمائی)اور ہاں میں ہی کراچی کی بدمعاش ڈان نمبر ون ہوں"......علایا کا نانو کا حدید پر اس طرح پیار نچھاور کرنا ذرا پسند نہیں آیا،،اور اس لیے پسند نہیں آیا کیونکہ نانو اس طرح کبھی اسے پیار نہیں کرتی تھی۔

"اوکے اوکے علایا آجاؤ میں لے چلتا ہوں"........انکے تکرار کو رکواتے وہ اسے پیشکش کیا۔

"میں نہیں جاؤں گی'"........دل تو اسکی پیشکش پر جھمنے لگا تھا بارش میں لانگ ڈرائیو کی دیوانی تھی وہ لیکن نکھڑے بھی تو دیکھانے تھے۔

"آجاؤ اتنا اچھا موسم ہے مس کردوگی"...... وہ مسکراتے ہوئے بولا

"ٹھیک ہے چلو"......وہ ایسے بولی جیسے اس پر احسان کررہی ہو۔

"اے لڑکی تمیز سے بات کیا کر اور تنگ مت کرنا اسے".....نانو ایک چھڑی لگائی تھی اسے۔

"آہ نانو کیا ہے"۔۔۔۔انکے اچانک مارے پر وہ اچھل گئی۔

"ارے نانو نہیں کرتی یہ تنگ آپ مارا نہیں کریں اسے"......وہ انکے پاس آتے نرمی سے انہیں سمجھایا۔

"ذیادہ زور سے لگی ہے"......وہ اسکے قریب آتا دھیمے لہجے میں ہوچھا

"نہیں مجھے شوق پڑا ہے ایسے ہی ہاتھ سہلانے کا"......ہمیشہ کی طرح الٹا جواب دیا گیا تھا۔

"نانو سے نہیں لگا کرو یار میں ان سے بھی کہوں گا تمھیں نہ مارے".......وہ اسکے ہاتھوں کو سہلاتا نرمی سے بولا

وہ یک ٹک اسے دیکھنے لگی لیکن جلد ہی اپنے اصل روپ میں آگئی۔

"چلو نہ دیر ہورہی"......وہ اسکے مسلسل دیکھنے پر اسے ہلاتے ہوئے اسکے ساتھ کار تک آئی۔

ایک خوشگوار شام گزرا تھا لیکن اسکا اظہار علایا نے بلکل نہیں کیا تھا۔

واپسی میں ڈنر کرکے وہ لوگ نو بجے گھر جارہے تھے،تب ہی ٹریفک پر گاڑی رکی اور گجرے بیچنے والا بچہ آیا۔۔

یہ ایک جوڑی دے دو"......حدید اپنے والٹ سے پیسہ نکالتا بولا۔

"یہ لیں صاحب".....وہ گجرے اسکی طرف بڑھایا تو حدید نے اسکے طرف پانچ سو کا نوٹ بڑھایا۔

"صاحب یہ دو سو کا ہے"......وہ بچہ اسکی طرف نوٹ بڑھاتا بولا

"یہ تم رکھ لو".....وہ مسکراتے ہوئے بولا تو بچہ خوشی خوشی دعائیں دیتا چلا گیا

اس منظر پر علایا کے دل میں اسکی عزت اور بڑھی تھی۔

حدید خاموشی سے لبوں پر مسکراہٹ لیے اسکی گود میں رکھے ہاتھوں کو اپنے مضبوط ہاتھوں میں لیتا نرمی سے دونوں ہاتھوں میں گجرے پہنایا،،علایا بنا پلک جھپکائے اسے دیکھ رہی تھی دل بھی تیزی سے ڈھرک رہا تھا۔

"تمہارے ہاتھوں میں مہندی اور گجرے مجھے بہت پسند ہیں"...... دھیمے لہجے میں کی گئی سرگوشی کے ساتھ وہ باری باری دونوں ہاتھ کو اہنی خوشبو سے مہکایا۔

عنایا اسکے دوبارہ سے ڈرائیو کرنے پر ونڈ اسکرین کے باہر دیکھنے لگی۔اسکے عمل سے رخسار میں سرخیاں آگئی تھی۔

اب گاڑی میں گانے کے بول گونج رہے تھے،،ہلکی ہلکی بارش گانے کے بول اور گجرے کی مہک ایک بہت ہی خوبصورت منظر کا نقشہ کھینچی ہوئی تھی۔

یہ بارش کی بوندیں

تجھے ہی تو ڈھونڈیں

یہ ملنے کی خواہش

ہے خواہش پرانی

                            *****************

علایا افتخار صالحہ بیگم اور افتخار صاحب کی اکلوتی صاحبزادی ہیں۔نانو رشتے میں افتخار صاحب کی خالہ بھی ہیں۔افتخار صاحب کے بہت ہی اچھے دوست انکے برابر والے گھر میں رہائش پذیر ہیں۔۔صالحہ بیگم نے وفات سے پہلے علایا اور حدید کا نکاح کروادیا تھا۔

حدید انکے گھر میں شروع سے ہی آتا تھا اور علایا کو اپنی ماما اور نانو کو اپنے سے ذیادہ حدید کو پیار لیتے دیکھنا برادشت نہیں ہوتا تھا۔

یوں ہی وہ چھوٹی چھوٹی باتوں میں حدید سے چڑتی تھی۔

لیکن نکاح کے بعد اسے حدید اچھا لگنے لگا تھا،،حدید کا اسے عزت دینا اسکی کئیر کرنا اور پھر آہستہ آہستہ وہ اسکی محبت میں مبتلا ہوگئی لیکن جسکا اس نے اب تک اظہار نہیں کیا۔۔کیونکہ نکاح کے وقت اسنے بڑا شور مچایا تھا کہ وہ نکاح نہیں کرنا چاہتی لیکن ماما کی خواہش اور بیماری کی وجہ سے اسنے ہتھیار ڈال دیا لیکن وہ حدید کو واضح طور پر جتلا چکی تھی کہ وہ کبھی اس سے محبت نہیں کریگی اور جوابأ حدید نے بڑے ہی نرمی سے اسے کہا تھا"دیکھنا تمہیں مجھ سے محبت ہوجائے گی".....اور اب اسکے اظہار میں انا بیج میں آرہی تھی۔

