Zindagi Tere Sitam By Barrera khan Short Story زندگی تیرے ستم بریرہ خان تاشفہ وہ لڑکی جسے محبت سے ہی نفرت تھی۔ جسے لگتا تھا کہ محبت صرف فا...
Zindagi Tere Sitam By Barrera khan Short Story
زندگی تیرے ستم
بریرہ خان
تاشفہ وہ لڑکی جسے محبت سے ہی نفرت تھی۔ جسے لگتا تھا کہ محبت صرف فارغ لوگوں کا کام ہے۔محبت
محض اک کھیل ہے۔ وہ سوچتی تھی،پتہ نہیں کیوں لوگ محبت میں مرنے مرانے پر اتر آتے ہیں۔
یہ سب ناٹک ہوتا ہے۔ فالتو کے ڈرامے ہوتے ہیں۔وہ ایک کالج کی طالبہ تھی۔ وہ دیکھتی رہتی تھی، کالج میں
ہر روز یہ سب۔۔۔
محبت نام سے نفرت کرنے والی تاشفہ کا اک دن ایک لڑکے سے ٹکراؤ ہوگیا۔ وہ جس کا نام ساجد تھا
فورتھ ائیر کا اسٹوڈنٹ تھا۔نظروں سے نظریں ملیں۔ دونوں جانب سے فوراً معذرت کر لی گئی۔لیکن
تاشفہ اسی اک لمحہ میں الجھ کے رہ گئی تھی۔
پھر اسی طرح ٹکراؤ ہونے لگا۔۔ ایک نہیں، دو نہیں،
ہر روز ہونے لگا۔۔وہ جان بوجھ کر اسی حصے میں کھڑی ہوتی۔ جہاں سے ساجد کا گزر ہوتا
۔ساجد بھی جان گیا تھا۔ تاشفہ جان بوجھ کر ایسا کرتی ہے۔۔ اس نے اس جذبے کو اسکی آنکھوں سے پڑھ لیا تھا۔وہ
کہتے ہیں نہ عشق اور مشک چھپائے نہیں چھپتے۔تاشفہ اور ساجد کا بھی معشوقہ چل پڑا تھا۔آنکھوں
سے محبت میں سیر ہونے والا۔۔
اب ساجد کو
بھی اس میں دلچسپی ہونے لگی تھی۔ یوں نام پوچھا
گیا۔ بات چیت ہونے لگی۔۔ پھر ایک دن ساجد نہیں آیا۔۔
تاشفہ کو بے چینی ہونے لگی تھی۔ وہ بس اسی بارے
سوچنے لگی تھی۔ بس ایک ہی سوال زہن نشین تھا۔کس سے پوچھوں اسکے بارے میں؟؟
وہ تو کسی
کو جانتی بھی نہیں۔۔ یوں سارا دن اداس گزرا تھا اسکا۔اگلے دن ساجد کو دیکھتے ہی بے
چینی سے تڑپ کر اس نے سوال کیا تھا۔۔کہاں سے تھے تم۔کل آئے کیوں نہیں۔آگے سے جھٹ بہانا
حاضر تھا ساجد کا۔۔جو آجکل ہر لڑکی لڑکا ایک دوسرے کو بولتے رہتے۔
گھر مصروف تھا طبیعت نہیں ٹھیک۔۔جبکہ اصل میں تو
ڈیٹ پر جاتے ہیں یہ لوگ۔۔
پھر موبائل نمبر ایکسچینج کیا گیا۔۔۔
تاکہ خیریت
دریافت ہو سکے۔۔۔
یوں میسجز کا دور شروع ہوا۔۔ میسجز پہ ہی اظہار
ہو گیا۔۔ میٹھی میٹھی باتیں ہونے لگیں۔۔ پھر کالز پہ گھنٹوں باتیں۔۔۔ وہی بے حیائ سے
لبریز ساری رات باتیں کرنا۔۔ اور اب تو جیسے ان باتوں کے بناء دل ہی نہیں لگتا تھا
اسکی آواز سنے بنا دل کو راحت ہی نہیں ملتی تھی۔
تاشفہ سمجھ نہیں پارہی تھی اپنی کیفیت۔۔
بات
کرتے کرتے ایک دن ساجد نے ملنے کی خواہش ظاہر
کی۔کسی ہوٹل میں۔۔
ہاں وہی ماں
باپ کو دھوکا دے کر ایک نامحرم سے تنہائ میں ملنے کی فرمائش۔۔
محبوب کی
فرمائش تھی۔۔۔ نہ کر کے بے وفائی کیسے مول لے سکتی تھی۔۔ نہ نہ کرتے کرتے کچھ شرائط
پر رضامندی دے دی گئی تھی۔ماں باپ کی عزر کا شملہ گرنے والا تھا۔
تو تاشفہ
کی نظر میں نیہ ثابت ہوا محبت بے لگام ہوتی۔ محبت نے اندھا کر دیا تاشفہ کو۔۔۔
وہ صرف محبوب
کی ناراضگی کے ڈر سے اس سے ملنے پر رضامند ہو گئی تھی۔۔
کیسا محبوب بات تو اپنے نفس کی تھی۔۔
کیا ماں باپ
کی محبت کافی نہیں ہوتی؟؟
کیا ماں باپ کی عزت معنی نہیں رکھتی.؟؟
لیکن کون
سمجھائے۔۔۔
اس نوجوان
نسل کو..
