Honhar Barwa Ke Chikne Chikne Paat By Zaid Zulifqar Short story ہونہار بروا کے چکنے چکنے پات زید ذوالفقار سب کہتے تھے " عامر کی حسِ مز...
Honhar Barwa Ke Chikne Chikne Paat By Zaid Zulifqar Short story
ہونہار بروا کے چکنے چکنے
پات
زید ذوالفقار
سب کہتے تھے
" عامر کی حسِ
مزاح کا تو کوئی جواب نہیں۔ اسکی کوئی برابری نہیں ہے۔ اس سے تو بات بھی بہت محتاط
ہو کر کرنی پڑتی ہے کہ کب کونسا جملہ اگلے کے منہ پہ مار دے "
سارے خاندان میں اسکی نٹ کھٹ
شرارتیں اور حرکتیں مشہور تھیں۔ وہ سنجیدہ سے سنجیدہ ماحول میں ہنسی گھول دیا کرتا
تھا۔ اس دن کسی کزن کی عیادت کو گیا
" کیسا ہے برو
؟؟؟ خیر جیسا بھی ہو مجھے کونسا فرق پڑتا ہے۔ ہاہاہا۔۔۔۔ میں نے تو سمجھا تھا تو گیا
بس۔ ارے گورکن سے بات ہوگئی تھی۔ سچی۔۔۔ نمبر ہے ابھی بھی میرے پاس اگر تیرا ارادہ
بدلے تو۔۔۔ "
سامنے والا جواب سوچتا رہ
گیا۔
" ایسے بات
کرتے ہیں کسی سے ؟؟؟ اسے برا لگا ہوگا "
بعد میں امی نے ڈانٹا
" چِل کریں
یار ! ایسے ہی چلتا ہے آجکل۔ اب پتھر کے زمانے کی عیادتیں کون کرتا ہے "
یار دوستوں میں بھی وہ ہر
دل عزیز تھا۔
" ابے سا**
کل بڑی شاپنگیں ہورہی تھیں، ہمیں ایک پزا کھلاتے ہوۓ تیری جان جاتی ہے بہن*** کون تھا وہ جس
کے ساتھ تھا ؟؟؟ "
بات بے بات گالی دینا تو آجکل
ویسے بھی فیشن ہے۔ آپ ایک جملے میں جتنی بار ماں بہن کی گالی دو گے، اتنے ہی کول اور
yo کہلاؤ گے۔ اسکا بھی یہی تھا۔ ہر کسی سے ہنسی مذاق، ہنسی
ٹھٹھا۔
" یار کل سر
نے بیچ کلاس میں اٹھا لیا۔ بہن*** پتہ نہیں کیا کیا پوچھ رہے تھے۔ اتنی بے عزتی کرتا
ہے کیا کوئی "
" اسے بے عزتی
کہتا ہے ؟؟؟ سواگ ہے بھائی، جتنی دیر تو کھڑا سر کی لعنتیں سمیٹتا رہا، لڑکیاں تجھے
ہی دیکھتی رہیں "
گھر پہ البتہ گالیوں سے احتراز
برتتا تھا لیکن پھر بھی کہیں نا کہیں زبان پھسل ہی جاتی۔
سوشل میڈیا پہ بھی وہ بہت
مقبول تھا۔ اسکی پوسٹس سے ایک زمانہ محظوظ ہوتا تھا۔ اسکی میمز کا بے صبری سے انتظار
کیا جاتا۔ وہ بنا جھجھکے کڑوی سے کڑوی بات ہنستے ہنستے کہہ جاتا۔ کسی کو کچھ بھی کہہ
دیتا۔ کسی کو اچھا لگے برا، اسکی بلا سے۔ اور لطیفوں کا مقصد بھی تو بس ہنسنا اور ہنسانا
ہی ہے ناں۔
وہ دوسروں کا ہی نہیں، اتنا
ہی اپنا بھی مذاق اڑاتا تھا۔
" مجھے خود
کو گالی دینے میں کوئی عار نہیں۔ دیکھ میں تجھے چوتیا کہوں گا تو بدلے میں تو بھی تو
مجھے کہے گا۔ اٹس اوکے۔ میں بہت براڈ مائنڈڈ ہوں سالے۔ جئیو اور جینے دو "
اسکی ٹویٹس اکثر ہی گردش کرتی
دکھائی دیتی تھیں۔ ٹیڑھی میڑھی انگلش کے الٹے سیدھے جملے، کسی کو سمجھ آۓ نا آۓ، واہ واہ ہوتی۔ اسکے جیسے بہت سے اور
psudo yo موجود تھے ناں وہاں۔
ابو اس سے چھوٹے والے کو اکثر
کہتے
" بھائی سے
کچھ سیکھ۔ کتنا کانفیڈنٹ ہے۔ کسی سے کوئی بات کہتے جھجکتا نہیں ہے۔ اس دن دیکھا تھا
اسلم صاحب کو کیسا لاجواب کیا تھا۔ چپ کر گۓ۔ یہ جملے پہ جملہ مارا کہ انکی پینٹ گیلی ہوگئی "
وہ ہنس دیا۔
" اسے سیدھا
سیدھا بے عزتی کرنا کہتے ہیں "
" اسے جینا
کہتے ہیں "
خیر۔۔۔۔ ہمارے دلعزیز عامر
بھیا کی شادی ہوگئی۔ ماموں زاد تھی۔ ہاں کہہ سکتے ہو کہ کچھ کچھ پسند کی ہی شادی تھی۔
شادی کے اگلے ہی سال اللّٰہ نے بیٹا بھی دیدیا۔ سب کہتے تھے وہ باپ جیسا ہے۔ ہو بہو
" ابے ****
یہ کہاں سے میرے جیسا لگتا ہے ؟؟؟ میری ناک اتنی لمبی گاجر جیسی تھوڑی ہے۔ یہ تو کسی
اولف کی پیداوار لگتا ہے "
باقیوں سے پہلے وہ ٹھٹھہ مار
کر ہنسا تھا۔ اسکا حوصلہ اتنا ہی بڑا تھا۔ وہ کہتا تھا دوسرے تمہارا مذاق بنائیں، اس
سے پہلے تم اپنا مذاق خود بنا لو۔
خیر وقت گزرتا گیا۔ چار سال
گزر گۓ۔
اس دن وہ بیٹھا آفس کا کام
کر رہا۔ بیٹا پاس ہی بیٹھا ڈرائنگ بنا رہا تھا۔
" پاپا اس میں
پنک کروں یا ریڈ ؟؟؟ "
وہ پوچھ رہا تھا۔ عامر فون
پہ لگا تھا۔ کلائنٹ سے بات چیت۔ بزنس کی باتیں۔ کام۔ الا بلا۔
" پاپا پنک
بھروں یا ریڈ "
بار بار سوال کیا۔ وہ نظر
انداز کرتا رہا۔ بچہ غصے میں آگیا۔ اسکا بازو زور سے کھینچا اور زرا اونچی آواز میں
بولا
" ابے سالے۔۔۔۔۔
پنک یا ریڈ۔۔۔۔۔ "
عامر میاں بے یقینی سے اپنے
بیٹے کو دیکھ کر رہ گۓ۔ اسے کہہ نہیں سکے
" ابے بہن****
جو مرضی بھر۔۔۔۔۔ "
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
گفتگو کے دوران بد تمیزی نہیں
کیا کرو ( سورت البقرہ آیت نمبر 83 )
No comments
Note: only a member of this blog may post a comment.