حدید ابراہیم شہلا اور ابراہیم علی کا دوسرا سپوت ہے انکا بڑا بیٹا حمید ابراہیم شادی کرکے کنیڈا میں ہی مقیم تھا۔

اب دیکھنا ہے علایا اظہار کرتی بھی ہے یا نہیں اور کرتی ہے تو کس طرح۔۔

                                ***********

"علایا ارے علایا کہاں ہو"؟......نانو لاؤنج میں بیٹھی اسے آوازیں لگارہی تھی۔۔

"کیا ہوگیا ہے نانو کیوں آوازیں لگا رہی ہیں"؟.......علایا جو ابھی ناشتے سے فارغ ہوئی تھی اور اب اپنے کمرے میں جارہی تھی انکے پاس آئی۔

"وہ ملازمہ سے اپنی نگرانی میں گیسٹ روم صاف کروادو".....وہ تسبیح ہاتھ میں پکڑے انگلی سے ایک ایک کرکے موتی کو نیچے کی طرف چھوڑ رہی تھی۔

"کیوں؟اب کیا آپ ب کا چہیتا حدید تو یہاں شفٹ نہیں ہورہا"؟......وہ کمر پر ہاتھ رکھتے آئبرو اچکائے پوچھی۔

"تو نے قسم کھا رکھی ہیں نہ کبھی شوہر کو عزت سے نہیں بلائے گی"......نانو خفگی سے بولی وہ اپنی اکلوتی نواسی پر غصہ نہیں کرنا چاہتی تھی لیکن انکی نواسی کی حرکتیں ہی ایسی تھی۔

"اچھا نہ نانو پہلے مجھے بتائیں کون آرہا"......

"تیری رضیہ پھوپھی کی بیٹی سبرینہ آرہی ہے".......وہ اپنے برابر میں رکھی چھوٹی گول میز سے چائے کا کپ اٹھاتے چائے کی چسکیاں لینے لگی

"وہی رضیہ پھوپو نہ جو پانچ سال سے کوئی خبر نہیں لی"؟......وہ تھوڑے غصے سے بولی۔

"چھوڑ بچے غصہ نہیں کرتے کہ رہی تھی نمبر مس ہوگیا تھا اور پھر تیرے پھوپھا کو برین ٹیومر ہوگیا تھا اسی میں پھنسی ہوئی تھی اب انکی بیٹی پاکستان آنا چاہ رہی ہے گھومنے پھرنے"........نانو کو بھی برا لگا تھا لیکن نانو درگزر کردی اور اب اسے بھی وہی تلقین کررہی تھی۔

"ٹھیک ہے"....وہ بادل ناخواستہ مان گئی اور ملازمہ کو بلانے لگی۔

                             ************

کمرے سیٹ کروانے کے بعد اب وہ کھانا بنوارہی تھی۔۔ابھی وہ شاور لیکر آئی تھی،،ہلکے گیلے لمبے کو ہاف کیچر مقید کیے کھلا چھوڑ دیا دیا تھا،،بلو رنگ کے تھڑی پیس ڈیزائنر سوٹ میں اسکی صاف رنگت کھل رہی تھی۔۔

گول چہرہ،،رنگت بہت ذیادہ گوری نہ تھی لیکن صاف تھی،کالی آنکھیں اس پر گھنی پلکوں کا جھالر وہ خوبصورت سی تئیس سالہ لڑکی تھی جو حال ہی میں گریجویش مکمل کی تھی۔

ابھی وہ ہدایت دے رہی تھی کہ پیچھے سے آتی آواز پر مڑی۔

"آج ہماری بیوی کچن میں سب خیریت ہے نہ"؟.....وہ دھیمی مسکراہٹ لیے اسکے کان میں سرگوشی کیا۔

"پھوپھو کی بیٹی سبرینہ آرہی ہے"....وہ منہ بگاڑتے بولی،،جس پر وہ ہلکا سا قہقہ لگایا۔

"تم آج پھر ادھر یہ آفس میں کیا دل نہیں لگتا"......وہ دونوں اب لاؤنج میں آگئے تھے۔

"دل جب یہاں ہے تو وہاں کیسے لگے گا"......وہ ذومعنی انداز میں کہتا صوفے میں گرنے کے انداز میں بیٹھا

"تم فضول ہی بولنا"...... گھٹنوں کے بل بیٹھے وہ میز میں رکھے گلدان پر پھول لگارہی تھی۔

"میں تو وہی کہتا ہو جو دل کہتا ہے".....وہ اسے نظروں کی گرفت میں لیا ہوا تھا۔

"سیدھے سے بتاؤ کیا کررہے ہو یہاں".......وہ اسکی نظروں سے جھنجھلا رہی تھی جسے وہ بخوبی محسوس کررہا تھا۔

"تم ایسے سوال کرتی بلکل بیوی لگ رہی ہو"........وہ ہنسا تھا جس سے دائیں گال میں ایک گڑھا بنا تھا۔

وہ اسے سخت گھوری سے نوازتی اپنے کام میں مشغول ہوگئی۔

"اچھا بابا بتا رہا ہوں نانو نے کچھ سامان منگوائے تھے اور اپنا ہی آفس ہے جب چاہو آجاؤ اور اب اتنے مزے مزے کے مینیو دیکھ کر جانے کا دل نہیں کررہا"........وہ اسوقت ٹی شرٹ اور پینٹ میں ملبوس تھا جس سے ظاہر تھا وہ گھر سے فریش ہوکر آیا ہے۔