" سچی محبت کرنے والے تنہائ میں ملاقاتوں
کے لیے نہیں بلاتے۔۔"
بلکہ وہ آپکے
گھر رشتہ بھیج کر عزت سے نکاح کرتے ہیں۔۔
لیکن اسے یہ خیال نہ آیا اور کالج کی ایکسٹرا کلاس
کا کہہ کر دہلیز پار کرنے کے ساتھ اس نے ماں باپ کی عزت کی دھجیاں اڑائی تھیں ۔۔
تاشفہ جیسے
ہی کالج پہنچی۔۔
سامنے ہی
ساجد کھڑا تھا۔۔
اپنی بائیک
پر اسے دیکھتے ہی وہ اسکے ساتھ بیٹھ گئی۔۔۔
کچھ دیر پارک
میں گزارا۔
آئسکریم کھائ۔۔
محبت کا اظہار
کیا میٹھی میٹھی باتیں کیں۔۔۔
اور پھر ساجد
اسے لے کر اپنے دوست کے ایک خالی گھر میں لے گیا تھا۔۔
افسوس بنت حوا تیری نادانیوں پر۔خود لٹ رہی ہو جو
اس کو کیا کہا جا سکتا۔
پھر کہتے ہیں ماں باپ وقت پر شادی نہیں کرتے۔جنکی
تنہایاں ہوں ہی ناپاک وہ کسی اور کو کیا الزام دے سکتے۔۔
تاشفہ بھی اپنی حدود نہیں پہچان سکی۔
اور صرف وہی کیا جو اسکے دل و دماغ نے کہا جو پورا
کا پورا شیطان کے شکنجے میں تھا۔
******************
تاشفہ اور ساجد دوست کے گھر میں پہنچ چکے تھے۔۔
جو بلکل خالی تھا۔شاید انہی کاموں کے لیے استعمال
ہوتا تھا۔
ساجد اور تاشفہ باتیں کرنے لگے۔
کچھ
باتیں کر کے گلے لگا کر تعریفیں کی گئیں ایک دوسرے کی۔۔اور خوب ایک دوسرے کے ساتھ راز
و نیاز ہوئے۔۔
اور پھر تاشفہ
ساجد کی باہوں میں بکھرتی چلی گئی۔۔
وہ کہتے نہ
ایک تنہا مرد اور عورت کے درمیان شیطان ہوتا ہے۔۔
اگر نفس پہ
قابو نہ ہو تو شیطان کے ارادے کامیاب ہو جاتے ہیں۔۔
اور یہاں
تو مرد اور عورت دونوں کی ہی رضامندی تھی۔۔۔
یوں ایک گھر
کی عزت محبت کے نشے میں تار تار ہوگئی۔۔
آہ،،یہ کیسی محبتیں ہیں جو بستر پر منائی جا رہی۔یہ
کیسی محبت ہے جو نکاح کے تین لفظ قبول ہے،تک نہیں پہنچ سکتی۔ایسی محبت کو محبت کا نام
دے کر اسے بدنام نہیں کرنا چائیے۔۔نجانے کیوں لوگ ایک دوسرے سے محبت کا اظہار کرتے
ہیں۔سیدھی طرح کیوں نہیں کہتے کچھ دن تمہارے ساتھ کھیلنا ہے۔۔محبت کو بدنام کر کے اپنی
ہوس مٹانے والے کیوں اس نام کا استعمال کرتے ہیں۔
اسی طرح دو چار ملاقاتیں اور ہوئیں۔۔ماں باپ کی عزت مٹی میں رلتی رہی۔۔
کچھ دن بعد تاشفہ کی طبیعت بدلنے لگی، معمولی طور
پر سر چکرانا، متلی،اور دل گھبرانا،کمزوری
محسوس کرنا۔۔ لیکن اس نے سوچا کہ معدہ کا مسئلہ ہوگا یا گرمی کی زیادتی سے ہوا ہوگا
ایسا۔۔۔
اس نے نظر
انداز کر دیا چار مہینے بعد طبیعت کچھ زیادہ ہی غیر ہونے لگی تو ماں نے پہچان لیا۔۔
دل دہل گیا تَھا۔ماں کا یہ سوچتے ہی کہیں انکا وہم
سچ نہ ثاطت ہوجائے۔
اور لے گئیں
ہسپتال۔
ٹیسٹ ہوے اور رپورٹ کے مطابق تاشفہ پانچ ماہ کی
حاملہ تھی۔۔
ماں کا تو
سر ہی نہیں اٹھا شرمندگی سے ماں بناء کچھ بولے گھر لے آئی۔کیا کہتی انکی بیٹی نے انکے
منہ پر کالک مل دی ہے۔۔
اور خوب مارا بین کیا۔۔