"اب آہی گئے ہو ذرا گیسٹ روم کا بلب ٹھیک کروادو ایک تو پتہ نہیں اس سبرینہ کو یہاں آنے کا کون سا شوق پڑگیا"......وہ سخت جھنجھلائی ہوئی لگ رہی تھی۔

"چلو کروادیتا ہوں اور یہ سب چھوڑو ملازمہ کو کہ دو،اور تم اثہنے لئیے اور میرے لئیے اورنج جوس لے کر آؤ"......وہ اسکو وہاں سے اٹھاتا نرمی سے کہتا وہاں سے چلا گیا۔

اور پیچھے وہ آہستگی سے مسکرادی۔

                               **********

دوپہر کے دو بج رہے تھے تب ہی سبرینہ صاحبہ کی آمد ہوئی،علایا کی پھپھو جرمنی میں رہتی تھی۔

علایا اندر ہی تھی اور حدید کو نانو نے اسے گیٹ سے ریسو کرنے کہا تھا کہا تھا تو علایا کو بھی لیکن وہ صاف انکار کرگئی۔۔

"ہیلو سبرینہ"......وہ رسما مسکرتا ہوا اسے ویلکم کیا۔

"ہائے"....ٹاپ اور جینز میں ملبوس ڈارک لپسٹک اور بالوں کی اونچی پونی ٹیل وہ ایک ادا سے آنکھوں سے گوگلز ہٹاتے بولی۔

"تم شاید ماموں کے فرینڈ کے بیٹے ہو رائٹ".....وہ جب یہاں آخری بار آئی تھی تو بیس سال کی تھی۔

"یس حدید"......

"اوہ ہاں حدید ویسے پہلے سے بھی ہینڈسم ہوگئے ہو".......وہ ستائشی نظروں سے دیکھتی تعریف کی۔

"تھینکیو اندر چلیں".......وہ فارمل انداز میں بولا

"وائے ناٹ".....وہ بلاوجہ ہی قہقہ لگائی۔

باہر آتی علایہ جو انکے اندر نہ آنے پر دیکھنے آئی تھی اس سبرینہ کو دیکھ کر اسکا پارہ ہائی ہوا تھا۔

وہ تیزی سے چلتی انکے قریب آئی اور حدید کے پاس کھڑی ہوگئی۔

"ہیلو علایا"......وہ ٹیشو سے اپنا چہرہ تھتھپاتے بولی

"اسلام علیکم".......علایہ لبوں میں ایک جاندار مسکراہٹ سجائے سلام کی۔۔

"وعلیکم السلام"......سبرینہ کو اسطرح حدید کے سامنے اپنی بےعزتی پسند نہیں آئی تھی۔

"حدید چلو نہ یہاں کیوں کھڑے ہو".......وہ حدید کا بازو پکڑتے مسکراتے ہوئے بولی۔

حدید تو اس کایا پلٹنے پر دل و جان سے فدا ہوا تھا،،چلو جیلسی میں ہی صحیح فائدہ تو حدید ہی کا تھا۔

"علایا تم تو چینج ہوگئ ہو بلکل ہماری طرح".....وہ اسکے بازو پکڑنے کی طرف اشارہ کرتے بولی۔

"جی نہیں سبرینہ آپی میں اب بھی ویسی ہی ہوں اور ہمیشہ ایسی ہی رہونگی".......دل جلانے والی مسکراہٹ سجائے وہ بہت ہی معصومیت سے بولی۔

جبکہ حدید اپنی پٹاخہ کی حرکتیں دیکھ کر بڑی مشکل سے ہنسی ضبط کیا تھا۔

"علایا میں صرف دو سال ہی بڑی ہوں تم سے تم نام بھی لے سکتی ہو"........وہ چبا چبا کر لفظ ادا کی۔

"وہ کیا ہے چاہے دو سال بڑا ہو یا دو مہینے بڑا بڑا ہی ہوتا ہے،،کیوں حدید"؟......

"ہاں بلکل"۔۔۔۔وہ تائیدی انداز میں سر ہلایا بھلا حدید ابراہیم علایا حدید کی بات سے انکار کرسکتا تھا۔

"ہاں چلو آپی ہی کہ دینا گڑیا نو پرابلم".....سبرینہ حدید کو دیکھتے مسکراتے ہوئے بولی۔

"چلیں اندر چلتے ہیں".......حدید ان دونوں کو لیکر اندر چلا گیا،،ملازمہ کھانا لگا چکی تھی،،کھانے کے دوران ان دونوں کی میٹھی تکرار جاری تھی۔

کھانے کے بعد نانو تو آرام کے غرض سے کمرے میں چلی گئی،،اور علایا حدید کے لیے کافی بنانے۔

"علایا میرے لیے بھی کافی بنادو"....... سبرینہ آگے آئے بالوں کو پیچھے کرتے بولی۔

"فہمیدہ آنٹی ذرا سبرینہ بی بی کے لیے کافی بنادیں"......وہ ملازمہ سے کہتی اپنے اور حدید کا کافی کپ اٹھائے لاؤنج میں چلی گئی جہاں صوفے پر حدید بیٹھا تھا۔

"یہ لیں حدید کافی"...... وہ تھوڑا فاصلے سے اسکے برابر میں بیٹھی اسے کافی کپ پکڑائی۔

حدید بیچارا اتنی عزت ملنے پر بےہوش ہوتے ہوتے بچا۔

سبرینہ سامنے والے صوفے پہ بیٹھ گئی۔

"سب ٹھیک ہیں نہ"؟.......وہ نہایت دھیمے سے سرگوشی کیا۔

"اگر اس چڑیل کو پہلے ہی اسکی لمٹ میں رکھتے تو مجھے ایسے نہیں کرنا پڑتا".......وہ بظاہر مسکراتے لیکن چبا چبا کر بولی۔

"میں نے تو کچھ نہیں کیا"......وہ حیران ہوتے فوراً سے اسکی بات کی نفی کیا۔

"ہاں نظر آرہا تھا کیسے وہ ہنس رہی تھی"......

"تم انسیکیور فیل کررہی ہو ویسے کرنا تو نہیں چاہیے مسز حدید کو"۔۔۔۔۔وہ گہری مسکراہٹ لیے بولا

"علایا اٹلیسٹ ہم جیسا اپنے آپ کو کہتے ہیں ویسے ہی دیکھتے ہیں لیکن یہاں مجھے کچھ سمجھ نہیں آرہا".......وہ طنزیہ مسکراہٹ لبوں پہ سجائی

"وہ کیا ہے نہ آپی میں بھی جیسا خود کو کہتی ہوں ویسی ہی ہوں اور آپکو تو میں حدید کا مکمل تعارف کرانا بھول گئی آئی ایم مسز حدید ابراہیم".......اسکی بات پر وہ غصہ کو قابو کرتے اسے آخر کے پانچ لفظوں میں سب کچھ جتلا گئی۔

"اوہ.... کونگریچولیشن،،چلو میں ریسٹ کرنے جارہی شام کو ملاقات ہوگی".......اسکی بات پر وہ بڑی مشکل سے کہتی کمرے کی جانب چلی گئ۔

"مجھے یہی والی علایا چاہیے پہلی والی نہیں"......اسکے چہرے پر ائی لٹوں کو وہ کان کے پیچھے ارستا بولا

علایا اسکی بات پر دھیمے سے مسکرادی۔

                                    *********

علایا کی خوشی دیکھنے والی تھی آج اسکے بابا پندرہ دنوں بعد گھر آئے تھے۔علایا کی ہر ضدیں پورے کرنے والے اسکے پیارے بابا۔

"بابا یار اتنے دنوں کے لیے نہ جایا کریں اتنا مس کیا ہے میں نے".......وہ انکے ساتھ لگی شکوہ کررہی تھی۔

"بچے بزنس بھی دیکھنا ہے اور دیکھو تو ذرا میں اپنی بیٹی کے لیے کتنی ساری چیزیں لایا ہوں".......وہ صوفے پر رکھے ڈھیر سارے بیگز کی طرف اشارہ کیے۔

اور علایا چیزیں نکال کر ایک ایک چیز پر تبصرہ کررہی تھی،،نانو مسکراتے ہوئے نفی میں سر ہلا رہی تھی۔

"ہیلو.. کیسے ہیں ماموں".......تب ہی سبرینہ آتے مسکراتے ہوئے ان سے پوچھی۔

علایا اس کو دیکھ کر منہ بناتے دوبارہ سے چیزوں میں مشغول ہوگئی۔

" فائن بچے،،آپا کیسی ہیں اور عمر کیسا ہے"؟......وہ اب اس سے جرمنی کے حال احوال پوچھنے لگے تھے۔

"نانو بات سنیں".....وہ انہیں اپنی طرف جھکاتے سرگوشی نما آواز میں بولی

"کیا؟.....

"اس چڑیل نے اور کتنے دن رہنا ہے"......سابقہ انداز میں پوچھا گیا۔

"ایسے نہیں بولتے اور تجھے کیا مسئلہ ہے اسکے ماموں کا گھر ہے جب تک رہے"۔۔۔۔۔۔نانو اسے آنکھیں دکھائی

"کسی کام کی نہیں آپ(وہ ڈرامائی انداز میں بولی)اچھا یہ دیکھیے یہ بریسلیٹ کتنا خوبصورت ہے یہ ان خوبصورت ہاتھوں میں جچے گا..…... بریسلیٹ کے ایک سرے کو انگھوٹے اور شہادت کی انگلی کی مدد سے وہ اٹھا کر انہیں دیکھی پھر انکی کلائی میں پہنانے لگی۔

"ہٹ لڑکی اب اس عمر میں اچھا لگے گا"......نانو اسکے سر میں پیار سے چپٹ لگائی۔

"نانو بننے سنورنے کی کوئی عمر نہیں ہوتی،،یہ آپ پر انحصار کرتا ہے،،ہم لوگوں کے لیے تھوڑی تیار ہوتے ہیں ہم اپنے لیے ہوتے ہیں،،جو چیز دل کو اچھی لگے پہن لینا چاہیے لوگوں کا تو کام ہی باتیں بنانا ہوتا ہے".........وہ بڑی سمجھداری سے انہیں سمجھا رہی تھی۔

"میری نواسی تو بہت بڑی ہوگئی ہے"....... وہ محبت سے اسکے ماتھے پر پیار کی۔

"ہاں بس آپ لوگ ہی نہیں مانتے چلو شکر آج یقین آگیا"......وہ بریسلیٹ انکی کلائی کی زینت بنا چکی تھی۔وہ نازک سا بریسلیٹ انکے گورے ضعیف ہاتھوں میں اچھا لگ رہا تھا۔

"کیا باتیں چل رہی ہیں نانو نواسی کی".......افتخار صاحب انکے راز و نیاز پر مسکراہٹ لیے علایا کو دیکھے ۔

"یہ ہمارے سیکریٹ ہے سو میں نہیں بتا سکتی".......علایا کی ہنسی لاؤنج میں گونجی تھی۔

                          **************

"رات ڈنر پر ابراہیم علی انکی بیوی اور حدید مدعو تھے۔بریانی،پاستہ،تکہ،کباب،ریشین سیلیڈ اور فروٹ ٹرائفل کی خوشبو ڈائننگ ہال میں پھیلی ہوئی تھی۔