اور کہنے لگیں کہ تیرے باپ کو کیا جواب دوں گی۔۔
فون ملاؤ
اسے۔۔۔
اور کہو لے
جاۓ تمہں اپنے ساتھ۔۔لیکن فون اٹھانے پر جب تاشفہ نے
ساری بات بتائی تو یہی بولا گیا کہ میں نہیں
جانتا یہ کس کا بچہ ہے پتہ نہیں کتنوں کے ساتھ منہ کالا کرتی ہوگی۔۔
میں کیسے
مانوں کہ یہ میرا بچہ ہے جو اپنے ماں باپ کو دھوکا دے سکتی ہے۔۔
وہ مجھ سے
کیا وفا کرے گی؟؟
بدکردار لڑکی
آئندہ مجھ سے بات کرنے کی ضرورت نہیں۔۔
مان
نے باپ سے چھپایا اور ہسپتال لے کے گئیں لیکن کسی صورت بھی ابورشن نہ ہو سکا۔۔
اب انہیں
کسی بھی طرح سے اس مصیبت سے چھٹکارا حاصل کرنا تھا لیکن اب ڈیلیوری کے بعد ہی کوئ حل
نکل سکتا تھا۔
باپ سے چھپا کر ماں نے اپنی بہن کے گھر پناہ لی
اور اسکی ڈلیوری تک وہیں رہی۔
ڈیلیوری
کے وقت پتہ چلا کے نارمل ڈیلیوری میں جان کا
خطرہ ہے اسی وجہ سے آپریشن ہوگا۔۔
باپ کو بتایا
گیا کہ رسولی کا آپریشن ہے آپریشن ہوگیا۔۔
سرخ و سپید
رنگت میں خوبصورت سی بیٹی ہوئی۔۔
لیکن تاشفہ نے بلڈ نہ رکنے کی وجہ سے آپریشن تھیٹر
میں ہی دم توڑ دیا۔۔۔
لیکن اس سے پہلے ہی اسکی ماں زمانے کے ڈر سے بچی
کو لے جاکے کچرا کونڈی پہ پھینک آئی۔
جب واپس آئئ
تو بیٹی کی لاش ملی یوں ایک گھر کی عزت کے ساتھ سب ہی کچھ برباد ہوگیا ۔۔
ساجد کی شادی ہوئی لیکن اسکے اولاد نہ ہوسکی۔۔
اسکی بیوی بھی دوسروں کے ساتھ چکر چلائے رکھتی۔۔
اور شر عام اپنی عزت کا جنازہ نکالتی۔ساجد اس سب
کو دیکِھ کر صرف کوستا رہتا اسے۔۔
تاشفہ کی
موت نے ماں باپ کو لمحوں میں بوڑھا کر دیا۔۔
اوپر سے لوگوں کی سو باتیں۔۔
اور وہ گڑیا کچرے میں پڑی رات کے سناٹے میں کتوں کے بھونکنے کی آواز سن کر رونے لگی تھی۔
کتے نزدیک
آتے جا رہےتھے۔
ننھی گڑیا
کے رونے میں شدت آتی جا رہی تھی۔
شاید وہ جان
گئی تھی کہ اب اسکے ساتھ کیا ہونے والا ہے۔
پاس پہنچ کر کتوں نے سرخ سفید گڑیا کو گوشت سمجھ
کر نوچ ڈالا۔۔بے دردی سے🥺
اور کچھ دیر
میں کتوں نے اپنی بھوک مٹا لی اور معصوم کی سسکیاں بھی وہیں کہیں دفن ہو گئیں۔۔
لیکن
اس میں اس معصوم کا کیا قصور ناجائز فعل تو انہوں نے نوجوان نسل نے کیا تھا۔۔۔
تو اس میں اس بچی کا کیا قصور؟
میرا سب سے یہی سوال کیا اس سب کی سزا اس معصوم
کو ملنی چائیے تھی۔۔
اس سب میں کس کا قصور ہے۔؟
اس ماں کا جس نے بیٹی کی عزت بچانے کی خاطر معصوم
بچی کو پھینک دیا زمانے کے ڈر سے۔۔
یا اس ماں کا قصور جس نے نفس کی خاطر مستقبل کا
نہ سوچا۔
یا اس انسان کا قصور جس نے مکافات عمل کے باوجود
کسی کی بیٹی کی زندگی برباد کی۔
یا قصور اس معاشرے کا ہے؟؟
نوجوان نسل کب تک یوں بھٹکتی رہے گی؟؟
آخر کب تک؟
ایک کہانی ختم ہوئی۔مگر ہر گھر میں یہ کہانی گھومتی
ہے۔
زرہ نہیں پورا سوچئیے آج ہم کس جگہ پر کھڑے ہیں؟؟
ختم شد"
COMMENTS