"میں سوچ رہا ہو اس بکراعید میں اپنی بیٹی کو اپنے گھر لے جاؤں آپکا کیا خیال ہے افتخار".......وہ کانٹے میں لگے کباب کے ٹکرے کو منہ میں رکھے۔

"ہاں کیوں نہیں آپکی ہی بیٹی ہے جب چاہیں لے جائیں".......وہ مسکرائے

حدید کی پرشوخ نظریں اس پر جمی تھیں اور وہ سب کے سامنے کنفیوز ہورہی تھی۔

"ارے بچے بیس دن میں سب تیاری کیسے ہوگی".......نانو پریشان سی گویا ہوئی۔

"اماں آپ پریشان نہ ہو میں ہوں نہ ساری تیاری کرلونگی".......شہلا نانو کے ہاتھ کو تھپتھپائیں۔

"اور نانو میں بھی تو ہوں بہن کی شادی ہے ساری تیاری چٹکیوں میں کرونگی".......سبرینہ کی خوشگوار آواز پر حدید اور علایا نے چونک کر اسے دیکھا پھر ان دونوں نے ایک دوسرے کو سوالیہ نظروں سے ایسے دیکھا کہ اچانک اسے کیا ہوا۔

"ہاں میری بچی ضرور"........نانو محبت سے اسے بولی

اور یوں ہنستے مسکراتے سب نے پر تکلف ڈنر کیا۔ان دونوں کی رخصتی عید کے پہلے روز طے پائی تھی۔


ڈنر کے بعد سب بڑے ایک ساتھ ہوکر باقی کی چیزیں ڈسکس کرنے لگے اور وہ تینوں لان میں چلے گئے۔تینوں کے ہاتھ میں کافی مگ تھے۔

"میں جانتی تم لوگوں کے ذہن میں کئی سوال ہونگے،،آؤ بتاتی ہوں".......وہ ان دونوں سے مسکرا کر کہتی لان میں رکھی کرسی پر جا بیٹھی،وہ دونوں بھی اسکی تقلید کیے۔

"سبرینہ آپی کیا کہنا ہے جلدی کہیے"۔۔۔۔۔۔۔

"میں جب یہاں آئی تو حدید مجھے اچھا لگا لیکن جب پتہ چلا تم دونوں کا نکاح ہوا ہے تو اس رات ہی میں پیچھے ہٹ گئی،،کیونکہ میں نے جرمنی میں ایک شخص سے سچی محبت کی تھی لیکن وہ مجھے مل نہیں سکا اور میں تم دونوں کو الگ نہیں کرنا چاہتی تھی،،ہاں میں منہ پھٹ ہوں لیکن ابھی آئے ایک ہی دن ہوا اور علایا نے کچھ اور محسوس کرلیا"........وہ مسکراتے ہوئے بول رہی تھی۔

"سوری مجھے بھی آپ سے روڈ بیہیو نہیں کرنا چاہیے تھا"......علایا کو بھی اپنی غلطی کا احساس ہوا،ایک ہی دن میں اسنے کیا کچھ اخذ کرلیا تھا۔

"جب انسان کسی سے اپنی جان سے بھی ذیادہ محبت کرتا ہے تو وہ پوسیسو ہو ہی جاتا ہے کوئی بات نہیں"۔۔۔۔۔۔۔

اور پھر تینوں میں کل سے اب تک خوشگوار گفتگو ہوئی تھی

                       ******************

دن گزرتے گئے اور پلک جھپکتے سترہ دن گزر گئے اب صرف تین دن باقی تھے۔شادی کی تیاریاں زور و شور سے جاری تھی۔سبرینہ نے تو بہت اچھے سے شاپنگ کا کام مکمل کروالیا تھا۔

حدید بلیک ٹی شرٹ اور جینز میں ملبوس بائیں ہاتھ میں گھڑی پہنے نک سک سا تیار افتخار صاحب کے پاس آیا۔وہ منڈی بکرا لینے جارہا تھا تو افتخار صاحب نے اپنا بکرا لانے کی ذمہ داری بھی اسے دیدی۔

"بابا یہ کہاں جارہا"؟.......اور علایا جو وہاں سے گزر رہی تھی بکرا کے نام سن کر فوراً ادھر آئی۔

"منڈی جارہا ہے کیوں خیریت"؟.......افتخار صاحب حدید کو پیسہ پکڑاتے پوچھے۔

"بابا میں نے بھی جانا ہے".......اسکی اس خواہش پر تو حدید آنکھیں نکالے دائیں بائیں سر ہلایا۔

"اس لڑکی کا کچھ نہیں ہوسکتا"......وہ زیر لب بڑبڑایا۔

"بیٹا آپ وہاں جاکر کیا کرینگی"؟......نرم لہجے میں وہ اس سے مخاطب ہوئے۔

"بابا میں اپنے بکرا خود پسند کرونگی،اگر یہ اپنے تگڑا اور ہمارا کمزور سا لے آیا"........وہ آنکھیں چھوٹی کیے اسے گھوری۔

اس الزام پر حدید کا منہ کھلا۔

"نہیں بچے حدید ایسا نہیں کریگا اور وہ اپکا شوہر ہے اسطرح بات نہیں کرتے"......

"اچھا نہ بابا جانے دیں"........وہ پیار سے انہیں منانے لگی۔

"جاؤ لیکن کوئی بیل ماردے تو مجھ سے شکوہ نہیں کرنا"........وہ ہنستے ہوئے اسے اندر چلے گئے۔

"میرا بیل ہے نہ بچا لے گا".......وہ شرارتی نظروں سے حدید کو دیکھی۔

"بیل کی جگہ کچھ اور بھی بول سکتی تھی"......وہ مسکراتا کوئے اسے دیکھا۔

"اب تو بیل ہی کہونگی".......اسکی آنکھیں شرارت سے چمک رہی تھی۔


وہ دونوں منڈی پہنچے تو ہر طرف جانور دیکھ کر وہ تھوگ نگلی۔

"حدید یہ اتنے سارے جانور کیوں ہیں"؟.......وہ بظاہر مسکراتے پوچھی لیکن آنکھوں میں خوف تھا

"منڈی میں جانور نہیں ہونگے تو کیا تم ہوگی"؟......اسکے بے تکے سوال پر حدید اسے گھورا۔

"نہیں میرا مطلب کچھ ذیادہ ہی ہیں"......ہونٹوں پر زبان پھیرتے وہ آس پاس نظریں دوڑا رہی تھی۔

"اندر جانا ہے یا گاڑی میں ویٹ کروگی"؟........وہ ہلکے سے مسکرائے پرشوخ نظروں سے اسے دیکھا۔

"گاڑی میں بیٹھنے کے لیے تو نہیں آئی ظاہر ہے اندر جاؤگی"........وہ لہجے کو ہشاش بشاش بناتے بولی۔

انا بھی تو کوئی چیز تھی۔

حدید اب بکروں کو دیکھ رہا تھا اور وہ اسکا بازو تھامے آس پاس نظریں دوڑاتے دھیان  سے چل رہی تھی۔

"حدید یہ بکرا"........وہ اسکی آستین کو اپنی مٹھیوں میں جکڑتے بکرے کی طرف اشارہ کی جو میں میں کرتے اسکے قریب کھڑے ہوگیا تھا۔

"یہ والا لینا ہے چلو یہی ڈن کرتے ہیں".......وہ ہنسی چھپاتا سنجیدگی سے بولا

"اسکو میرے قریب سے ہٹاؤ"........وہ آنکھ دیکھاتے ہلکے سے غرائی۔

حدید بکرے کو اہنے طرف کھینچا اور پھر یہی والا بکرا خریدا۔

"یہ کیا کررہے ہو تم"؟؟؟.......وہ اسکی پیمنٹ کرتے دیکھ کر آہستے سے اسکے کان کے قریب بولی۔

"یہ بکرا افتخار انکل کے لیے خریدا ہے میں نے"........ آنکھوں کی چمک دیدنی تھی۔

"تم...."،،،،،وہ بس یہ کہ کر خاموش ہوگئی کیونکہ وہ خرید چکا تھا اور بکرا تگڑا اور خوبصورت بھی تھا۔


                          **************


    تھوڑے ہی آگے چل کر حدید کو اپنے لئے بھی دو بکرے پسند آگۓ جو اس نے مناسب قیمت میں لے لیا۔ اب علایا کو ایک نئ فک ر لاحق ہو  گئ کہ انہیں گھر کی سے لے کے جائیں گے۔

" حدید سنیں"۔۔۔ اس نے ہمت کر کے اسے مخاطب کیا۔

"جی سنائیں".. حدید نے فون میں میسج  سینڈ کرکے اسے دیکھا۔۔

 "یار پہلے آپ اس بکرے کو دور رکھیں بلا وجہ لاڈیاں کروانے کا شوق ہو رہا اسے"۔۔ حدید کی زبردست گھوری نے اس کی چلتی زبان پر بریک لگائی۔۔۔۔

"اچھا میری بات تو رہ گئی"۔۔ علایا منمنائی۔۔

"اچھا کہیں سن رہا ہوں"۔۔۔۔۔۔

"ہم بکرے کار میں لے کر جائیں گے"؟...

 "ہاں نہ۔۔۔ بیک سیٹ پر دو بکرے اور فرنٹ پر ایک کو بیٹھاؤں گا"۔۔۔۔۔۔وہ چہرے میں سنجیدگی سجائے دل ہی دل میں اسکے تاثرات انجائے کررہا تھا

" اور میں"؟ علایا نے برجستہ کہا۔۔۔۔۔۔

"تم۔۔ تمہاری جگہ تو ڈگی میں ہی ہو گی اب اور کر بھی کیا سکتے"۔۔۔۔حدید نے ابھی اور گل افشانیاں اڑانی تھی لیکن سامنے سے آتے اپنے دوست اور علایا کی رونی صورت دیکھ کر چپ کر گیا۔۔

 "اوہہہہہ ہاۓ جگر کیسا ہے؟ اور بھئ خوب مزے ہیں تیرے بھابھی کو بھی ساتھ لے کر گھوم رہا ہے"۔۔ آخری بات اس نے سرگوشی میں کی تھی تاکہ علایا تک آواز نہ جاۓ۔۔۔۔۔

"بیٹا میں بالکل ٹھیک ہوں ۔۔ آپ کو جس کام سے بلایا ہے وہ کریں"۔۔۔۔حدید نے کہتے ساتھ ہی بکروں کی رسی حارث کے ہاتھ میں تھما دی۔۔۔۔

" ارے ارے یہ بکروں کو کہاں لے کر جا رہے ہیں"؟......علایا تیزی سے بولی

 "صبر بیگم صبر۔۔! اوہ سوری۔۔ منکوحہ صاحبہ"۔۔۔۔۔حدید نے شرارتی نظروں سے اسے دیکھا لیکن علایا کا دھیان تو اپنے بکرے کی ہی طرف تھا اس کی پریشان صورت دیکھ کر اس نے خود ہی بتانا شروع کیا اور ساتھ اس کا ہاتھ پکڑ کر اپنے ہمقدم کیا۔۔۔

" دراصل وہ میرا دوست ہے یار یونی کے دور کا۔ منڈی آیا تھا تو میں نے ہی کہا تھا کہ میرے بکرے بھی اپنی گاۓ والی گاڑی میں لے جانا"۔۔۔۔۔۔

یہ سن کر علایا کی جان میں جان آئ۔۔۔۔۔۔

"چلیں اب کافی دیر ہو گئ ہے کافی تھک گیا ہوں میں"۔۔۔۔۔حدید نے اپنی گردن میں ہاتھ رکھا۔۔

"ہاں ہاں بکرے تو آپ اپنے گود میں لے کر گھوم رہے تھے نہ،،ہونہہہ"۔۔۔۔علایا نے فوراً جواب دینا اپنا فرض سمجھا۔۔ خیر رات کے تقریباً ساڑھے آٹھ پر وہ گھر آۓ۔۔ بکرے تو حارث پہلے ہی دے گیا تھا۔۔۔

" آپ اندر نہیں آئیں گے"؟ علایا نے اسے گاڑی میں ہی بیٹھے دیکھ کر دروازے سے آواز لگائ۔۔

 لیکن حدید نے اگنور کرکے اپنے گھر کے آگے ہارن بجائ اور گاڑی اندر لے گیا۔۔ علایا کا تو منہ ہی کھل گیا کیونکہ آج سے پہلے حدید نے ایسا رسپونس اسے کبھی نہیں دیا تھا۔۔ تھکی ہوئ تو وہ بھی تھی آدھا گھنٹہ نانو بابا کے پاس بیٹھ کر انھیں ساری کہانی سنا کر کمرے میں چلی گئ ۔ دوسرے دن صبح جب حدید آیا تو بابا سے قصائ کی بات کر کے چلا گیا اور اسے دیکھا تک نہیں۔۔ اب اسے یہ فکر کھائ جا رہی کہ حدید ایسا کیوں کر رہا جبکہ منڈی میں تو ٹھیک تھا۔۔ بڑے ہی سوچ بچار کے بعد جب اس کے چھوٹے سے دماغ میں یہ بات نہ آئ تو نانو کے پاس چلی گئ۔۔ اب وہ نانو کی گود میں سر رکھے سوں سوں کر رہی تھی۔۔

"نانو لیکن میں نے تو اسے کچھ نہیں کہا پھر کیوں اتنا اٹیٹیوڈ دکھا رہا"؟ ابھی ابھی علایا میڈم کو حدید کی غلطی نظر آرہی تھی ۔۔

"ارے پگلی نہ ہو تو،،جب بات کرتا ہے تو پنجے جھاڑ کر پیچھے پڑی رہتی ہے اور بات نہیں کر رہا ہے تو اس میں بھی مسئلہ"۔۔۔

"بھئ نانو میں نے اسے بات کرنے سے تو منع نہیں کیا نہ"۔۔۔ اس نے نانو کے دوپٹے سے اپنی ناک رگڑی۔۔

"چل پرے ہٹ گندی،،اپنا مسئلہ خود ہی حل کر لیکن میری ایک بات پلو سے باندھ لے اپنے،،شوہر چاہے جتنا بھی اچھا ہو،،بھلے ہی بیوی سے کتنی ہی محبت کیوں نہ کرتا ہو لیکن ان سب کے بدلے وہ ہمیشہ اپنی  بیوی سے عزت چاہتا ہے،، اب ذرا ہوش کے ناخن لے اور ادب و احترام سے بات کیا کر اس سے آخر کو رتبہ بڑا ہے تجھ سے اسکا،،سمجھ میں بات آئ اس موٹی عقل میں"۔۔۔ نانو نے علایا کے ماتھے میں ذور سے انگلی بجائ۔۔

"ہاں ہاں یار نانو آگئ بات سمجھ اب سر نہ پھاڑ دیجئے گا میرا"۔۔۔ علایا نے ماتھے پر ہاتھ رکھ کر ڈرامائ انداز میں کہا۔۔

دیکھتے دیکھتے رخصتی کا دن بھی آگیا۔۔ صبح سنت ابراہیمی سے فارغ ہوۓ اور رات کو عزیز مہمانوں کے ساتھ اسے رخصت کر دیا جس پر علایا نے نانو بابا کے گلے لگ کر خوب آنسو بہاۓ۔۔

اگلی صبح نانو نے ناشتے کا اہتمام اپنے گھر پر کیا اور پھر حدید نے سب سے اجازت لے کر اسے ساحل سمندر پر لے آیا ۔ علایا کب سے ہی حدید سے بات کرنا چاہ رہی تھی لیکن ہمت نہیں ہو رہی تھی ۔۔ خیر جب سمندر پر گاڑی سے اتر کر حدید نے اس کا ہاتھ تھاما تو اسے حوصلہ ملا۔۔

"حدید مجھے آپ سے بات کرنا ہے"۔۔۔۔۔علایا نے ہمت مجتمع کرکے بات کا آغاز کیا۔۔

 حدید تو اس کے "آپ" کہنے پہ ہی اٹک گیا۔۔

"کیا ہوا خیریت ہے اتنی ی ی ی عزت"؟؟۔۔۔۔۔۔حدید نے عزت کو تھوڑا لمبا کھینچا تو وہ شرمندہ ہو  گئ۔۔۔۔۔

 "وہ آئ ایم سوری ان سب باتوں کے لیے جو شاید میں نے انجانے میں کہی یا جان کر آپ سے بد تمیزی کی"۔۔۔۔۔اسکے چہرے پر شرمندگی کے آثار تھے

"علایا علایا یار کیا ہو گیا تمہیں سوری کیوں کر رہی"۔۔۔ حدید نے اس کا ہاتھ تھاما ۔۔

"وہ آپ نے اتنے دنوں سے مجھ سے بات نہیں کی نہ۔۔ مجھے لگا آپ مجھ سے ناراض ہیں"۔۔۔۔۔اس نے زور سے آنکھیں میچ لی۔

 "اف ایسا کچھ نہیں ہے ،، ہاں اس دن تھوڑی دیر کے لیے ناراض تھا لیکن پھر تو سب صحیح ہو گیا، باۓ دی وے "آپ" بولتی ہوئ کیوٹ لگ رہی ۔۔ حدید  نے اس کے گال کھینچے ۔ علایا کھلکھلا دی ۔

 "Thank you for coming in my life.. It is honoured for me to have you as my life partener"

حدید نے اس کی آنکھوں میں دیکھ کر کہا۔۔

"Thanks to you to accept me as same as I am..

I feel lucky to have you in my life.. Thank you for everything.."

علایا نے بھی فوراً سے اظہار کیا کیونکہ اس کا اظہار اس کے محرم سے تھا  جس میں کوئ انا اور جھجھک آڑے نہیں آتی۔۔

حدید کے ہونٹوں نے مسکراہٹ کو چھوا کیونکہ اس کی بیوی اس کی محرم نے پہلی دفعہ اس سے یوں محبت کا اظہار کیا تھا۔

حدید اپنے ساتھ لائے گجرے اسکے دونوں ہاتھوں میں سجایا۔

"آج یہ پرفیکٹ لگ رہا ہے،مجھے تمہارے ہاتھوں میں مہندی اور گجرے پسند ہے تم مہندی لگائے رکھنا اور میں یونہی تمہیں گجرے پہناتے رہونگا".......وہ محبت بھرے لہجے میں کہا علایا شرمیلی سی مسکراہٹ کے ساتھ سر ہلادی۔۔

حدید نے علایا کا ہاتھ تھاما اور دونوں گیلی ریت پر ہمقدم ہوۓ ۔۔۔


سوچتی ہوں شاید وہ پل آئے زندگی میں

جب تیرا ہاتھ تھام کر گیلی ریت پر تیرے ہمقدم ہوں

تیری تمام ناراضگیوں کو اپنی آنچل میں باندھ کر

روز رات کو ان میں سے ہر ایک کا مداوا کروں

سوچتی ہوں شاید وہ لمحہ آئے زندگی میں

جب تجھے بھی اپنے دل کا حال سناؤں

تجھے بھی اپنے سارے وعدوں کا پابند کروں

اور تو بھی خندہ پیشانی سے میرے سارے وعدوں کو پورا کرے

سوچتی ہوں شاید وہ گھڑی آئے زندگی میں

جب تیری چاہ میں تجھے پانے کیلئے قبول ہے کا جام پیوں

تیری یادوں کے پلندوں کو ماضی میں ڈال کر

تیرے روبرو ہوکر اپنے حال میں کھو جاؤں

(ازقلم علیشاہ انعم)


                                    ختم شد

                              




COMMENTS

Name

After Marriage Based,1,Age Difference Based,1,Armed Forces Based,1,Article,7,complete,2,Complete Novel,634,Contract Marriage,1,Doctor’s Based,1,Ebooks,10,Episodic,278,Feudal System Based,1,Forced Marriage Based Novels,5,Funny Romantic Based,1,Gangster Based,2,HeeR Zadi,1,Hero Boss Based,1,Hero Driver Based,1,Hero Police Officer,1,Horror Novel,2,Hostel Based Romantic,1,Isha Gill,1,Khoon Bha Based,2,Poetry,13,Rayeha Maryam,1,Razia Ahmad,1,Revenge Based,1,Romantic Novel,22,Rude Hero Base,4,Second Marriage Based,2,Short Story,68,youtube,34,
ltr
item
Urdu Novel Links: Teri Meri Eid By Ayesha Asghar Short Story
Teri Meri Eid By Ayesha Asghar Short Story
https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEg7VdJjbKZEtbZngUk0mZQXSVWD9Sea4w8rr3-xtr3rw3L_Mz4lgpzWQKCnkiFRV3KiqsHBbCj6Dt6J20x9zojxd6pf8GyTTknpuT0R_fpmUsWlSzGvwYGub-37vNkxkyDgWV00vgYRT0QVnUg4toE_slHnnGqZmi0xHD5kPcUTmdhSczUqoyiIlDE-/w400-h400/292716448_530155722197278_8661753857514718237_n.jpg
https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEg7VdJjbKZEtbZngUk0mZQXSVWD9Sea4w8rr3-xtr3rw3L_Mz4lgpzWQKCnkiFRV3KiqsHBbCj6Dt6J20x9zojxd6pf8GyTTknpuT0R_fpmUsWlSzGvwYGub-37vNkxkyDgWV00vgYRT0QVnUg4toE_slHnnGqZmi0xHD5kPcUTmdhSczUqoyiIlDE-/s72-w400-c-h400/292716448_530155722197278_8661753857514718237_n.jpg
Urdu Novel Links
https://www.urdunovellinks.com/2022/07/teri-meri-eid-by-ayesha-asghar-short.html
https://www.urdunovellinks.com/
https://www.urdunovellinks.com/
https://www.urdunovellinks.com/2022/07/teri-meri-eid-by-ayesha-asghar-short.html
true
392429665364731745
UTF-8
Loaded All Posts Not found any posts VIEW ALL Readmore Reply Cancel reply Delete By Home PAGES POSTS View All RECOMMENDED FOR YOU LABEL ARCHIVE SEARCH ALL POSTS Not found any post match with your request Back Home Sunday Monday Tuesday Wednesday Thursday Friday Saturday Sun Mon Tue Wed Thu Fri Sat January February March April May June July August September October November December Jan Feb Mar Apr May Jun Jul Aug Sep Oct Nov Dec just now 1 minute ago $$1$$ minutes ago 1 hour ago $$1$$ hours ago Yesterday $$1$$ days ago $$1$$ weeks ago more than 5 weeks ago Followers Follow THIS PREMIUM CONTENT IS LOCKED STEP 1: Share to a social network STEP 2: Click the link on your social network Copy All Code Select All Code All codes were copied to your clipboard Can not copy the codes / texts, please press [CTRL]+[C] (or CMD+C with Mac) to copy Table of Content